دادری میں اخلاق کاقتل :پورے ملک میں اس واقعہ کو دہرانے کی تیاری تو نہیں!

ہندوستان میں جس طرح سے رام مندر اور گاؤ ذبیحہ کے نام پرمسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا گیااور اس وقت یہ ماحول عروج پر ہے۔اس وقت پورا ملک عملاً ہندو راشٹر کے رنگ میں رنگ چکا ہے۔ ہر سطح سے یہی آواز آتی ہے۔ افسانوی اور دیومالائی واقعات کو مذہب کا مکمل رنگ چڑھاکر حقیقی واقعہ بتایا جارہا ہے۔ اسے پورے ملک میں پھیلانے میں ہندی نیوز چینل بہت ہی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ماحول ایک دن میں نہیں بنا ہے۔ بلکہ اس کی تیاری اسی کی دہائی میں شروع ہوگئی تھی۔ دوردرشن پر چلنے والا سیریل مہابھارت اور رامائن نے اس طرح کے ماحول بنانے اور ہندو احیا پرستی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بیج رام مندر تحریک چلاکر بوئی گئی تھی اور بی جے پی نے اس کی فصل کاٹنے میں دیر نہیں لگائی۔ 1989،1991،1996اور 1998 میں اس کا عروج ہوتا گیا۔ بی جے پی کا وجود مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ اس لئے ان کے لیڈروں کوزہر اگلنے کی مکمل آزادی ہے۔آج تک ان لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔اس لئے ان لوگوں نے زہریلا ماحول پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کے لئے رام مندر تحریک کے بعد گاؤ ذبیحہ کو سب سے مضبوط ہتھیار بنایا۔فسطائی طاقتوں کو معلوم تھا کہ اس ہتھیار کو آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس لئے اس معاملے کو سب سے زیادہ ا چھالاگیا۔ گائے کی خوبیاں بیان کی گئی ۔یہاں تک بتایا گیا کہ سکندر اعظم نے جب ہندوستان پرحملہ کیاتھا تو اس وقت راجہ پورس کے پاس ہوائی جہاز تھا جو گائے کے پیشاب سے چلتا تھا۔گائے کے پیشاب سے اتنی بیماریوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ فینائل کی جگہ حکومت کے دفاتر میں گائے کے پیشاب کو استعمال کیا جائے گا۔ اس طرح کی بہت ساری چیزیں گائے کے بارے میں پھیلائی گئی اور مقدس قرار نے کی پوری کوشش کی گئی۔اس کے لئے کئی سینائیں بنائی گئی اور پہلے پہل ان سیناؤں کے ذریعہ جانوروں کے تاجر کو نشانہ بنایا گیا۔ان لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا، ان کے جانور لوٹ لئے گئے اور یہ الزام لگایا گیا کہ اسے ذبح کرنے کے لئے لے جارہے تھے۔ اس طرح ان لوگوں نے ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف زہریلا ماحول بنایا۔ جس کا نتیجہ اخلاق کا قتل کے طور پر سامنے آیا۔

گزشتہ دنوں 28ستمبر کو پیر کی رات کو دادری میں جس طرح محض افواہ کی بنیاد پر ایک مسلمان کو قتل کردیا گیا ۔ یہ صرف ایک قتل نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے یہ واضح اشارہ ہے۔ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی مخلوط آبادی ہے ہندو مسلمان صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کبھی اس طرح کے احساسات نہیں تھے لیکن جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے وہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ مسلمان انتہائی خوفزدہ محسوس کر رہے ہیں۔ وہ انتہائی درد کرب اور ڈر کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کیلئے ہر وقت خطرہ منڈلاتا رہتا ہے کہ نہ کب گائے ذبیحہ کے نام پر ان کا قتل کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اب محفوظ جگہ رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ویسے بھی کسی ہندو علاقے میں مسلمانوں کو گھر نہیں ملتا ہے اور نہ کرایہ پر مکان ملتا ہے۔ اس سے صرف سنگینی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں اس طرح کا ماحول بنادیاگیا ہے جس سے لگتا ہے کہ مسلمان ہونا پاپ ہو۔ یہ ایک منظم سازش کے تحت کیا جارہا ہے۔ اس میں جمہوریت کے سارے ستون شامل ہیں اور کوئی موقع ایسا جانے نہیں دینا چاہتے جس میں مسلمان سکون کی سانس لے سکیں۔ صورت حال اتنی بھیانک ہوگئی ہے کہ جہاں جہاں فساد ہوتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کو ایک طرح سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس میں حکومت کا عندیہ شامل ہوتا ہے۔ بسیہڑا گاؤں کی تاریخ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔گاؤں میں کوئی ہسٹری شیٹر بدمعاش بھی نہیں ہے۔ محمد اخلاق اور ان کے بھائی کا گھر ہندو راجپوتوں کے گھروں سے گھرا ہوا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ سب کا رشتہ بہتر رہا ہوگا۔ پھر اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ ایک افواہ پر اس کے اور اس کے بیٹے کو گھر سے کھینچ کر مارا گیا۔ اینٹوں سے سر کچل دیا گیا۔ بیٹا ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ہر جگہ وہی کہانی ہے جس سے ہمارا ہندوستان کبھی بھی جل اٹھتا ہے۔ لاؤڈ اسپیکرز سے اعلان ہوا۔ واٹسیپ سے کسی گائے کٹنے کی ویڈیو آ گیا۔ایک بچھیا غائب ہو گئی۔لوگ غصے میں آ گئے۔ پھر کہیں گوشت کا ٹکڑا مل جاتا ہے۔ کبھی مندر کے سامنے تو کبھی مسجد کے سامنے کوئی پھینک جاتا ہے۔ان باتوں پر کتنے فسادات ہو گئے۔ کتنے لوگ مار دیئے گئے۔ ہندو بھی مارے گئے اور مسلم بھی۔ ہم سب ان باتوں کو جانتے ہیں پھر بھی انہی باتوں کی وجہ سے متشدد کس طرح ہو جاتے ہیں۔ ہمارے اندر اتنی حیوانیت کون پیدا کر دیتا ہے۔

دادری دہلی سے بالکل نزدیک ہے۔ بسیہڑا گاؤں صاف شفاف ہے۔ایسے گاؤں میں قتل کے بعد سب کچھ عام ہو جائے گا یہ بات بے چین کر رہی ہے۔ آس پاس کے لوگ کس طرح کسی کے قتل کی بات ہضم کرسکتے ہیں۔ شرم اور تکلیف سے وہ پریشان کیوں نہیں نظر آئے؟ بھیڑ بننے اورقاتل بھیڑ بننے کے خلاف چیختے چلاتے کوئی نہیں دکھا۔ گاؤں نوجوانوں سے خالی ہو چکا تھا۔لوگ بتا رہے تھے کہ لاؤڈ اسپیکرز سے اعلان ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ہزاروں لوگ آ گئے۔ مگر وہ کون تھے یہ کوئی نہیں بتا رہا۔ سب ایک دوسرے کو بچانے میں لگے ہیں۔یہ سوال پوچھنے پر کہ وہ چار لوگ کون تھے سب چپ ہو جاتے ہیں۔ یہ سوال پوچھنے پر ان چار پانچ لڑکوں کو کوئی جانتا نہیں تھا تو ان کے کہنے پر اتنی بھیڑ کس طرح آ گئی، سب چپ ہو جاتے ہیں۔ اب سب آپ کے لڑکوں کو بیمار بتا رہے ہیں۔ دوسرے گاؤں سے لوگ آ گئے۔ ہزاروں لوگ ایک گلی میں تو سما نہیں سکتے۔ گاؤں بھر میں پھیل گئے ہوں گے۔ تب بھی کسی نے انہیں نہیں دیکھا۔ جو پکڑے گئے ہیں انہیں بے قصور بتایا جا رہا ہے۔تحقیقات اور عدالت کے فیصلے کے بعد ہی کسی کو مجرم سمجھا جانا چاہئے لیکن تشدد کے بعد جس طرح سے پورا گاؤں نارمل ہو گیا ہے اس سے لگتا نہیں کہ پولیس کبھی اس بھیڑ کو بے نقاب کر پائے گی۔ ویسے پولیس کب کر پائی ہے۔ گوشت گائے تھا یا بکرے کا فورنسک تحقیقات سے پتہ چل بھی گیا تو کیا ہوگا۔ عوام کی بھیڑ تو فیصلہ سنا چکی ہے۔ اخلاق کو کچل کچل کر مار چکی ہے۔ اخلاق کی دلاری بیٹی آپ کی آنکھوں کے سامنے باپ کے مارے جانے کا منظر کیسے بھول سکتی ہے۔ اس بوڑھی ماں کی آنکھوں پر بھی لوگوں نے مارا ہے۔ چوٹ کے گہرے نشانات ہیں۔

