لاہور میں کئی روز سے جاری سیاسی گہما گہمی لاہور کے حلقہ
این اے 122 میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان انتخابی معرکہ میں ن
لیگ کی فتح اور پی ٹی آئی کی شکست کے بعد اختتام کو پہنچی۔ این اے 122 میں
مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار ایاز صادق 74 ہزار 525 ووٹ لے کر کامیاب
ہوئے، جب کہ تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان 72 ہزار 82 ووٹ حاصل کرکے
دوسرے نمبر پر رہے۔ 11اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں اگرچہ مختلف
جماعتوں کے متعدد امیدوار تھے، لیکن اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن)
کا ہی تھا۔ عام انتخابات 2013 میں قومی اسمبلی کے حلقہ 122سے مسلم لیگ (ن)
کے سردار ایاز صادق کامیاب ہوئے تھے، لیکن تحریک انصاف کی جانب سے دھاندلی
کے الزامات کے بعد الیکشن ٹربیونل نے نتائج کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ
انتخابات کروانے کا فیصلہ دیا تھا۔ سردار ایاز صادق اس حلقے سے اس سے قبل 3
مرتبہ منتخب ہوئے، جن میں سے 2 مرتبہ انھوں نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان
کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔ این اے 122 کو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن)
کی سیاست کے لیے اہم ترین قرار دیا جارہا تھا۔ الیکشن سے قبل تجزیہ کاروں
کا کہنا تھا کہ اس حلقے سے شکست کھانے والی جماعت کے لیے مستقبل میں اپنی
سیاست بچانا مشکل ہوجائے گا، یہ حلقہ دونوں جماعتوں کی انا کا مسئلہ بنا
ہوا تھا۔ الیکشن کروانے سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن میں فوج کی
تعیناتی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب سمیت متعدد شرائط بھی پیش کی
گئیں، جن کو الیکشن کمیشن نے منظور کیا۔ جس کے بعد یہ بات واضح ہے کہ این
اے 122 الیکشن میں دھاندلی کا شائبہ نہیں رہا، کیوں کہ اس بار فوج کی
نگرانی میں الیکشن کرائے گئے اور فوج مسلم لیگ ن نے خود طلب کی اور حکومت
نے دو یونٹ فوج طلب کی تو فوج نے پانچ یونٹ بھیج دی۔ اتنی سخت سیکورٹی میں
دھاندلی ممکن نہ تھی، اسے پاکستان کی تاریخ کا شفاف ترین الیکشن کہا جا
سکتا ہے۔ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور چودھری
سرور کا میڈیا سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ انتخابی عمل کسی بھی قسم کی
دھاندلی سے پاک صاف ہے۔ فوج کی موجودگی میں دھاندلی کا شائشہ بھی کیا جانا
غلط ہے۔ مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات پریذائڈنگ افسران، پولنگ ایجنٹس کے
علاوہ ووٹروں نے بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے
الیکشن کمیشن کو خط لکھا، جس میں لاہور کے حلقہ این اے 122 میں ووٹوں کی
اچانک تبدیلیوں کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔ خط کے متن کے مطابق این
اے 122 میں اچانک ووٹوں کی تبدیلی بدنیتی پر مبنی ہے۔ ووٹرز کے بلاک کوڈ
بھی بغیر کسی وجہ کے تبدیل کیے گئے ہیں۔ ان بے ضابطگیوں کی وجہ سے بڑی
تعداد میں لوگ ووٹ نہیں ڈال سکے۔ اس ضمن میں شکایات کا نوٹس لے کر کارروائی
عمل میں لائی جائے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے
کہا کہ پی ٹی آئی کا وزیر اعظم پر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے حوالہ سے خط
ملا ہے۔ تاہم خط میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وزیر اعظم نے کونسی خلاف ورزی
کی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق حالیہ انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوئے اور
فوج غیر جانبدار ہے، نتائج تبدیل ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ انتخابی سامان
اور نتائج فوج کی نگرانی میں ڈی آر اوز کے دفاتر میں بھجوائے گئے۔الیکشن
کمیشن نے پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کو پرامن الیکشن
کرانے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پنجاب پولیس کا کردار بھی قابل تحسین
رہا، تمام سرکاری افسران آر اوز اور ڈی آر اوز، پولنگ عملے کے کردار کو
سراہتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق این اے 122 میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار
