فیضان بہت پیا را بچہ تھا اپنے امی ابو کا راج دُلارا تھا
فیضان کے ابو محنت مزدوری کرکے فیضان کو تعلیم دلوارہے تھے فیضان کی امی
بھی فیضان کا بہت خیال رکھتی تھیں ،غربت کے باوجود والدین فیضان کی ہرخوشی
کاخیال رکھتے تھے ،اچھا کھانا پینا تعلیم اچھا لباس کھیل کود سیر و تفریح
غرض یہ کے فیضان کو ہر چیزٹائم پہ مہیاہوتی تھی بعض دفعہ تو والدین خود
بھوکے سو جاتے مگر فیضان کو کسی قسم کی تنگی نہیں آنے دیتے تھے
فیضانپانچویں کلاس میں ہوا تو فیضان کی امی نے فیضان کی خواہش پوری کرنے کے
لیے اپنی شادی کی واحدنشانی سونے کی انگوٹھی بیچ کر فیضان کو سائیکل لے دی
فیضان بہت خوش ہو ا کہ اسے سائیکل مل گئی ہے اب فیضان کو پیدل اسکول نہیں
جانا پڑتا تھا ، فیضان پڑھائی میں بہت اچھا تھا ہمیشہ فرسٹ پوزیشن
لیتاتھاسب کچھ ٹھیک چل رہا تھا،جب فیضان آٹھویں کلاس میں ہوا تو ایک امیر
باپ کے ضدی بیٹے وِکی سے فیضان کی دوستی ہوگئی وِکی بہت ضدی اور پڑھائی میں
نکمہ تھا وکی اپنی موٹر سائیکل پر سکول آتا تھا اورفیضان کی پرانی سائیکل
دیکھ کر بہت ہنستا تھا اور فیضان کا مذاق اڑاتاتھا ،اساتذہ فیضان سے بہت
خوش تھے اور وکی ہمیشہ اساتذہ سے ڈانٹ کھاتا تھا وکی فیضان کو اکثر الٹی
سیدھی باتیں کر کے اُکسانے لگا ایک دن وکی نے فیضان سے کہاتم بھی موٹر
سائیکل لے لو پرانی سائیکل کی جان چھوڑ دو،پہلے تو فیضان نے وکی کی باتوں
پر زیادہ دھیان نہیں دیا مگر وکی نے بھی ٹھان رکھی تھی کہ فیضان کو پڑھائی
میں خود سے آگے نہیں جانے دے گا ،اور اپنی طرح نکمہ کرے گا تاکہ اساتذہ
فیضان کی قدر نہ کریں۔آخر کار وکی اپنے ارادے میں کامیاب ہونے لگا،فیضان ہر
روز والدین سے موٹرسائیکل کی ضدکرنے لگا فیضان کے والدین کے پاس اتنے پیسے
نہ ہونے کی وجہ سے فیضان کے والدین پریشان رہنے لگے تھے،فیضان کے سالانہ
امتحان نزدیک تھے اور فیضان نے اپنی ضد میں پڑھائی پرتوجہ بھی کم کر رکھی
تھی،والدین نے فیضان کو بہت سمجھایا کہ پڑھ لکھ کر جب بڑے آدمی بنو گے تو
ہر چیز تمھیں آسانی سے مل سکے گی یہ وقت بہت قیمتی ہے اسے ہاتھ سے مت گنواؤ
مگر فیضان وکی کی وہی باتیں دوہراتاکہ آپ مجھے پیار نہیں کرتے ورنہ مجھے
وکی کے ابو کی طرح ہر قیمتی چیز لے کر دیتے،وکی ٹھیک کہتا ہے آپ مجھے اپنی
خاطر پڑھا رہے ہیں تاکہ میں بڑھاپے میں آپ کو پیسے کما کے لا کر دیا کروں
فیضان کے والدین جب ہر طرح سے فیضان کو سمجھا کرتھک گے تو انھوں نے اپنے
چھوٹے سے گھر کا آدھا حصہ بیچ کر فیضان کی ضد پوری کرنے کا فیصلہ کرلیا وکی
کے سارے ارادوں کی خبر فیضان کے بہت اچھے دوست آصف کو ہوگئی اور آصف نے
فیضان کو ساری بات سے اگاہ کیا فیضان ساری بات سن کر حیران پریشان اور
کشمکش کے عالم میں اسکول سے چھٹی کے وقت گھر جا رہا تھاکہ فیضان کی سائیکل
راستے میں ایک پتھر سے ٹکرا گئی پاس ہی ایک بزرگ جو کہ بھیک مانگ رہا تھا
اس نے فیضان کو زمین سے اٹھنے میں مدد دی ،اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ
کر فیضان سے بزرگ نے پوچھا بیٹا کیسے گر گئے؟ فیضان کو معمولی خراش آئی تھی
فیضان بڑبڑانے لگا اگر والدین میری بات مان لیتے موٹر سائیکل لے دیتے تو
میں پرانی سائیکل سے نہ گرتا ، بزرگ نے کہا شکر ادا کرو کہ! یہ سائیکل کی
