رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور مبارک اور سوانح عمری -18

غزوہ تبوک
جزیرہ نما عرب میں شرک کے عظیم ترین مستقر کی شکست و ریخت کےساتھ ہی حجاز کے سرداروں نے بھی رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور اس طرح جب ملک کی شمالی حدود میں دین اسلام کی اشاعت کے امکانات روشن ہوگئے تو رومی حکومت کے ایوانوں میں وحشت و اضطراب کے باعث لرزہ پیدا ہونے لگا۔ اس کی عظیم ترین عسکری طاقت چونکہ انتہائی مرتب و منظم تھی اور جنگوں میں اپنے طاقتور حریف یعنی ملک ایران پر وہ پے درپے فتوحات حاصل کر چکا تھا لہٰذا اسے اپنی طاقت پر ناز و غرور بھی تھا۔ چنانچہ اپنی اس طاقت کے زغم میں اس نے اپنے مسلح و منظم لشکر سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوگیا کہ شہنشاہ روم ”ہرقل“ نے عظیم لشکر جمع کر کے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی ادا کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے سرحدوں پر واقع ”لحم“ ”خذام“ ”عسان“ اور ”عالمہ“ صوبوں کے فرمانداروں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے نیز اس کا ہر اول دستہ ”بقا“ تک آن پہنچا ہے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب یہ اطلاع ملی تو اس وقت موسم انتہائی گرم تھا اور لوگ خرما کی فصل جمع کر رہے تھے۔ ایک طرف راستے کی دوری اور دوسری طرف سپاہ روم کا ازدحام ایسے عوامل تھے جن کے باعث سپاہ کو روانہ کرنا سخت و دشوار کام تھا، بالخصوص ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو” معرکہ موتہ“ کے موقعے پر پیش آچکے تھے۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جو واقعی مسلمان تھے اسلام کی قدر و قیمت ذاتی آسائش و آرام اور مادی منفعت سے کہیں زیادہ تھی اور وہ اس کی فلاح کی خاطر تمام باتوں کو نظر انداز کر سکتے تھے۔ چنانچہ اس خیال کے پیش نظر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور مختصر طور پر دشمن کی استعداد اور اس کی عسکری بالادستی کے بارے میں مطلع کیا۔ اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کی روانگی کے لئے سعی و کوشش شروع کر دیں۔ چنانچہ قبائل کے درمیان اور مکہ کی جانب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے روانہ کیے گئے تاکہ وہ لوگوں کو مقدس جہاد میں شرکت کی دعوت دیں۔ ناسازگار حالات کے باوجود 30 ہزار جنگجو سپاہیوں نے جن میں 10 ہزار سوار بھی تھے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پکار پر لبیک کہا۔ (مغازی ج۳ ص ۹۹۰،۱۰۰۲)

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کے اخراجات مہیا کرنے کے لئے مالدار لوگوں سے کہا کہ سپاہ کی مال و اسلحہ کے ذریعے مدد کریں۔ اس کے علاوہ جب پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے یہ اعلان کر دیا گیا کہ اس سفر کے اختیار کرنے کا مقصد کیا ہے تو مسلمان اپنے اس اسلحہ اور ساز و سامان کے ساتھ لشکر کی خیمہ گاہوں میں جمع ہو گئے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان پر لوگوں کے گو نا گوں افکار و نظریات
جب ہم تاریخ کی کتابوں کے صفحات اور ان آیات قرآنی پر نظر ڈالتے ہیں جو اس سلسلے میں نازل ہوئی ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس غزوہ کے بارے میں مسلمانوں کے افکار و نظریات مختلف و گوناگوں تھے۔ جس کی کیفیت ذیل میں درج ہے:

