بیش قیمت آزادی،گلیوں میں
کھیلتے بے پرواہ بچے،پر امن ماحول،بے فکری سے گنگناتی وہ زندگی۔۔کیا ہی
اعلی دن تھے۔اگرچہ مسائل بھی تھے تو پہاڑ جیسے معلوم نہ ہوتے تھے۔یہ مل
بیٹھ کر حل ڈھونڈ نکالااور ہو گیا مسئلہ ختم ۔بچوں کی نظروں میں لحاظ کی
چمک اور فرمانبرداری کی وہ زبردست مثالیں۔پررونق بازار،من مرضی کر کے قیمت
تہہ کروا لینا اور ہر چیزجیسے پہنچ میں۔لوگوں کا آپس میں دل سے ملنا اور
یارانہ تو کیا خوب نبھانا۔بزرگوں کی عزت کرنا اور ان کا خاندان بھر پر رعب
و دبدبہ ہونا۔اگر کوئی حادثہ رونما ہوتا تومدد کرنے والے لوگوں کی دوڑیں لگ
جاتی تھیں۔بچوں کا شام میں باہر گلی یا سڑک پر معصومانہ اچھل کود کرنا اور
بے فکری کے ساتھ کھیل میں مگن ہونا ۔لوگوں کے لہجوں میں انکسار اور احترام
کا عنصر پائے جانا۔آہ !یہ سب ماضی کے جھرونکوں میں کب کا مدھم پڑ گیا۔۔۔
اور آج کی تصویر اس کے بالکل برعکس دکھائی دینے لگی ہے۔ افراتفری ،لوٹ
ماراور چھینا جھپٹی کا بازار گرم ہے۔دہشت گردی کا خوف ،بے موت مارے جانے کا
ڈراور اپنوں کو بے سہارا چھوڑ جانے کے کرب نے راتوں کی نیند کو بھی اپنی
لپیٹ میں لے لیا ہے۔پشاور کے اس دل دہلا دینے والے واقعے کی خبروں نے
بینائی سے محروم آنکھ کوبھی خون کے آنسو رلا یا ہے۔ کنتی ہی ماؤں کے سینوں
پر سلاخوں سے ضربیں لگائی ہیں۔
ننھے بچوں کاباہر گلیوں میں کھیلنے کا وہ بے فکر زمانہ بہت پیچھے رہ گیا۔اب
تو بھیڑیئے بیٹھے ہوتے ہیں گھات لگائے اور شکار کو دبوچ کر اپنی درندگی کا
نشانہ بنا ڈالتے ہیں ۔باہر کے لوگوں سے کیا شکوہ کہ جب اپنی ہی اولاد کی
آنکھوں میں شر م اور حیا کی کمی ہو۔فرمانبرداری کی مثالیں شاذر و نادر ہی
سننے میں آتی ہیں۔ہر فرد کے لہجے میں پریشانی کے بوجھ نے کرواہٹ پیدا کر دی
ہے جس کا مزہ سامنے کھڑے انسان کو چکھا دیا جاتا ہے۔غصہ،عدم برداشت ،لڑائی
اور قتل و غارت ،یہ سب اب صرف الفاظ میں قید نہیں بلکہ جابجا ان کو عملی
جامہ پہنایا جا رہا ہے۔''کرے کوئی اور، بھرے کوئی'' پر بھی کیا خوب عمل
پیرا ہے زمانہ۔اور ہاں بھیا،جب بھی کہیں کوئی حادثہ پیش آئے تو مدد بعد
میں، پہلے اس واقعے کو اپنے موبائل فون میں ویڈیو کی زینت بناؤ اور ڈال دو
فیس بک پر ۔بس جی پھر وہاں سے وڈیو کے گھومنے پھرنے کا ایک طویل سفر
شروع۔یہ خیال تو رکھا ہی نہیں جاتا کہ احساس رکھنے والے اور نرم دل افراد
کے ذہنوں پراس کا کیا گہرا اثر ہو گا۔یارانہ نبھانا تو دور کی بات،جب دل کی
بستی میں خوامخواہ کی سنی سنائی باتوں نے رنجشیں بن کر اپنے پنجے گھاڑ
لئے۔بازاروں میں گاہک اور دکان دار کی تلخ کلامی کے قصے بھی سماعت سے
ٹکرانے لگے ہیں۔ایمانداری کی جگہ رشوت اپنا گھر بنانے لگی ہے۔انکسار و
عاجزی کی جگہ غرور نے سر اٹھا لیا ہے۔
ہمارا معاشرہ کب اتنا بدل گیا؟کس نے اسے اتنا اکسایا کہ وہ اپنی روایتوں سے
کنارہ کشی اختیار کر کے دوسروں کے گن گانے لگا؟اس کی ہر مثبت سوچ کو کس
منفی اثر نے گھیر لیا؟ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور پھر ان
پر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ وچار کی بھی اشد ضرورت ہے۔کیوں کہ جب تک باہم
گفت و شنید نہ ہو گی،بات کھل کر سامنے نہیں لائے جائے گی تو تب تک اس
پرنجات کی عمارت کی تعمیر کیسے شروع ہو گی!!!
