پروفیسر احمدعلی (حیات اور ادبی خدمات)

احمدعلی مترجم،نقاد،شاعراور ڈرامانگارکی حیثیت سے بھی اپنی شہرت رکھتے ہیں۔احمدعلی کے قابل ذکر افسانوں میں ’’انگارے‘‘،’’شعلے‘‘،’’ہماری گلی‘‘،’’قید خانہ‘‘،’’موت سے پہلے‘‘ جب کہ ناولوں میںTwilight in Delhi(دلّی کی شام)،Ocean of Night. اورRats and Diplomats ادب میں اپنی منفردشناخت کے حامل ہیں۔
نام کتاب: پروفیسر احمدعلی (حیات اور ادبی خدمات)
مصنف: ڈاکٹر محمدکامران
صفحات: ۳۰۰ قیمت:۳۲۰روپے
ناشر: انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی
مبصر: صابر عدنانی
زیرِنظرکتاب احمدعلی کی حیات اور ادبی خدمات پر مشتمل ہے۔جوڈاکٹر محمدکامران کے پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا۔یہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب احمدعلی کی متنوع شخصیت کی نئی جہات کو سامنے لاتا ہے۔ ’’انگارے‘‘ سے قرآن مجید کے انگریزی ترجمے تک ، احمدعلی کا تخلیقی سفر بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہے ان کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور معنویت کا حامل بھی۔اس تحقیقی مقالے میں مصنف نے احمد علی کی نجی زندگی اور اُن کی ادبی خدمات پر سیرحاصل بحث کی ہے۔جس کے ذریعے احمدعلی کی نجی زندگی کے اُن گوشوں تک رسائی بھی ہوتی ہے، جو احمدعلی سے مصنف کی ملاقاتوں کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتی تھی۔

احمدعلی یکم جولائی ۱۹۱۰ء کو دلّی (ہندوستان) کے کوچہ پنڈت میں واقع جلال منزل میں پیدا ہوئے۔ ان کی ایک نظم ’’فلاور ان دی باسکٹ‘‘گیارہ برس میں لکھی۔جو انھیں آخری وقت تک یاد تھی۔احمدعلی مترجم،نقاد،شاعراور ڈرامانگارکی حیثیت سے بھی اپنی شہرت رکھتے ہیں۔احمدعلی کے قابل ذکر افسانوں میں ’’انگارے‘‘،’’شعلے‘‘،’’ہماری گلی‘‘،’’قید خانہ‘‘،’’موت سے پہلے‘‘ جب کہ ناولوں میںTwilight in Delhi(دلّی کی شام)،Ocean of Night. اورRats and Diplomats ادب میں اپنی منفردشناخت کے حامل ہیں۔

بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں جب دنیا بھر میں مادی ضرورتوں کو محسوس کیا جانے لگا اور ہر طرف مشینی انقلاب کی بازگشت شروع ہوگئی ، لوگ حقیقت نگاری کو اپنا مرکز حیات بنانے میں لگے ہوئے تھے ایسے میں اپنی جسمانی ضروریات کو تسکین اور مادی وسائل کے حصول کی جدوجہد نے جس تحریک کو جنم دیا اس کا رشتہ پریم چند کی حقیقت نگاری سے جوڑا جاسکتا ہے۔ پریم چند نے ادب میں ان عام لوگوں کو نمایاں طور پر جگہ دی جنھیں اچھے اچھے ادیب، ادب میں کردارکا درجہ نہیں دے سکے۔ پریم چند کسانوں، زمین داروں، چھوٹے چھوٹے اہل حرفہ ، اچھوتوں، مذہب کے نگہبانوں، امراء ، اربابِ حکومت سبھی سے بہ خوبی واقف تھے اور ان کے جائزے سے انھوں نے اپنے تجربے کی جھولی بھرلی تھی۔

ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہوئی تو اس تحریک نے اقبال کی رومانیت سے تخلیقی قوت اور جوش کی رومانیت سے بغاوت کا جذبہ حاصل کیا۔پریم چند کی حقیقت نگاری نے اسے زمین کی طرف متوجہ کیا اور ان سب کے امتزاج کو بھی نوعِ انسان کی بہبود میں صرف کرنے کے لیے ادیب کی فکر کو داخل سے خارج کی طرف پیش قدمی کی راہ دکھائی۔ترقی پسند تحریک کے ادبا نے پہلی ضرب اخلاقیات پر لگائی اور پھر معاشرے کی چند اہم قدروں کے خلاف علمِ بغاوت کھڑا کردیا۔ سیدسجادظہیر، رشید جہاں، احمدعلی اور محمودالظفر نے اپنے کچھ افسانوں کا مجموعہ ’’انگارے‘‘ کے نام سے ۱۹۳۳ء میں لکھنؤ سے شائع کیا، جو بم کی طرح سماج پر پھٹا اور لوگ تلملا اُٹھے، حکومت نے اسے ضبط کرلیا، مگر اس کی اشاعت کا جو مدعا تھا وہ پورا ہوگیا۔ اصل میں یہ مجموعہ بغاوت کا اعلان بھی تھا اور ترقی پسند تحریک کا نقطۂ آغاز بھی۔ اس میں غیرمتوازن اور جذباتی طریقے سے مذہب، رسوم و رواج، اخلاقی نصب العین اور جنسیات سے متعلق خیالوں پر کھل کر لکھا گیا تھا۔ اس کا اسلوب بھی نیا تھا جس پر یورپی ادب اور طرزِ فکر کے اثرات صاف طریقے سے دکھائی دیتے تھے۔ فنی اعتبار سے ان کہانیوں میں کئی طرح کے نقائص تھے، کیوں کہ ان میں مسائل کے سمجھنے کے بدلے ان خرابیوں کا مذاق اڑایا گیا تھا جو تاریخی اور سماجی اسباب سے پیدا ہوئی تھیں۔ مگر اس کا اثر یہ ضرور ہوا کہ نئے ادیبوں نے ان کہانیوں کو بے خوفی اورحقیقت پسندی سے اپنا کر زندگی کے بھیدکھولنا شروع کردیے اور مسائل کو بھی اس پس منظر میں دیکھا جنھیں سیاسی غلامی اور معاشی بدحالی نے جنم دیا تھا۔

اپنے معاصرترقی پسند ادیبوں کی طرح احمدعلی کی بعض کہانیوں میں بھی حقیقت نگاری کے پس پردہ انقلابی اور طبقاتی شعور جھلکتا ہے۔ ’’انگارے‘‘ کی اشاعت سے ’’انگارے کے دفاع میں مضامین‘‘ اور ۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کل ہند کانفرنس کے انتظامی امورکے علاوہ ادبی محاذ پر افسانہ نویسی اور تراجم کے علاوہ ترقی پسند ادبی جرائد کی ادارت تک احمدعلی ہمیشہ صف اول میں نظرآتے ہیں مگر مذکورہ تحریک سے علاحدگی اور بعض اختلافات کے سبب سجادظہیر نے ’’روشنائی‘‘ میں احمدعلی کی کاوشوں کو ضمنی حیثیت دی ہے۔

احمدعلی نے اپنے ادبی سفرکاآغاز افسانہ نگاری سے کیاتھا۔مگر اپنے تخیل کو پیش کرنے کے لیے جس وسعت اور اظہارِبیان کی حاجت تھی وہ انھیں صرف ناول میں نظر آیا۔ جب کہ ناول لکھنے کے لیے بہت فرصت اورذہنی سکون لازم تھا۔ غالباً ۱۹۳۸ء کے موسمِ گرمامیں احمدعلی دلّی گئے اور انھوں نے دلّی کے گلی کوچوں کاناول نگار کے نقطۂ نظر سے مشاہدہ کیا۔واپسی پر انھوں نے انگریزی میں Twlight in Delhi ناول تحریر کرڈالا جس میں دلّی کی معاشرتی اور مجلسی زندگی کو بے ساختہ انداز میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔

ترقی پسند تحریک بنیادی طور پر ادبی تحریک تھی۔ لیکن اس کے معاونین میں بہت سے ایسے ادبا بھی شامل تھے جن کے سیاسی نظریات ان کی زندگی کے پورے کل پر محیط تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے جب ایک ادبی تحریک کی قیادت سنبھالی تو ادب کو سیاست میں استعمال کرنے کی کوشش کی اور ذہنی پیش قدمی کو تیز تر کردیا۔اگر دیکھا جائے تو برصغیر میں ادب کی کسی تحریک کو سیاسی مقاصد کے لیے زیادہ کامیابی سے استعمال نہیں کیا جاسکا۔ چنانچہ جب ادب پر سیاست غالب آنے لگی تو بہت سے ادبا اس تحریک سے الگ ہوگئے۔ ترقی پسند تحریک اس جذبے سے محروم ہوگئی جس کے زیراثر ادیب ادب کی آب یاری کرتا ہے۔بلاشبہ تنظمی سطح پر انجمن ترقی پسند مصنفین تو زندہ ہوگئی لیکن یہ اچھی قیادت سے محرومی کی بنا پر پرانی تحریک کی محض ایک یاد ہی تھی۔

انجمن ترقی اردو پاکستان مبارک کی مستحق ہے کہ اُس نے ادب کے گلشن میں ایک شان دار کتاب کا اضافہ کرکے ترقی پسندمصنّفین اور اُن کی خدمات کو سراہااور احمدعلی کی ادبی کوششوں کو منظرعام پر لائی۔
ِصابر عدنانی
About the Author: ِصابر عدنانی Read More Articles by ِصابر عدنانی: 34 Articles with 78987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.