ان لوگوں کو جو مومن اور اپنے قول کے پابند تھے (اور اکثریت ان ہی پر مشتمل تھی) جیسے ہی رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا علم ہوا تو اس ساز و سامان کےساتھ جو ان کے پاس موجود تھا لے کر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سپاہ میں شامل ہوگئے۔ ایک گروہ ایسا بھی تھا جو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جانا تو چاہتا تھا مگر اس کے پاس سواری کے جانور نہ تھے، چنانچہ انہوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ اگر سواری کا بندوبست ہو جائے تو وہ چلنے کو تیار ہیں لیکن جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سواری کے جانور کا فراہم کرنا تو ممکن نہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ اشک بار اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس چلے گئے۔ (سورہ توبہ)

کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سر ہی نہیں جھکایا بلکہ سپاہ کی روانگی میں جس حد تک ممکن ہوسکتا تھا خلل اندازی سے بھی باز نہ آئے۔ چنانچہ وہ مجاہدین جو جنگ میں شرکت کرنا چاہتے تھے ان سے یہ لوگ کہتے کہ”اس تپتے ہوئے موسم میں جنگ پر مت جاؤ۔ اس کے علاوہ جو لوگ ان مجاہدین کو مالی مدد دینا چاہتے تو ان کا بھی یہ لوگ مذاق اڑاتے کسی پر یہ ریاع کار ہونے کا الزام لگاتے اور کسی کی یہ کہہ کر حوصلہ شکنی کرتے کہ تمہارے پاس سامان سفر بہت کم ہے جنگ پر جا کر کیا کرو گے“۔ (تفسیر البرہان ج۲ ص ۱۴۸)

کچھ لوگ ایسے بھی آرام طلب تھے جو جنگ سے فرار کرنے کی غرض سے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکی خدمت میں حاضر ہوتے اور کوئی بے بنیاد بہانہ تراش کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے یہ درخواست کرتے کہ انہیں مدینہ میں ہی رہنے دیا جائے۔ (سورہ توبہ آیت:۹۰)

بعض نے سپاہ اسلام کےساتھ جنگ میں شریک ہونے سے اختلاف کیا لیکن اس اختلاف کی بنیاد میں ان کی بدنیتی شامل نہیں تھی بلکہ اس کا سرچشمہ جنگ کے معاملے میں ان کی سستی و سہل انگاری تھی۔ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے سے زیادہ اپنے درختوں کے میووں کےساتھ دلچسپی تھی اور یہ کہتے تھے کہ ہم فصل جمع کرنے کے بعد ہی جنگ میں شرکت کریں گے۔ (ایضاً آیت:۱۱۸)

تبوک کی جانب روانگی
منافقین کی ہر رخنہ اندازی اور افتراء پردازی کے باوجود رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کر دیا اور بتاریخ9 رجب 9 ہجری اس عظیم لشکر کے ہمراہ، جسے اس دن تک مدینہ میں کسی کی آنکھ نہیں دیکھا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے شمال کی جانب طویل راہ اختیار کرلی۔

تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین اسی وجہ سے مقرر کیا کہ آنحضرت کو عربوں کی بدنیتی کے بارے میں بخوبی علم تھا جن کےساتھ آپ نے جنگ کی تھی اور ان کے بہت سے رشتہ داروں کو تہ تیغ کیا تھا۔ اس کے علاوہ آپ مدینہ کے ان منافقین کی کارستانیوں سے بھی بے خبر نہ تھے جنہوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اس جنگ میں شرکت کرنے سے اجتناب کیا تھا اور یہ احتمال تھا کہ جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کافی عرصے تک مدینے سے باہر تشریف فرما رہیں گے تو آپ کی غیر موجودگی نیز وہ مسلمانوں کی تنہائی کا غلط فائدہ اٹھانا چاہیں گے اور مدینہ پر حملہ کر دیں گے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرح حضرت علی علیہ السلام کی مدینہ میں موجودگی دشمنوں کو خوف زدہ رکھنے ان کی سازشوں کو ناکام بنانے اور مرکزی حکومت کی حفاظت و پائیداری کے لئے اشد ضروری تھی۔