گھر گھر ایک ہی ٹی وی چینل ،زندگی کی گاڑی کو پرسکون انداز سے چلا رہا
تھا۔ڈرامے بھی دیکھنے کو ملتے،خبریں بھی،کارٹون اور تفریحی پروگرام بھی
۔مگر انسان کی تسخیر کرنے کی عادت نے اسے مجبور کیا تو میدان میں آتے چلے
گئے نت نئے چینلزکہ جنہوں نے ناظرین کی نظروں کو بے حد خیرہ کیا۔ معلومات
عامہ،گھر بیٹھے ملکوں کا سفر،ملبوسات کی زیبائش اور گھر کی آرائش،کچن کی
رنگ برنگی دنیا اور طبی آگہی نے جہاں کئی سہولتوں سے آراستہ کیا تو دوسری
طرف فلمی دنیا ،مغربی فیشن ،ڈراموں اور محبت کے بارہا عنوان نے معاشرے کی
روایتی بنیادوں کو ہلانا شروع کر دیا۔پڑوسی ممالک بالخصوص ہمسایہ ملک کی
نازیبا فلموں اور عاشقی سے بھرپور گانوں نے نوجوان نسل کو اپنا مداح بنا
لیا ہے۔ہر ڈرامے میں ان کے ساس بہو کے زور پکڑتے مسائل اور چالاک ذہن کی
شیطانی چالوں نے دوسروں کے گھروں میں آگ لگانے کا کام کیاہے۔مغربی دنیا کے
فیشن کو ہمارے کلچر میں ڈھال دینے سے کسی حد تک لوگوں کا دھیان ان اوٹ
پٹانگ کاموں کی طرف راغب ہونے لگا ہے۔
اور اب سب سے اہم موضوع جو ہمارے آج کل کے پرائیویٹ چینلز کے ڈراموں سے
متعلق ہے۔جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔ان کے ٹائٹل پر تصاویر میں
محبت کی پریشانی ،ناکامی اور دکھ جیسے احساسات زیادہ دکھائی دینے لگے
ہیں۔ان کے ڈائیلاگ کی شدت اور فاصلوں میں بڑھتی کمی نے فوری اثر قبول کرنے
والے دماغوں کو غلط پیغام دیا ہے ۔ڈراموں میں رشتوں کے لحاظ اور احترام کو
کتنی بے دردی سے کھویا جا رہا ہے۔ہمارے ہاں کے لوگ جذباتی طبیعت کے مالک
ہیں وہ کسی کہانی کے اختتام سے زیادہ اس کے آغاز کو اہمیت دیتے ہیں ۔
خوابوں کی دنیا کو آنکھوں میں سجائے اپنے گھروں کی دہلیز کو پار کرنے میں
اب عار محسوس نہیں کرتے۔اور پھر جو گھناؤنے کیسز سامنے آتے ہیں اس کے لئے
اخبارات کا صفحہ کرائم ان واقعات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ڈراموں میں ایک
دوسرے کے خلاف اعلی پائے کی سازشیں نفرتوں کی بجھتی چنگاری کو بھی ہوا دے
دیتی ہیں۔ماں باپ سے اختلاف اورگھر والوں سے بد کلامی کرنے میں کوئی شرم
نہیں کیونکہ یہ محبت کے عظیم جذبے کا تقاضا ہے۔ حقیقت کے متضاد دکھایا جاتا
ہے جیسے ایک غریب گھرانے کی لڑکی سڑک پر گلے میں دوپٹہ لئے جا رہی ہے اور
آفس میں تو اس کے ڈھنگ ہی نرالے ہوتے ہیں۔اب فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ڈرامہ
دیکھنے کا دور گیا ۔ کہانی لکھنے والو!خدارا کچھ تو معاشرتی اقدار اور کلچر
کی ساکھ کا خیال کر لو۔
باقی کی کسرفیس بک پوری کررہی ہے۔اجنبیوں سے دوستیاں ا وربے تکلفی کب انسان
کو گمراہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتے ہیں اسے پتا ہی نہیں چلتا۔ایسی ایسی