سردار ایاز صادق 74 ہزار 525 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جب کہ تحریک انصاف کے
امیدوار علیم خان 72 ہزار 82 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔ تحریک انصاف
کے امیدوار علیم خان کو پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے گھر کے قریب واقع
ایچی سن کالج پولنگ سٹیشن سے بھی شکست ہوئی۔ انتخابی دوڑ میں پیپلز پارٹی
کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن 819 ووٹ حاصل کرسکے۔ حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی
تعداد 3 لاکھ 47 ہزار 762 تھی، جس میں ایک لاکھ 49 ہزار 885 افراد نے اپنا
حق رائے دہی استعمال کیا اور حلقے میں ووٹوں کا تناسب 43.10 فیصد رہا۔
دوسری جانب پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 144 کے ضمنی
انتخاب میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے والے ریاض الحق جج نے غیر حتمی غیر
سرکاری نتائج کے مطابق 83 ہزار 240 ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے علی
عارف چودھری 41 ہزار 50 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ آزاد امیدرار مہر عبد
الستار 11 ہزار 270 ووٹ حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے جبکہ دو دیگر اہم
جماعتوں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی
پی) کے امیدوار خاطر خواہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ پی ٹی آئی کے اشرف
خان سوہنا 7 ہزار 105 ووٹ لے سکے اور صرف 10 فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کرنے
کے باعث ان کی ضمانت ضبط ہوگئی۔
حلقہ این اے 122سے فتح یاب ایاز صادق نے اپنی جیت پر عوام کا شکریہ ادا کیا
اور کارکنوں اور حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا اب عمران خان کو دھرنوں کی
سیاست ترک کے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ جیت کا جشن
اس دن منایا جائے گا جس دن عمران خان ان کے ساتھ مل کر ملک کے استحکام کے
لیے کام کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا
کہنا تھا کہ این اے 122 کے عوام نے بداخلاقی کی سیاست کو مسترد اور 2013 کے
انتخابی نتائج پر مہر ثبت کردی ہے۔ عمران خان پاکستان میں جمہوری عمل اور
جمہوری اداروں کو بدنام کررہے ہیں، ڈھائی سال سے کہا جارہا تھا کہ پارلیمنٹ
جعلی ہے، عمران خان کے الزامات کو جوڈیشل کمیشن نے غلط ثابت کیا، این اے
122 کے نتیجے نے ثابت کیا کہ ایاز صادق کو ملنے والے 50 ہزارووٹ جعلی نہیں
تھے، اگرووٹ جعلی تھے تو ایازصادق کو ضمنی انتخاب میں 20 ہزار ووٹ ملنے
چاہئیں تھے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماو ¿ں نے لاہور میں پریس
کانفرنس کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا ہے تاہم انھوں نے
انتخابات پر تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین
عمران خان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ہم نے این اے 122 میں شکست کے
باوجود حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)، سرکاری مشینری اور صوبائی الیکشن کمیشن
کو چیلنج کرکے اخلاقی فتح حاصل کرلی ہے۔ اس سے تحریک انصاف مزید مضبوط
ہوگی۔
بلاشبہ تحریک انصاف نے انتخابی مہم بڑے زور و شور سے چلائی اور این اے 122
کے الیکشن کو پورے ملک کی نگاہوں کا مرکز بنا دیا۔ عمران خان کے مطالبے پر
فوج کو تعینات کیاگیا۔ کیمرے لگائے گئے، فوج کی نگرانی میں گنتی کی گئی اور
تھیلے ریٹرننگ افسر تک کے آفس تک پہنچائے گئے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی
شکست سے ان کی سیاست کو کافی نقصان ہوگا، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے امیج میں
اضافہ ہوا ہے اور وہ دھاندلی کے الزامات کو دھونے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے ہارنے کی ایک وجہ امیدوار کا انتخاب بھی ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار
عبدالعلیم خان اپنی سیاسی زندگی میں صرف واحد الیکشن (ق) لیگ کے دور میں
جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے، جس میں مبینہ دھاندلی کے ذریعے (ن) لیگ کے
امیدوار کو انہوں نے ہرایا تھا اور بعد ازاں سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز
الہٰی نے انہیں سابق فوجی جرنیل کی سفارش پر صوبائی کابینہ میں شامل کر کے
