فورنسک جانچ میں بی جے پی کا جرم بے نقاب

فریج میں رکھاہوا گوشت مٹن کا ثابت ہوا

دادری میں میں محمد اخلاق کا بہیمانہ قتل بیف یعنی گائے کا گوشت کھانے کی افواہ پھیلاکر کیا کیا گیاتھا ۔ چوطرفہ مذمت کے باوجود واقعہ کے ماسٹر مائند بی جے پی لیڈران اس بات پر مصر تھے کہ کہ اخلاق اور ان کے اہل خانہ بیف خوری کے مجرم ہیں ،ان پر مقدمہ عائد ہونی چاہئے ۔اتر پردیش میں پابندی کے باوجود گائے کا گوشت کھانے کی پاداش میں ان پر کیس درج کیا جانا انصاف کا تقاضا ہے۔ لیکن اب کیا کہیں گے بی جے پی کہ لیڈران ۔ ملک میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے والے یہ وزاراء او ر ممبران پارلیمنٹ ۔

فریج میں رکھے ہوئے جس گوشت کے بارے میں یہ کہاگیا تھاکہ وہ بیف ہے فورنسک جانچ میں یہ دعوی غلط ثابت ہوگیا ہے ۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپوٹ کے مطابق فورنسک جانچ میں وہ مٹن یعنی بکرے کا گوشت ثابت ہواہے ۔رپوٹ میں کہاگیا ہے کہ 28 ستمبر کو پولس نے اخلاق کے گھر فریج میں رکھے ہوئے گوشت کو اپنی تحویل میں لے کر فورنسک جانچ کے لیئے بھیج دیا جس نے اسے مٹن ثابت کیا ۔ پولس نے مکمل یقین دہانی کے پیش نظر اس کی دوبارہ جانچ میرٹھ کے ایک لیب سے کرائی وہاں بھی یہی ثابت ہوا کہ وہ مٹن ہے بیف نہیں ہے۔

رپورٹ میں نیا کچھ نہیں ہے ۔ یہ بات اسی وقت یقینی تھی کہ فریج میں رکھا ہوا گوشت بیف کا نہیں ہوسکتا ہے ۔ درندوں نے مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے بیف کی افواہ پھیلاکر اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کا محض ایک ڈرامہ رچا تھا تاکہ ان کے سربراہ یہ کہ سکے یہ سب جوش و جذبات کے نتیجے میں پیش آنے والااتفاقی واقعہ ہے۔ قتل اور اقدام قتل جیسے دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ رات کے گیارہ بجے جس وقت درندے اخلاق اور ان کے بیٹے پر مظالم کا پہاڑ توڑرہے تھے۔ دہشت گردی کی نئی مثال قائم کررہے تھے اس وقت بھی اخلاق مرحوم کی بیٹی ساجدہ چیخ و پکار کرکہ رہی تھی کہ وہ گوشت گائے کا نہیں ہے، وہ بیف نہیں ہے ، وہ مٹن ہے ۔ پولس جب گوشت کو اپنی تحویل میں لے رہی تھی سیاست داں پہونچ کر تعزیت کررہے تھے ، میڈیا اہلکار اس خبر نشر کررہے تھے اس وقت ساجدہ کی زبان پر یہی ایک سوال تھاکہ’’ اگر وہ بیف نہیں ہواتو کیا تم مجھے میرا باپ لوٹا دوگے؟ ،میرا باپ مجھے لوٹا دوگے ؟؟،۔میرا باپ مجھے لوٹا دوگے ؟؟؟‘‘۔

جس گوشت کے بیف ہونے کا دعوی کیا گیا تھا وہ بیف نہیں مٹن ثابت ہوا ہے ۔ بے گناہ اخلاق کی زندگی اب واپس نہیں لوٹائی جاسکتی ہے ۔ ساجدہ کو اس کا باپ ، اصغری کو ان کا بیٹا اور دانش کو ان کا باپ نہیں دیا جاسکتا ہے لیکن جو کچھ بھی ممکن ہے اس پر تو عمل کیا جاسکتا ہے ۔ جن مجرموں نے اس خونی وارادت اور شرمناک واقعہ کو انجام دیا ہے اس کو کم ازکم تختہ دار پر تو لٹکایا ہی جاسکتا ہے۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 181119 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More