حج و عمرہ کےدوران شہید ہونے والے
(Nadeem Ahmed Ansari, India)
موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا
کوئی منکر نہیں، حتیّٰ کہ جسے خدا اور خدائی کا انکار ہے، وہ بھی موت کی
اٹل حقیقت سے انکار نہیں کرتا، ہر ذی روح کو ایک نہ ایک دن موت آنی ہی ہے،
بہتر موت وہ ہے جو اپنے ساتھ اللہ کی رضا کا پروانا لے کر آئے اور اللہ
تعالیٰ کے احکامات کی ادایگی کے دوران آنے والی موت سے بہتر کون سی موت
ہوگی، اسی لیے جہاد کے میدان میں، نماز کے سجدوں میں اور حج و عمرہ وغیرہ
کے دوران موت کا آنا تمام اہلِ اسلام کے نزدیک معزز و مکرم ہے۔اللہ و رسول
اللہﷺ نے مختلف پیرایوں میں ایسی موت کی عظمت و فضیلت کو بیان کیاہے،کتنے
مبارک ہیں وہ لوگ جن کے مقدّر میں ایسی قابلِ رشک موت لکھی گئی ، جس کے بعد
ان کے نامۂ اعمال میں کوئی گناہ درج نہیں ہوتا۔ امسال ۲۰۱۵ء میں مکہ مکرمہ
میں کرین حادثے کے بعد منیٰ میں بھگدڑ کا جو سانحہ پیش آیا وہ یقیناً ہر
حساس دل کے لیے روح فرسا اور مرحومین کے پس ماندگان کے لیے صبر آزما ہے
لیکن ظاہر ہے کہ ان عازمین کے حق میں یہ بات نہایت مبارک ہے، جو اس موقع پر
ربِّ کعبہ کے شرفِ وصال سے مشرف ہوئے ۔تیس پینتیس لاکھ لوگوں کے کثیر مجمع
میں بعض موقعوں پر اس طرح کے حادثات کا پیش آجانا حیران کن بھی نہیں، جیسا
کہ بعض لوگوں نے رائی کا پربت بنانے کی کوشش کی ہے اور حکومت کے انتظامات
پر سوال اٹھائے ہیں۔ اب تو حج سے واپسی کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے، جس
میں اس واقعے کے چشم دید گواہوں۔۔ یعنی وہ لوگ جو اس موقع پر جائے واردات
پر موجود تھے۔۔ان کا بیان ہے کہ دراصل بغیر ہوش کے جوش سے پُر حاجی اس گہما
گہمی کا سبب بنے، جس نے آگے چل کر ایک ناخوش گوار صورت اختیار کر لی۔
حکومت کی جانب سے حج کے بہتر سے بہتر انتظامات کیے گئے تھے، ہر ملک کے
حاجیوں کو الگ الگ وقت میں کنکری مارنے کی ہدایت تھی، اس کے باوجود بعض
حاجی من مانے طور پر شیطان کو کنکریاں مارنےچلے گئے، نتیجۃً گرمی اور بھیڑ
بھاڑ نے صورتِ حال کو تبدیل کر دیا اور ایک افرا تفری کا ماحول بن گیا، جس
کی بنا پر کتنے خدا کے نیک بندے حاجی بننے کے ساتھ ساتھ راہیِ آخرت ہوگئے۔
یہ واقعہ ہے کہ عموماً جمرات پر کنکری مارنے کے وقت بہت سے افراد بے وجہ
جذباتیت کا شکار ہو جاتے ہیں، انھیں یہ بھی خیال نہیں رہتا ہے کہ وہ کوئی
ذاتی دشمنی نہیں نکال رہے بلکہ مناسکِ حج کا ایک عمل انجام دے رہے ہیں، یہی
وجہ ہے کہ بعض تو کنکریوں کے ساتھ ساتھ جوتے چپل بھی مارنے لگتے ہیں۔ اسی
لیے سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم نے سعودی عرب کے نائب وزیر اعظم اور حج امورکے
سربراہ شہزادہ محمد بن نائف کو سانحے کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیا
اور کہا کہ حج کے دوران ہونے والی تقریباً ۷۰۰؍ سے زائدموتوں جیسے واقعات
کو روکنا انسانی اختیار سے باہر ہے، اس بھگدڑ کا قصور وار کوئی نہیں ہے، جب
کہ ایران اور کئی دیگر ممالک نے سعودی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے
ہوئے اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔مفتی اعظم کی جانب سے یہ بیان ایسے
وقت میں آیا، جب کہ ایرانی حکام سعودی انتظامیہ پر نااہلی کا الزام لگا
رہے ہیں اور سعودی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول
کرے۔رمی جمرات کے دوران پیش آنے والے اس حادثے میںسات سو سے زائد حاجی
شہید ہوئے ہیں جس کے بعدانتظامات کے حوالے سے سعودی عرب کی حکومت پر شدید
تنقید کی جا رہی ہے،سعودی عرب کے شاہ سلمان نے منیٰ کے حادثے کے بعد حج کے
سکیورٹی انتظامات کا از سرِ نو جائزہ لینے کا حکم دیا ہے اور ان کا کہنا ہے
کہ حج کے انتظامات اور حاجیوں کی نقل و حمل کے طریقۂ کار کو مزید بہتر
بنایا جائے گا۔