پوسٹز (posts) اپ لوڈ اور شیئر کی جاتی ہیں کہ جس میں کسی بھی مشہور شخصیت
کو نہیں بخشا جاتاخواں وہ قائد اعظم جیسا باعزت اور عظیم رہنما ہی کیوں نہ
ہو۔لوگوں میں احساس کی شدید کمی ہوتی جا رہی ہے۔مذاق ہی مذاق میں کسی کے
وقار کی دھجیاں اڑانا اب کوئی بات ہی نہیں رہ گئی۔ اوپر سے ایسے ایسے کمنٹز
کئے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
آج اس تنظیم کا دھرناتو کل فلاں کا !آئے روز ٹی وی پر مختلف پارٹیز،مقامی
تنظیموں یامظلوم بے سہارا لوگوں کے دھرنوں کی خبریں ملاحظہ کی جاتی ہیں
۔دھرنا دینا تو ہمارے ملک میں ایک روایت سی بن گئی ہے۔اور پھر اس روایت پر
پولیس کی لاٹھی بھی برسائی جاتی ہے۔کوئی الزام دیتا ہے پولیس کو تو کوئی
دھرنا کے شرکا کو،تو کوئی حکومت کو بر ابھلا کہہ کر بات کو نمٹا دیتا
ہے۔مگر مسئلہ جڑ پکڑتا ہی کیوں ہے آخر ؟ اس کے فوری حل کے لئے اقدامات آغاز
میں اٹھا لئے جائیں تونہ ہی آئے روزنئی نئی منفی روایتیں جنم لیں،نہ ہی
پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوں،نہ میڈیا ان کو فلما کر نشر کر سکے اور نہ ہی ملک
کے لئے دنیا میں شرمندگی کا سبب پیدا ہو۔
یہ سب دیکھ کرایک سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کا دل بہت کڑھتا ہے ۔دماغ میں
اذیت کے کچوکے لگتے ہیں ۔پریشانی کے دریا میں انسان ڈوب جاتا ہے۔عمر رسیدہ
بزرگوں کی پریشانی بجا ہے کہ معاشرہ زوال کی طرف گامزن ہے۔اپنی ہی مستی میں
اس قدر کھو گیا ہے کہ کچھ سننا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔نوجوان نسل کو تو
یہ ملک سنبھالنا ہے۔مگر وہ تو مگن ہے بلاوجہ کی موج مستی میں۔ان کی روحوں
کو جھنجھورنے کی اشد ضرورت ہے ۔سب کو مل کر اس ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے
اور یہ سب کہنا کوئی جذباتی بات نہیں بلکہ حقیقت میں اب اس کا وقت آن پہنچا
ہے۔
کہا گیا ہے کہ جنت میں نہریں اور باغات ہوں گے۔باہر کے ممالک کے تو اس بات
پر عمل پیرا بھی ہو لئے ۔انھوں نے اپنے ملکوں کو صاف ستھرا ،جھیلوں سے
مزین،امن و امان سے آراستہ اور سبزے سے سجا رکھا ہے کہ ہم اگر وہاں کا رخ
کریں تو بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ جگہ تو جنت معلوم ہوتی ہے۔ اے لوگو!
بات کی گہرائی میں جاؤ اور سمجھنے کی صلاحیت کو بروئے کار لاؤ۔ابھی بھی وقت
ہے ،اس اندھیر نگری سے نکلو اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو اس غیر مہذبانہ
طور طریقوں کی آلائشوں سے پاک کرو۔ اپنے اس دیس کے لوگوں کوبرداشت،آبرو
،چین اور امن کے پرچم تھماؤ نہ کہ بے امنی ، بدمزاجی اور شرمندگی کے جھنڈے
گاڑھو! |