انفارمیشن ٹیکنالوجی کا محکمہ دیا تھا۔ عبدالعلیم خان نے 2007ءکا الیکشن
(ق) لیگ کے ٹکٹ پر لڑا، لیکن وہ بری طرح ہار گئے تھے۔ عبدالعلیم خان
2012ءمیں تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ تاہم تحریک انصاف کے پارلیمانی
بورڈ نے انہیں قومی اور صوبائی اسمبلی میں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا،
تاہم انہوں نے اپنی دولت کی چمک سے تحریک انصاف کی قیادت کو اس بات پر
مجبور کر دیا تھا کہ وہ ضمنی انتخاب میں سردار ایاز صادق کے مقابلے میں ٹکٹ
جاری کرے۔
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کو دھرنے کی سیاست کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا
پڑا ہے، کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن 2013کے بعد سے مسلسل دھاندلی
کے الزامات لگائے گئے ہیں، لیکن یہ الزامات غلط ثابت ہوئے اور پی ٹی آئی کی
عوامی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی۔ دھرنے کے بعد پی ٹی آئی آٹھویں مرتبہ کسی
بھی انتخابی نشست پر شکست کھا گئی ہے۔ تحریک انصاف نے 2013ءمیں ہونے والے
عام انتخابات میں بڑی دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے 2014 میں اسلام آباد ڈی
چوک میں دھرنا دیا، جس میں ان کو عوامی تحریک سمیت دیگر کئی چھوٹی پارٹیوں
کا بھی ساتھ حاصل تھا۔ پی ٹی آئی کا یہ دھرنا 14 اگست 2014 سے شروع ہوا اور
17 دسمبر 2014 تک 126 روز تک جاری رہا۔ دھرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف
نے جتنے بھی بڑے الیکشن لڑے، ان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ پی ٹی آئی
کو این اے 137 ننکانہ صاحب ، این اے 246 کراچی ، این اے 108 منڈی
بہاﺅالدین، این اے 19 ہری پور، این اے 122 لاہور ، این اے 144 اوکاڑہ ،
صوبائی اسمبلی کی نشستوں پی پی 196 ملتان اور پی پی 100 گوجرانوالہ میں
شکست ہوئی۔ این اے 137 میں امیدوار کی وفات کے بعد 15 مارچ کو الیکشن کا
انعقاد کیا گیا، جس میں مسلم لیگ ن کی ڈاکٹر شازرہ منصب نے 77 ہزار 8 سو
نوے ووٹ لے کر میدان مار لیا، جبکہ پی ٹی آئی کا حمایت کردہ امیدوار 39
ہزار چھ سو35 ووٹ حاصل کرسکا۔ این اے 246 میں نبیل گبول کے استعفے کے بعد
24 اپریل کو الیکشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں ایم کیو ایم کے کنور نوید
جمیل نے 95 ہزار6 سو44ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جبکہ پی ٹی آئی کے عمران
اسماعیل 24 ہزار 8 سو 21 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی پی 196 میں
چودھری عبدالوحید کو نااہل قرار دیے جانے کی وجہ سے 21 مئی کو الیکشن کا
انعقاد کیا گیا، جس میں مسلم لیگ ن کے رانا محمودالحسن نے دس ہزار ووٹوں سے
کامیابی حاصل کی ۔ پی ٹی آئی کے رانا عبدالجبار دوسرے نمبر پر رہے۔ این اے
108 میں چودھری اعجاز کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد 8 جون کو ہونے والے
الیکشن میں ن لیگ کے ممتاز احمد نے 77 ہزار 8 سو 84 ووٹ لے کر میدان مار
لیا۔ پی ٹی آئی کے طارق 40 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی پی 100
گوجرانوالہ میں مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا شمشاد احمد خان کی وفات کے باعث
26 جولائی کو الیکشن کرایا گیا، جس میں مسلم لیگ (ن) کے رانا اختر علی نے
پی ٹی آئی کے احسان اللہ ورک کو 21 ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔ این اے
19 میں 16 اگست کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے بابر نواز نے پی
ٹی آئی کے راجہ عامر زمان کو بھاری فرق سے شکست سے دوچار کیا۔ کل 11 اکتوبر
کو ہونے والے این اے 122 کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ایاز صادق نے
تحریک انصاف کے علیم خان کو دو سے تین ہزار کے فرق سے شکست سے دوچار کیا۔
این اے 144 اوکاڑہ میں ہونے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار اشرف
سوہنا کی ضمانت ہی ضبط کر لی گئی، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے
والے علی عارف دوسرے نمبر پر رہے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ہی ریاض الحق جج جو
کہ ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترے، انہوں نے واضح
برتری سے میدان مار لیا۔
|