وجہ سے معمولی چوٹ آئی ہے موٹر سائیکل کی چوٹ بہت بری ہوتی ہے یہ دیکھو
بیٹا میرا ایک بازو موٹرسائیکل سے گرنے سے ہی ضائع ہوا تھا فیضان نے جب
بزرگ کا ایک بازو کٹا ہوا دیکھا تو بہت خوف زدہ ہوا اور بزرگ سے پوچھنے لگا
یہ کب اور کیسے ہوا بابا جی؟بزرگ نے بتایا:بیٹا میں تمھاری عمر کا تھا اور
یہ میری اپنی ضد اور نا فرمانی کی وجہ سے ہوا ،ورنہ شاید آج میں بھکاری
نہیں ہوتا پڑھا لکھا افسر ہوتا میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا میرے
والد مجھے اپنی طرح افسر بنانا چاہتے تھے مگر میں نے بری صحبت میں پڑ کر
والدین کی محبت کو ٖفراموش کر دیا تھا ان کے خلوص سے دیے ہوئے سائیکل کو
ٹھکرا کر موٹر سائیکل کی ضد تو پوری کروا لی تھی مگر اس کا نتیجہ اب تک
بھگت رہا ہوں میری موٹر سائیکل کے آگے پتھر ہی آیا تھا جسے میں دیکھ نہیں
سکا تھا اور بری طرح سڑک پر جا گرا تھا میرے بازو کو ایک تیز رفتار گاڑی
کچل گئی تھی میری ماں میرے ایکسیڈنٹ کی خبر برداشت نہ کر سکی اور اللہ کو
پیاری ہوگئی میرے والد میری دیکھ بھال کی وجہ سے افس نہیں جا سکتے تھے میرے
والد نے ہر ممکن کوشش کی کہ میرا بہتر علاج ہو سکے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا
میرے والد صدمے سے بیمار رہنے لگے اور ذ ہنی مریض ہوگئے والد کی جمع پونجی
سب ختم ہوگئی اور ایک دن والد بھی مجھے چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔میں آج
بھی پچھتاتا ہوں کاش اپنے والدین کی نا فرمانی نہ کرتا، بیٹا دو باتیں
ہمیشہ یاد رکھنا۔
(۱)انسان جتنی زیادہ بلندی سے نیچے گرتا ہے چوٹ اتنی ہی زیادہ گہری آتی ہے۔
(۲)کچھ لوگ راستے میں پڑے ہوئے پتھروں کی طرح ہوتے ہیں جوہماری زندگی میں
آتے ہیں جنہیں ہم بروقت پہچان کر ٹھوکر سے نہ بچ سکیں تو ہمیں بہت گہری
چوٹیں لگ سکتی ہیں جو ہماری ساری زندگی تباہ و برباد کر سکتی ہیں،اور ہماری
زندگی میں کچھ لوگ ٹریفک کے اشاروں کی طرح بھی ملتے ہیں جو ہمیں راستہ
بتاتے ہیں مگر والدین ہمارے لیے ایک چراغ کی مانندہوتے ہیں جو ہر سیدھا
راستہ کی طرف روشنی دیکھاتے ہیں بس ہمیں اگر زندگی کا سفر آسانی سے طے کرنا
ہے تو اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔بزرگ کی باتیں سن کر فیضان
بہت پشیمان ہو ا اورفیضان کو احساس ہوا کہ جانے انجانے میں وہ بہت بڑی غلطی
کرنے جا رہا تھا فیضان کے لیے بزرگ فرشتہ بن کر آیا تھا جس سے فیضان کو ایک
پل میں پوری زندگی بہتر بنانے کا سبق ملا تھا ،فیضان کے دل پربزرگ کی باتوں
کا بہت اثر ہوا فیضان نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور فوراً گھر جا کر اپنے
والدین سے معافی مانگی اور آئیندہ کبھی ضد نہ کرنے اور دل لگا کر پڑھائی
کرنے کا وعدہ کیا فیضان کے والدین بہت خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا
،فیضان نے خود سے عہد کیا کہ وہ خود بھی پڑھے گا اور وکی کو بھی سیدھے
راستے پر لانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا،فیضان کی محنت رنگ لائی آٹھویں کلاس
میں فیضان نے فرسٹ اور وکی نے دوسری پوزیشن حاصل کی دونوں دوست بہت خوش
ہوئے سب اساتذہ نے فیضان اور وکی کوشاباش دی۔ختم شدہ |