عینک ہے بڑی چیز

عینک بھی اس دور کی عجیب ایجاد ہے۔ایک فریم اور دو عدسوں پر مشتمل یہ آلہ اب تو ہر دوسرے آدمی نے لگا رکھا ہے بلکہ خواتین بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ ان کا تناسب بھی کم و بیش یہی ہونا ہے۔ پہلے یہ عینک بوڑھے یا پھرپروفیسر قسم کے لوگ لگاتے تھے یا پھر وہ کہ جو باریک کام کرتے تھے جیسے کہ درزی اور کڑھائی سلائی والی خواتین مگر اس جدید دور میں یہ تعصب ختم ہو گیا۔ اب تو
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے

بلکہ دیکھا جائے تو آج کل کے بچے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔کمپیوٹر، ویڈیو گیمز اور ٹی وی کے بے تحاشا استعمال کے کچھ تو مضمرات ہونے ہی تھے ناں۔ بچوں کو ویسے بھی عینک لگانے کا جنون ہوتا ہے اور موقع ملتے ہی دوسروں کی عینک لگا لیتے ہیں۔ جب اپنی لگتی ہے تو ان کی بیچین آتما کو قرار ملتا ہے۔ اور بات صرف انسانوں تک محدود نہیں، اب تو جن بھی عینک لگاتے ہوں۔ کچھ بعید نہیں کہ اگلے وقتوں میں باقی جانوروں میں بھی رواج آ جائے ایسا ہی کچھ۔۔ باقی جانوروں کی تو خیر ہے مگر پھر قربانی والے جانوروں کے لئے نیا فتوٰی لینا پڑے گا کہ آیا عینک والے جانور کی قربانی جائز ہے کہ نہیں اور اگر جائز ہے تو کس نمبر تک؟ لوگ دانتوں کی تصدیق کے بعد جانوروں کی عینکیں لئے عینکوں کی دوکانوں کے چکر لگائیں گے اور قربانی کے دنوں میں عینکوں کے نرخوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔عینک کو چشمہ بھی کہتے ہیں۔ کیوں کہتے ہیں کوئی ہمیں بھی سمجھائے۔ ہماری ناقص رائے میں تو اس کی وجہ خواتین ہیں کہ جو اتنا روتی ہیں اتنا روتی ہیں وجہ بے وجہ کہ ان کی عینک چشمے کا منظر پیش کرنے لگتی ہے۔ ایک اور توجیہہ جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ کہ چشمہ چشم سے نکلا ہے اور چونکہ یہ چشم پر ہوتی ہے تو چشمہ کہلاتی ہے۔ کچھ لوگ ضعف نظر کے باعث استعمال کرتے ہیں عینک اور باقی لوگ فیشن کے لئے۔فیشن کے لئے اکثر بیش قیمت عینکیں مختلف رنگوں کے عدسوں اور فریموں میں موجود ہیں جن میں اکثر انسان پہلے سے زیادہ بھیانک لگتا۔ پنجاب کی ایک نامور ہستی کی عینک بہت مشہور تھی اگرچہ ہمیں تو ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے کسی ویلڈنگ کرنے والے نے اپنی عینک انھیں دے دی ہو مگر وہ فیشن ہی کیا جو عوام الناس کو سمجھ آ جائے۔ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ عینک بہت قیمتی تھی۔عینک کا نمبر مختلف لوگوں کا ان کی بصارت کے لحاظ سے ہوتا ہے۔جتنی نظر کمزور اتنا ہی بڑا نمبر۔ تا ہم ہمارے جیسے جو کسی بھی میدان میں آگے نہین نکل پاتے اسی کو غنیمت جانتے ہوئے اسی میں بڑائی کا پہلو نکال لیتے۔ جب پتہ چلتا کہ اگلا بھی صاحبِ عینک ہے تو اس سے نمبر پوچھتے۔اگر وہ ہم سے عمر میں چھوٹا ہوتا تو جو وہ بتاتا ہم اس سے زیادہ بتاتے ہیں۔ کونسا اس نے آ کے تصدیق کرنی ہے ہمارے نمبر کی۔۔انکساری اچھی چیز ہے مگر اس کا بھی کوئی موقع محل ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہم سے زائد عمر والا ہو تو ہم اس سے عینک کا نمبر پوچھتے ہی نہیں کہ کہیں ہم سے بے ادبی ہی نہ ہو جائے۔عینک والوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ عینک کا اتار کا بھول جانا اور پھر اسے ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ گئے وقتوں میں لوگ بالخصوص بزرگ اپنی عینک کے دونوں سروں کیساتھ ایک زنجیر باندھ دیتے تھے اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اچانک جھٹکا لگنے پر یا کسی کے فٹبال مارنے پر عینک ان کے گریبان میں آ جاتی تھی اور اسی بہانے وہ اس میں جھانک لیتے تھے۔اب اس دور میں اپنے بجائے دوسروں کے گریبان میں جھانکا جاتا ہے اس لئے زنجیر بھی اب عہدِ رفتہ کی کہانی ہوئی۔اب کسی کی عینک اسے نہ مل رہی ہو تو اس کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ اس وقت اس کو کوئی پانچ ہزار کا نوٹ دے تو وہ اس کی بجائے عینک کو ترجیح دے گا( عینک کے نہ ہونیپر اگلا کہیں جعلی نوٹ ہی نہ تھما جائے) منہ ہاتھ دھوتے ہوئے عینک بیسن پر بھول جانا یا سوتے میں ہاتھ مار کر عینک کو ادھر سیادھر کر دینا ہمارے بھی معمولات میں شامل ہے۔ اس کے بعد جو ہم اس کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کمرہ اور بعض اوقات گھر کا ہی نقشہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ بستر، میز، کرسی، اپنے کاغذات،فریج کے اوپر (کبھی کبھی اندر بھی کہ بے خیالی میں دوائی کی بجائے عینک ہی نہ ڈال دی ہو فریج میں) ٹی وی پر الغرض ہر جگہ چھان مارتے ہیں اور تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر اچانک ہاتھ مارنے پر وہ ہماری قمیصکی جیب سے برآمد ہو جاتی ہے عینک لگانے کے بعد انسان کی شکل کچھ تبدیل ہو جاتی ہے۔ جس کو آپ نے اک مدت تک بغیر چشمے کے دیکھا ہو اس کو چشمے مین دیکھنے کی عادت اتنی جلدی نہیں ہو جاتی تا ہم ان کی بھی کچھ مجبوریان ہوتی ہے جن سے صاحبان نظر آگاہ نہیں ہوتے یا پھر صرف نظر کر جاتے ہیں۔ اردو کے ایک ممتاز شاعر جن کا نام ہم اس وقت بھول رہے ہیں ابتدا عمر میں ہی ضعف بصارت کا شکار ہو گئے تھے۔اور عینک لگا کر اسکول جاتے تھے۔ حاضر جوابی اور بذلہ سنجی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ایک دن ان کے ایک استاد نے انھیں چھیڑتے ہوئے کہا کہ' بیٹا آپ عینک نہ لگایا کرو۔ اس میں آپ باکل بجو نظر آتے ہو'۔ انھوں نے فورًا اپنی عینک اتر دی اور کہا۔' جناب عالی آپ کا شکوہ بالکل بجا ہے مگر میری مجبوری یہ ہے کہ میں عنیک اتار دوں تو مجھے آپ بجو نظر آتے ہیں'۔
Ibn-e-Riaz
About the Author: Ibn-e-Riaz Read More Articles by Ibn-e-Riaz: 35 Articles with 32453 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.