شیخ الہند، محمود حسن رحمۃاللہ علیہ
(Muhammad Umar Qasmi, Faisalabad)
1851ء میں ہندوستان کی سر زمین
پرمولانا ذولفقار علی ؒ کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جس کا نام
محمودحسن رکھا جاتا ہے۔ جیسے ہی وہ کم سنِ تعلیمی شعور کے قابل ہوتا ہے تو
یہ اعلان سننے کو ملتا ہے کہ برصغیر کے چند نامور بزرگوں نے جمع ہوکر ایک
ایسا ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،جو 1857 ء کی جنگ آزادی میں ہونے
والے نقصانات کا ازالہ کرے اور ایسے رجال پیدا کرے جواپنی ہمت ،عقل و شعور
، فہم و فراست کے ذریعے سے خطہء برصغیر میں انقلاب برپا کردیں۔ مولانا
ذولفقار علیؒ نے جب یہ اعلان سنا تو ’’خاندانِ عثمانیؓ‘‘ سے سلسلہ نسب کا
پاس رکھتے ہوئے اپنے فرزند محمود حسن کو قائم ہونے والی درسگاہ میں تعلیم
حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا۔ دیو بند شہر کی ’’چھتہ مسجد ‘‘ میں اس درسگاہ
کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے استاد ملاء محمود ؒ اور پہلے شاگرد محمود
حسنؒ تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انار کے درخت تلے ایک استاد اپنے شاگرد کو
علوم نبویہ ﷺکے ایسے جام پلاتا چلا گیا کہ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب وہی
شاگرد محمود الحسن ؒ عظیم الشان دارلعلوم کا شیخ الحدیث اور مسلمانان ہند
کے لئے شیخ الہند بنا ۔
وہیں پر محمود الحسن نے اپنے ایک استادمولانا محمد قاسم نانوتویؒ سے صحاح
ستہ کے اسباق کا آغاز کر کے شرف تلمذ حاصل کیا ۔اور صرف شرف تلمذ ہی نہیں
بلکہ اپنے استاد کے سینے میں لگی ہوئی وہ آگ بھی اپنے اندر سلگائی ، جس نے
انہیں 1857ء کی جنگ آزادی میں شاملی کے میدان میں سر بکف ہو کر غاصبوں کا
مقابلہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
تعلیم سے فراغت کے بعد دارلعلوم دیو بند میں ہی آپ ؒ نے تدریس کا آغاز کیا
اور علوم حدیث کا مسلسل چوالیس سال تک درس دیتے رہے۔ اس دوران پورے برصغیر
سے تشنگانِ علومِ نبو یہﷺ کے متلاشی اپنی پیاس بجھانے اور آپؒ سے استفادہ
حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوتے رہے ۔
جب آپ ؒ دارلعلوم دیو بند کی مسند سے’’ قال اللہ و قال الرسول‘‘ کی صدائے
دلنواز بلند کرتے تو چار سُوء منور ہو کر رہ جاتے۔ سننے والوں پر اِک عجب
کیفیت کا نزول ہوتا ۔ اور سامعین کے دلوں میں حدیثِ مصطفیﷺ ایسی اترتی کہ
دل و دماغ معطر ہو جاتے ۔ تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ: ۔
’’ حلقہ درس دیکھ کر سلف و صالحین و اکابر امحد ثین کے حلقہ حدیث کا نقشہ
نظروں میں بھر جاتاتھا۔ قرآن و حدیث تو اَزبر تھے اور آئمہ اربعہ کے مذاہب
زبان پر صحابہؓ و تابعین، فقہاء و مجتہدین کے اقوال محفوظ ،تقریر میں نہ
گردن کی رگیں پھولتی تھیں ،نہ منہ میں کف آتا تھا، نہ مغلق الفاظ سے تقریر
کو ادق اور بھدی بناتے تھے۔ نہایت سبک وسہل الفاظ با محاورہ اردو میں اس
روانی اور تسلسل سے تقریر فرماتے کہ معلوم ہوتا تھا دریا امڈ رہا ہے۔ یہ
کچھ مبالغہ نہیں ہے ۔ اب بھی کئی دیکھنے والے موجود ہوں گے کہ وہی منحنی