چنانچہ یہی وجہ تھی جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کیا تو اس سلسلے میں آپ نے فرمایا کہ”ان المدینہ لاتصلح الابی اوبک“۔۔”یعنی مدینہ میرے یا تمہارے بغیر اصلاح پذیر نہ ہوگا۔“ (ارشاد مفید ص۸۳)

سپاہ اسلام کے سامنے چونکہ اقتصادی راستے کی دوری سواری کے جانوروں کی کافی کمی، سخت گرمی، جھلسا دینے والی ہوا کی تپش جیسی مشکلات تھیں اسی لیے اس لشکر کو ”جیش العسریہ“ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔چنانچہ یہ سپاہ ان تمام سختیوں کو برداشت کرتی ہوئی ”تبوک“ نامی مقام پر پہنچ گئی۔ مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ دشمن کا دور دور تک پتہ نہیں۔ گویا ہرقل کو جب اسلام کی عظیم سپاہ کی روانگی کا علم ہوا تو اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ پسپا ہو کر اپنے ملک کی حدود میں چلا جائے۔ لیکن سپاہ اسلام نے وسیع پیمانے پر انتہائی تیزی کے ساتھ شمالی حدود کے کنارے پہنچ کر اور20 روز تک وہاں قیام پذیر رہ کر دشمنانِ اسلام کو بہت سے پند آموز سبق سکھا دیئے جن میں سے چند کا ہم یہاں ذکر کریں گے:

روم کی شہنشاہیت اور اس کے دست پروردہ سرحدی حکمرانوں پر اسلام کی طاقت و عظمت قطعی طور آشکار و عیاں ہوگئی اور یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مسلمانوں کی عظیم عسکری طاقت اس حد تک ہے کہ اگر دنیا کے طاقتور ترین لشکر سے بھی ٹکر لینے کی نوبت آجائے تو اس کا مقابلہ کرنے میں انہیں ذرا بھی باک نہیں۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ بعض سرحدی صوبوں کے فرمانروا اس اطلاع کے ملتے ہی کہ لشکر اسلام سرزمین تبوک پہنچ گیا ہے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس عہد و پیمان کےساتھ کہ وہ کسی طرح کا تعرض نہ کریں گے۔ یہ بھی وعدہ کیا کہ ہر سال معقول رقم حکومت اسلامی کو بطور خراج ادا کیا کریں گے۔ (السیرة النبویہ ج۴ ص ۱۶۹)

تبوک کے راستے پر ”دومتہ الجندل“ نامی محکم قلعہ بنا ہوا تھا جس پر ”اکیدر“ نامی عیسائی بادشاہ کی حکمرانی تھی۔ چونکہ اس کے تعلقات ہرقل کےساتھ خوشگوار تھے اسی لیے اس کا شمار ان مراکز میں ہوتا تھا جو مسلمانوں کےلئے خطرات پیدا کرسکتے تھے۔ چنانچہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمنے خالد بن ولید کو تبوک سے 420 سواروں کے دستے کے ساتھ دومة الجندل“ کی جانب روانہ فرمایا تاکہ وہاں پہنچ کر انہیں اسلحہ سے بے دخل کر دے۔ خالد نے دشمن کے اسلحہ پر قبضہ کرنے کے بعد اس منطقے کے فرمانروا کو گرفتار کرلیا اور اسے مال غنیمت کے ساتھ لے کر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس شرط پر آزاد کر دیا کہ وہ ”جزیہ“ ادا کیا کرے گا۔ اس غزوہ کے باعث دین اسلام و رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی روم کے عیسائیوں کی زبان پر جاری رہنے لگا اور اس کا چرچا تازہ ترین خبر کی طرح ہر جگہ رہتا۔ چنانچہ ایسا میدان ہموار ہوگیا کہ رومی دین اسلام کو عالمی طاقت سمجھنے لگے۔

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔

نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہو گی ۔

 
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112794 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More