جو لوگ یا بی جے پی کے لوگ یا بی جے پی کے مرکزی وزیر مہیش شرما یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ صرف ایک حادثہ تھا اسے کوئی دوسرا رنگ نہ دیا جائے اورنہ ہی اسے فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے۔سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا اور واٹسپ پر یہ گائے کاٹنے کا پیغام کون پھیلا رہاتھا۔ گاؤں کے گھروں اور دیوار وں کو راشٹر وادی پرتاپ سینا کا پوسٹر کون لگارہا تھاجس کے ذریعہ ہندو نوجوانوں کی تربیت اور اشتعال دلانے کا کام کیا جاہا تھا۔ یونہی کوئی بھیڑ اکٹھا نہیں ہوجاتی ، پہلے سے پروگرام طے ہوتا ہے ایسا ایسا کرنا ہے اور فلاں کے گھر پر حملہ کرنا ہے ۔ پہلے آسان نشانہ منتخب کرلیا جاتا ہے۔ جو کچھ ہوا اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی تیاری کا نتیجہ تھا۔ کسی نے ان کے دماغ میں زہر بھر دیاتھا۔اس گاؤن کا نوجوان پرشانت خوبصورت اور پیشے سے انجنیئرنے چھوٹتے ہی کہا کہ کسی کو کسی کے جذبات سے کھیلنے کا حق نہیں ہے۔ پرشانت کو اخلاق کی موت پر کوئی افسوس نہیں ہے اس کے برعکس کہنے لگا کہ جب ملک تقسیم ہو گیا تھا کہ ہندو یہاں رہیں گے اور مسلم پاکستان میں تو گاندھی اور نہرو نے مسلمانوں کو ہندوستان میں کیوں روکا۔ یہ وہ سوچ ہے جس سے فرقہ واریت کا زہر پیدا ہوتا ہے۔ آخر پرشانت کو کس نے یہ سب باتیں کس نے بتائیں ؟ یہ دراصل سنگھ پریوار کے فیض یافتہ اور اس کے ممبران، عہدیداران اور فرقہ پرست پارٹی سے وابستہ لیڈران رات و دن زہر بھرتے ہیں، ان کے علاوہ کون بتاسکتا ہے۔ پورے گاؤں میں اخلاق گھر واحد مسلمان گھر ہے اور گھر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گائے کو ذبح کرنے کے لئے اگر گائی لائی جاتی تو وہ سب کے سامنے ہی آتی۔ انہیں لگتا ہے کہ افواہ ایک سوچی سمجھی سازش ہوگی کیونکہ حملے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر گائے کا قتل کی افواہیں تشہیر کی جانے لگی تھی۔ علاقے کے ممبر اسمبلی ستبیر گوجر کا بھی کہنا تھا کہ حملے سے کافی پہلے ہی ماحول خراب کیا جانے لگا اور لوگوں کو اکسانے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ اس پختہ ثبوت نہیں مل پائے مگر متاثرہ خاندان کے ارکان کا کہنا ہے کہ حملہ کرنے والے ’’ کسی پرتاپ سینا ‘‘ سے جڑے ہوئے ہیں جو سوشل میڈیا پر اس طرح کی افواہ پھیلا رہے تھے۔ اخلاق کے سب سے بڑے بیٹے سرتاج ہندوستانی فضائیہ میں ہیں اور چنئی میں تعینات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار عید پر وہ گھر نہیں آ پائے تھے۔ جس دن واقعہ پیش آیا اس دن انہوں نے دیر رات گھر پر بات بھی کی تھی۔ سرتاج کہتے ہیں، ’’پھر رات 11 بجے کے بعد فون آیا کہ اس طرح کا واقعہ ہوگیاہے۔ میں نے فون کرکے ایمبولینس بھجوانے کی کوشش کی۔ مگر نوئیڈا میں کہیں بھی ایمبولینس نہیں مل پائی۔ میں نے ضلع مجسٹریٹ کو میل بھی کیا، مگر کوئی جواب نہ ملا‘‘۔ بی جے پی ہمیشہ کی طرح اس معاملے کو طول دینے کی کوشش کی۔ پہلے اس قتل کو جائز ٹھہرانے کی انتھک کوشش کی۔ مقامی بی جے پی لیڈر قتل کے ملزمان کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ متاثرہ خاندان کے گھر سے گائے کا گوشت ملا ہے۔ لہذا ملزمان پر قتل کا کیس نہیں چلایا جانا چاہئے اور دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر یہ مطالبہ نہیں مانا گیا تو مہا پنچایت بلائی جائیگی ۔ہندو سیاسی جماعت اور تنظیموں کی جانب سے مظفرنگر فسادات کے دوران بھی مہاپنچایت بلائی گئی تھیں اور اس کے بعدفساد بھڑک گیا تھا۔بی جے پی کے لیڈر کس قدر جھوٹ بولتے ہیں اور ان کی سوچ کس قدر وحشتناک ہے اس کا اندازہ اخلاق کی موت پر بیان سے ہوتا ہے۔ یوپی کے بی جے پی کے نائب صدر شری چند شرما کے مطابق وہ شخص مار پیٹ سے نہیں مرا۔ اس کی موت اس افواہ کے صدمے سے ہوئی کہ کسی نے اس کے بیٹے کو قتل کر دیا۔جب کوئی کسی کے جذبات کو مجروح کرے گا تو ایسے واقعات ہوں گے ۔ اگر وہ گائے کاٹیں گے تو کیا ہمارا خون نہیں ابلے گا؟۔ انہوں نے یہ بھی دھمکی دی کہ’’یہ ٹھاکروں گاؤں یہاں سوچ سمجھ کر کچھ کرنا چاہیے‘‘۔دادری کے سابق بی جے پی ایم ایل اے نواب سنگھ ناگر نے کہا کہ اگر گائے کا گوشت کھانا ثابت ہو جاتا ہے تو مکمل ا طور پر متاثرہ خاندان کی غلطی ہے۔ اگر انہوں نے گوشت کھایا ہے تو وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ انہیں یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اس کے رد عمل کیا ہوگا۔گائے کے قتل پر پابندی ہے اور یہ معاملہ ہندوؤں کے جذبات سے منسلک ہے۔ فطری ہے کہ ایسے واقعات سے لوگوں کا غصہ بھڑکے گا اور فرقہ وارانہ کشیدگی بھی۔

اخلاق احمد کے قتل کے بعد ایک وفد نے دادری میں متاثرہ خاندان سے ملاقات کی تھی اور تمام حالات اور گاؤں کے حالات کا جائزہ لیا تھا۔سیٹزن فور ڈیموکریسی کے ایک وفدجس کی قیادت سپریم کورٹ کے مشہور وکیل این ڈی پنچولی نے کررہے تھے اور جس میں سٹیزن فور ڈیموکریسی کے سکریٹری انل سنہا،راقم الحروف (عابدا نور) اور سماجی کارکن فرح شکیب شامل تھے۔اخلا ق کی ماں اصغر ی نے بتایاتھا کہ دادری کے اخلاق احمد کو صرف قتل ہی نہیں کیا گیا بلکہ بہت ہی بے دردی سے ان کے ہونٹ، کان، ناک اور دیگر اعضا کاٹ لئے گئے تھے۔ افواہ کے بعد تقریباَ ساڑھے نو بجے رات کو ایک بھیڑ نے ان کے گھر پر دھاوا بولا اور کھڑکی دروازے توڑ کراور دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئی اور گھر میں رکھے قیمتی سامان کو لوٹنے کے بعد گھر کو تہس نہس کردیا۔ انہوں نے کہاکہ مارے خوف کے ہم لوگوں نے دروازہ بند کرلیا تھا اور بھیڑ کے سامنے گڑگڑاتے رہے مگر اس کا اس بھیڑ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں نے بھیڑ میں شامل نوجوانوں سے کہا کہ وہ چاہے تو ان کی جان لے لے مگر ان کے بیٹے اور پوتے کو بخش نے دے۔ مگر ان لوگوں نے ان کی ایک نہیں سنی اور ان کے بیٹے اخلاق اور پوتے دانش کو بری طرح مارا اور انتہائی غیر انسانی سلوک کیا۔ انہوں نے کہاکہ بھیڑ نے ان کی پوتی شائستہ اور بہو (اخلاق کی اہلیہ) اکرامن کو بھی نہیں بخشا اور ان کے ساتھ بدتمیزی کی ساری حدیں پار کردیں۔ بھیڑ نے ان کی بہو اور پوتی کی عزت بھی لوٹنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہاکہ ان کی پوتی نے شناخت کرلی ہے اور مارنے والے سب گاؤں کے ہی تھے۔سب کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور ہاکی اسٹک تھے۔ بھیڑ میں شامل کچھ نوجوانوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکا م رہے اس طرح ان کی اور گھر والوں کی جان بچ گئی۔ مجھے ستر سال ہوئے مگراس طرح کا کوئی واقعہ کبھی پیش نہیں آیا۔ہندو مسلمان کا کبھی احساس نہیں ہوا ۔ ہم لوگ ایک رشتہ دار کی طرح رہ رہے تھے۔ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے تھے۔ گاؤں نے پردھان نے اس واقعہ کو گاؤں پر ایک کلنک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ہندو مسلمان پیڑھی در پیڑھی چلے آرہے ہیں۔ ہم لوگ اس طرح کے واقعہ کے بارے میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے۔ ہم لوگ ہولی دیوالی، عید بقرعید سب ساتھ مناتے ہیں۔ ہمارے ہندو بھائی بھی جو گوشت کھاتے ہیں بقرعید کے موقع پر مسلمانوں کے یہاں گوشت کھانے جاتے ہیں۔ ہندو مسلمان تمام تقریب ایک ساتھ مناتے ہیں اور یہاں تک کے گاؤں میں عیدگاہ اور مسجد بنانے میں بھی ہندوؤں نے مدد کی ہے۔یہ افسوسناک واقعہ میں گاؤں کے شرارتی عناصر کا کام ہے اور ہم لوگ اس سے شرمندہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ متاثرین کے ساتھ انصاف ہو اور خاطیوں کو سزا ملے۔اخلاق کے پڑوسی راجندر سنگھ نے وفد کو بتایا کہ یہ افواہ کیسے اڑی ہمیں پتہ نہیں ہے۔ جہاں تک اس طرح کی بات کا تعلق ہے اخلاق کے یہاں ایک مرغی بھی آتی ہے تو ہمیں پتہ ہوتا ہے۔ وفد کے سوال کئے جانے پر آپ لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی تو انہوں نے بتایا کہ بھیڑ والے کسی کی کب سنتے ہیں۔ دادری کے بسہڑہ گاؤں کی آبادی پندرہ ہزار ہے ۔جس میں 80فیصد ٹھاکر ہیں۔ باقی برہمن، دھوبی اور دیگر ذات کے ہیں۔ اس گاؤں میں مسلمانوں کے تقریباً تین سو گھر ہیں۔ قبل ازیں گاؤں والوں نے کہا کہ ہم ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ خاطیوں کو سزا ملے۔ ہم اخلاق کے کنبہ کے ساتھ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ ہمیں بلاوجہ پریشان نہ کیا جائے اور ہمارے صبر کی بھی ایک حد ہے۔

گاؤں کے مندر میں مرکزی وزیر مہیش شرما کے سامنے جس طرح کچھ لوگوں نے تقریر کو اپنے عندیہ کا اظہار کیا اس سے ان لوگوں کے مستقبل کے عزائم کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس میں صاف کہا گیا تھا کہ اگر ہندوؤں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی کہ تو سنگین نتائج ہوں گے۔ سنگین نتائج کیا ہوں گے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جس طرح دہشت کا ماحول ہے اس میں کہیں سے بھی کوئی انصاف کی کرن نظر نہیں آتی۔ گاؤں میں کئی سینائیں پہلے سے کام کر رہی تھیں جس سے یہاں کے نوجوان منسلک ہیں۔بھیڑ میں شامل نوجوانوں کی عمر 15سے 22سال تھی۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے کمسن لڑکوں اور نوعمروں میں مسلمانوں کے خلاف کس قدر زہر گھولا جارہا ہے اورمسلما ن کی ساری توجہ قورمہ․بریانی اور مشاعرہ تک محدود ہے۔اخلاق کا واقعہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 76915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.