جسم اور منکسر المزاج ایک مشت استخوان ، ضعیف الجثہ مرد خدا جو نماز کی
صفوں میں ایک معمولی مسکین طالب علم محسوس ہوتا تھا ۔ اور بارہا مسجد کے
فرش پر بلا کسی بستر کے لیٹا نظر آتا تھا، مسند درس پر تقریر کے وقت یوں
معلوم ہوتاتھا کہ ایک شیر خداہے، جو قوت و شوکت کے ساتھ حق کا اعلان کر رہا
ہے ۔( بیس بڑے مسلمان)
آپ ؒ کے شیخ و مربی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ نے آپ کو اپنے
مختصرالفاظ میں سمیٹ کر بیان کر دیا تھا ۔ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ محمود علم
کا کٹھلا ہے ‘‘ شیخ الہند ؒ میں انتہا درجہ کی قناعت تھی۔ خود فرمایا کرتے
تھے کہ ’’میں بارہا گنگوہ حاضر ہوا اور جی میں بھی آیا کہ حضرت مولانا
(رشید احمد گنگوہی ؒ ) سے عرض کروں کہ مجھے بھی سند حدیث دے دیجیئے ، لیکن
کبھی درخواست کی ہمت نہ پڑی ۔جب اس نیت سے گیا تو یہی خیا ل ہوا کہ تو یہ
تمنا لے کر تو جاتا ہے ،لیکن تجھے کچھ آتا جاتا بھی تو ہے ؟ بارہا خیال ہوا
کہ مولانا پوچھ بیٹھیں کہ تجھے کچھ آتا جاتا بھی ہے ،جو سند لیتا ہے؟ تو
کیا جوب دونگا ! اس لیے کبھی درخواست کی ہمت نہ ہوئی ۔
بہرحال یہ تو اپنے آپ کو مٹانے کی انتہا تھی ۔ جو آج کلُ جبہ ودستار کے بیچ
پائی جانے والی جنسِ و افر میں خال خال ہی ملتی ہے۔۔لیکن حضرت شیخ الہند ؒ
کی علمی و ادبی کاوشیں اپنی مثال آپ ہیں ۔ آپؒ نے گیارہ کتابیں تصنیف
فرمائیں جن میں۔ ا دلّہ کاملہ ،ایضاح ادلہ، احسن القریٰ ،الجہد المقل
،افادیات محمودیہ،الابواب والتراجم،کلیاتِ شیخ الہند، حاشیہ مختصرالمعانی
،تصحیح ابو داؤ د ،فتاوٰی ،ترجمہ قرآن پاک شامل ہیں۔ آپ ؒ نے قرآن حکیم کا
جو ترجمہ لکھا وہ ’’ترجمہ شیخ الہند ‘‘کے نام سے عرب و عجم میں اس قدر
مشہور ہوا کہ کافی عرصہ ’’مجمع الملک فہد ، مدینہ منورہ ‘‘ کی طرف سے
لاکھوں کی تعداد میں چھپوا کر پورے عالم اسلام میں تقسیم کیا گیا۔ حضرت شیخ
الہند محمود حسنؒ تحریکی میدان میں شہسوار کی حیثیت رکھتے تھے ۔ آپکی پوری
زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو وہ مختلف تحریکات کے گرد گھومتی نظر آتی
تھی ۔ تحریک آزادی ہند ہو یا تحریک ریشمی رومال ہو یاپھر مالٹا کی جیل، آپ
کی ذات مرکزیت کا درجہ رکھتی تھی ۔
فرنگی سامراج سے آپ ؒ کو سخت نفرت تھی۔جب آپؒ کے سامنے ترکِ موالات کا
استفتاپیش کیا گیا تو آپ نے اپنے تین شاگردوں مفتی محمد کفایت اللہؒ ،
مولانا سیّد حسین احمد مدنی اور مولاناشبیر احمد عثمانی ؒ کو جمع کر کے
فرمایاکہ: فتویٰ آپ لوگ لکھیں ! اُن حضرات کو تعجب ہوا کہ آپ کی موجودگی
میں ہم کیا لکھیں۔ تو فرمایا کہ:
مجھ میں انگریزوں سے نفرت کا جذبہ اتنی شدت لئے ہوئے ہے کہ مجھے اپنے نفس
پر اطمینان نہیں کہ حدود کی رعایت ہو سکے گی، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
کہ ’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کا دامن
چھوڑ بیٹھو‘‘۔ اس لئے آپ لوگ ہی لکھیں ۔
انگریز سرکار سے آپؒ کی اس سخت دشمنی کا اندازہ خود انگریز سرکار کو بھی
تھا۔ چنانچہ اُس وقت یو۔پی کے گورنر سر جیمز مسٹن نے ایک موقع پر کہا تھا
