نیکی کا صلہ

اسلم اپنے بستر پر سویا ہوا تھا۔رات کے دو بجے کا وقت تھا۔ایک دم سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آتی ہے تو اسلم کی آنکھ کھل جاتی ہے۔اسلم نے اُٹھ کر دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے۔وہ ایک بار تو ڈر ہی گیا تھاکہ کیا گرا ہے۔اُس نے اُٹھ کر دیکھنا چاہا تو اُس کے بستر کے سر ہانے کے پاس ایک سگریٹ کی ڈبی اور دیا سلائی موجود تھی۔وہ یہ دیکھ کر اس کو جلدی سے چھپانے لگا۔جب اُس نے ان چیزوں کو چھپا لیا تووہ دوبارہ سے لیٹ گیا ۔تو جیسے ہی اس کی آنکھ لگی تو اُسے خواب آیاکہ اُس اکبر جو بہت ہی اوباش قسم کا لڑکا تھا۔اُسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ یہ سگریٹ اور بھی دیگر قسم کا نشہ کرتا تھا۔تو اکبر اس کے خواب میں آیا اور اسلم سے کہنے لگا کہ اسلم تم نماز پڑھا کرو۔یہی بات اکبر نے اسلم کے خواب میں دہرائی تو اسلم کی آنکھ پھر سے کھل گئی ۔اور ڈر کی کیفیت میں سوچنے لگا کہ وہ لڑکا جس نے آج تک خود کبھی نماز نہیں پڑھی۔اور ایسا لڑکا ہے۔جسے کوئی پسند بھی نہیں کرتا وہ مجھے کہہ رہا ہے کہ نماز پڑھا کرو۔اسلم نے یہ بات بہت گہرائی سے سوچی تو وہ بہت حیران تھا۔اسلم جب صبح اُٹھا تو اُس کے ذہن میں یہی بات چل رہی تھی کہ اکبر نے رات کو میرے خواب میں بار بار کہا ہے کہ اسلم تم نماز پڑھا کرو۔اسلم نے صبح اُٹھتے ہی نماز پڑھی۔تو دوسری طرف اسلم کے ماں باپ جو بہت ہی نیک اور نمازی تھے وہ حیران ہو گئے۔یہ دیکھ کر کہ ہم اسلم کو روز کہتے تھے نماز کے لیے مگر اسلم اس بات کو ٹال دیتا تھا۔مگرآج بغیر کہے ہی نماز ادا کر رہا ہے۔یہ دیکھ کر اسلم کی ماں نے اﷲ کا شکر ادا کیا۔کیونکہ اسلم بھی نافرمان لڑکا تھا۔وہ ہمیشہ اپنے ماں باپ کے آگے بدتمیزی سے پیش آتا تھا۔اور وہ اپنی تعلیم میں بھی توجہ نہیں دیتا تھا۔اسلم گزشتہ دو سالوں سے اپنے میٹرک کے امتحان میں ناکمیاب ہوتا آرہا تھا۔اسلم نے جب نماز ادا کر لی تو وہ ابھی اس بارے میں سوچ ہی رہا ہوتا ہے۔کہ اُسے خبر ملتی ہے۔کہ اکبر جو اس کا دوست تھا وہ وفات پا چکا ہے۔اسلم کو یہ بات سن کر دہچکا سا لگا اور اسے بہت افسوس ہوا۔یہ اکبر وہی تھا جو رات کو اکبر کے خواب میں آیا تھا اب اسلم کی بے چینی اور بڑھ گئی۔اسلم اب سمجھ چکا تھا کہ اکبر اسے کچھ سبق دینا چاہتا ہے۔اُسی رات اکبر اسلم کو دوبارہ خواب میں ملتا ہے۔اور اس مرتبہ اسے قرآن پڑھنے کہ لیے کہتا ہے۔اسلم اس بات پر تو پہلے بہت حیران ہوتا ہے۔مگر صبح اُٹھ کر اسلم نماز ادا کرتا ہے اور قرآن کی تلاوت بھی کرتا ہے۔اسی طرح اسلم اچھے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔وہی دوست جو اسلم کو اُلٹے ناموں سے پکارا کرتے تھے اب اُسے اچھا ماننے لگے تھے۔مگر اسلم کو خیال آتا ہے کہ اس کے دوست بڑے کام تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ پڑھے لکھے بھی ہیں۔تو اسلم بھی پڑھائی کرنے کا ارادا کر لیتا ہے۔جو وہ دو سالوں سے ناکام ہوتا آرہا تھا اس مرتبہ اس نے خوب محنت کی اورچھے نمروں سے میٹرک پاس کر لیا۔اُس نے اپنے ماں باپ کا سر فخر سے بلند کر دیا۔اسلم کے والد صاحب ایک سرکاری ملازم تھے۔جس کی وجہ سے اسلم کو کسی مہنگے پرائیوٹ کالج میں داخلہ نہیں کروا سکتے تھے۔مگر اسلم کی کامیابی کی وجہ سے اسلم کے کالج کے سارے اخراجات حکومت نے اُٹھا لیے تھے۔تو اسطرح اسلم ایک اچھا لڑکا بن گیا۔اور اس کی ہر کوئی عزت کرتا ہے۔
Huzaifa Ashraf
About the Author: Huzaifa Ashraf Read More Articles by Huzaifa Ashraf: 28 Articles with 42400 views صاحبزادہ حزیفہ اشرف کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے۔ حزیفہ اشرف14اکتوبر1999کو پیدا ہوئے۔حزیفہ اشرف کے والد قانون دان میاں محمد اشرف عاص.. View More