حرمین شریفین کی زیارت کرنا،اپنے گھر بار کو چھوڑ کر، کفن کی چادروں میں
اللہ تعالیٰ کے گھر کا طواف کرنا،پروانہ وار بیت اللہ کے چکّر کاٹنا،صفا و
مروہ پر سعی کرنا، منیٰ و عرفات میں الحاح و زاری کرنا، جمرات میں کنکریاں
مارنے کے لیے جمع ہونا۔۔۔یہ وہ سب اعمال ہیں، جن کی انجام دہی کے لیے ہر
مومن کا دل مچلتا ہے اور ہر مومن یہی تمنا کرتا ہے کہ اے اللہ میری گنہگار
آنکھوں کو بار بار اپنے دیار کی زیارت نصیب فرما اور اسی لیے جب بھی وسعت
پاتا ہے تو صدائیں بلند کرتا ہے’حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، تونے مجھے
استطاعت دی، میں تیری محبت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑکر چلا آیا، تیرے سوا کوئی
عبادت کے لائق نہیں، تمام مال و ملک تیرا ہی ہے، میری جان بھی تیری دی ہوئی
ہے اور میری موت بھی تیری طرف سے ہے،تونے مجھے اپنے در پر حاضری کی توفیق
دی، تیرا بے پناہ احسان ہے‘۔کتنے مبارک ہیں وہ لوگ جو حج کے مبارک سفر میں
اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہیں، رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ایک
واقعہ یاد آ گیا؛ایک شخص عرفات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ کھڑاتھا، اچانک وہ
سواری سے گرااور انتقال کر گیا۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اسے بیری کے
پانی سے غسل دو اور اسی کے کپڑوں (یعنی احرام میں) کفن دو اور اس کا سر مت
ڈھانپو، کیوں کہ یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھے گا۔ (بخاری: ۱۲۶۷،
مسلم: ۱۲۰۶)اس کے علاوہ متعدد احادیث میں رسول اللہﷺ نے حرمین شریفین میں
فوت ہونے والوں کی مستقل فضیلت ارشاد فرمائی، جس میں سے ہم یہاں چند احادیث
کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
حرمین شریفین میں وفات
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص حج کے
ارادے سے نکلا اور (گھر لوٹنے سے پہلے ہی) مر گیا، اس کے لیے قیامت تک حج
کا ثواب لکھا جاتا ہے اور جو عمرے کی نیت سے نکلا اور مر گیا، اس کے لیے
قیامت تک عمرے کا ثواب لکھا جاتا ہے، جو جہاد کے لیے نکلا اور مر گیا، اس
کے لیے قیامت تک غازی کا ثواب لکھاجاتا ہے۔ (الترغیب: ۱۶۷۳)ایسا کیوں نہ ہو
جب کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے
وفد ہیں اگر اللہ سے دعا مانگیں تو اللہ قبول فرمائیں اور اگر اللہ سے بخشش
طلب کریں تو اللہ ان کی بخشش فرما دیں ۔(ابن ماجہ: ۲۸۹۲، ابن خزیمہ:
۲۵۱۱)ایک حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جو حرمین شریفین میں سے کسی ایک
میں انتقال کر جائے، وہ قیامت کے دن امن کی حالت میں اٹھایا جائے گا۔ (مجمع
الزوائد: ۳۸۹۰)
حج کی مشکلات بیان کرنا
اس قسم کے فضائل کے بعد امسال پیش آمدہ حادثات کا جس طرح ذکر کیا جا رہا
ہے، سوشل میڈیا پر جس تیزی سے انھیں شئیر کیا جا رہا ہے اور اس پر بلا سوچے
سمجھے جو مناسب و غیر مناسب تبصرے کیے جا رہے ہیں، یہ ہماری حرماں نصیبی کے
سوا کچھ نہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ ایک عمل بلکہ اسلام کے ایک
عظیم رکن میں پیش آنے والی اتفاقی مصیبت پر صبر نہ کرنا ہے، جو کہ مومن کی
شان کے خلاف نیز اس سے دوسرے لوگوں کو ایک نیکی کی انجام دہی سے ڈرانا ہے،
اسی لیے علما نے یہاں تک لکھا ہے کہ بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ حج سے آکر
وہاں کی تکالیف کا حال بیان کرتے ہیں، ایسی باتیں نہ کرنی چاہئیں، چاہے وہ
واقعی کلفتیں ہوں اور اگر واقعی کلفتوں میں اضافہ کرکے بیان کیا جائے تو یہ
اس سے بد تر ہے، وہاں کی کلفتیں بیان کرنے کا یہ انجام ہوتا ہے کہ بہت سے
لوگ حج سے رُک جاتے ہیں، اس کا سارا وبال ان لوگوں پر رہتا ہے، جنھوں نے ان
کو بہت ڈرایا ہے۔ (اغلاط العوام: ۱۴۷) |
|