کہ’’ اگر اس شخص کو جلا کر راکھ کر دیا جائے تو اس کی راکھ بھی اُس کوچہ
میں نہیں اُڑے گی جہاں انگریز ہوگا‘‘۔
تحریکِ ریشمی رومال کے دوران ایک ریشمی رومال انگریز فوجیوں کے ہاتھ لگ
گیا۔جس کے بعد ساری تحریک منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی اختتام پذیر ہو
گئی۔جگہ جگہ گرفتاریاں ہونے لگیں۔تمام انقلابی لیڈروں کو گرفتار کر لیا
گیا۔چنانچہ حضرت شیخ الہند ؒ ، مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور مولانا عزیرگلؒ
وغیرہ کوبھی گرفتار کر لیا گیا۔اور مدتوں مالٹا کی جیل قید وبند کی صعوبتیں
برداشت کرناپڑیں۔
مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعدبھی حضرت شیخ الہند ؒ نے اپنی کوششوں کو جاری
رکھا۔جب کہ اُس وقت آپ ؒ پرمالٹا کی جیل کی سختیاں اور بڑھاپے کے آثاربھی
نمایاں ہونے لگے تھے۔اُنہی دنوں آپؒ کو علی گڑھ یونیورسٹی سے تقریب کی
صدارت کادعوت نامہ موصول ہوا۔سخت ضعف و نقاہت کے باوجود آپ ؒ نے قومی ضرورت
کو ترجیح دیتے ہوئے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔خود خطبہ صدارت پڑھنے کی سکت نہ
تھی۔چنانچہ آپ کے شاگردِرشید حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے آپ ؒ کی طرف
سے خطبہ صدارت پڑھ کر سنایا۔
جس میں فرمایا کہ’’ میں نے پیرانہ سا لی ا ور علالت و نقاہت کی حالت میںآپؒ
کی دعوت پر اس لئے لبیک کہا کہ میں اپنی گم شدہ متاع کو یہاں پانے کا امید
وار ہوں ۔بہت سے نیک بندے ہیں جن کے چہروں پر نور اور ذکر روشنی جھلک رہی
ہے۔لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا را جلد اُٹھو! اور اس اُمتِ مرحومہ کو
کفار کے نرغے سے بچاؤ تو انکے دلوں پر خوف ہراس طاری ہو جاتاہے۔ خدا کا
نہیں بلکہ چند ناپاک ہستیوں کا اور ان کے آلات ضرب و حرب کا۔
پھر فرمایا؛ اے نو نہالانِ وطن!
جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوا ر(جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی
ہیں)مدرسوں اور خانقاہوں میں کم ، سکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں، تو میں
اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم
نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں ’’دیوبند اور علی گڑھ‘‘رشتہ جوڑا۔
اس کے بعد آپؒ دیوبند تشریف لے آئے۔علالت و نقاہت روز بروز بڑھتی جارہی
تھی۔آخر کار وہ وقت بھی آپہنچا کہ جب علم و عمل کا آفتاب ، بطل حریّت،
مجاہد ملت، ۳۰ نومبر ۱۹۳۰ ء کو اپنے ہزاروں چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر
اپنے رب کے حضور جا پہنچا۔ (اناللہ و انا الیہ راجعون)
غسل دینے کے لئے جب آپؒ کو تختہ پر لٹایا گیا تو پیٹھ بالکل سیاہ تھی ۔لوگو
ں نے آپؒ کے رفقائے مالٹا سے پوچھا کہ یہ نشانات کس چیز کے ہیں ؟ تو انہوں
نے بتایاشیخ الہند محمود الحسنؒ نے ہمیں وصیت کی تھی کہ اِن مصائب کا ذکر
کسی سے مت کرنا ۔لیکن آج حضرت شیخ الہند ؒ اس دنیا میں نہیں رہے تو آج ہم
بتائے دیتے ہیں کہ یہ نشانات اس وقت کے ہیں جب مالٹا کی جیل میں انگریز اُن
کو الٹا لٹا کر پیٹھ پر کوڑے برسایا کرتا تھا۔
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے |
|