رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور مبارک اور سوانح عمری -19

غزوہ تبوک کے ثمرات
جزیرہ نما عرب میں وہ عرب و مشرکین جو دین اسلام قبول کرنے کی سعادت سے محروم رہ گئے تھے اب انہیں بھی دین اسلام کی قوت کا پوری طرح اندازہ ہونے لگا تھا اور یہ بات اچھی طرح ان کی سمجھ میں آگئی کہ جب رومیوں کا طاقت ور لشکر اپنے پورے جنگی ساز و سامان کے باوجود لشکر اسلام کا مقابلہ نہ کرسکا تو ایسی زبردست طاقت کے سامنے ان کا سینہ سپر رہنا لاحاصل ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ان قبائل نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اس سے قبل کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کی خبر لینے آئیں وہ خود ہی اپنے نمائندے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں روانہ کر دیں اور چاہا کہ یا تو دین اسلام قبول کرلیں اور یا ایسا عہد و پیمان کریں جس کی رو سے اسلامی حکومت ان کے معاملات میں متعرض نہ ہو۔ چونکہ بیشتر وفد غزوہ تبوک کے بعد9 ہجری میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سے مشرف ہوئے اسی وجہ سے 9ہجری کو ”سنتہ الوفود“ کہا جانے لگا۔ (السیرة النبویہ ج۴ ص ۲۰۵)

اس کے علاوہ رومی لشکر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہی چونکہ فرار کر گیا تھا لہٰذا سپاہ کے حوصلے اس واقعے سے بہت زیادہ بلند ہوگئے۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے روم پر حملہ کئے تو اس سے بہت سے عمدہ اثرات رونما ہوئے۔ پہلا تو یہی کہ ان کے حوصلے اتنے قوی ہوگئے کہ وہ کسی بھی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور شاید اسی حوصلہ مندی کی وجہ سے انہوں نے یہ اقدام کرنا چاہا کہ اپنا اسلحہ فروخت کر دیں کیونکہ وہ اکثر کہا کرتے تھے ”کہ اب جہاد کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے“ مگر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس اقدام سے منع فرمایا۔ (طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۶۷)

مدینہ کے رہنے والوں کو جب یہ اطلاع ملی کہ اسلام کو رومیوں پر فتح حاصل ہوئی ہے تو وہ ایسے مسرور ہوئے کہ بقول ”بیہقی“ عورتوں، بچوں اور نوجوانوں نے یہ ترانے گا کر لشکر اسلام کا استقبال کیا:
طلع البدر علینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مادعا للہ داع
ایھا امبعوث فینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جئت بالامر مطاع

’ہم پر بدر نے ثنیات الوداع سے طلوع کیا، جب تک کوئی خدا کو پکارنے والا ہے، ہم پر لشکر واجب ہے، اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی آپ ایسا حکم لے کر آئے ہیں کہ جس کی اطاعت ضروری ہے۔“

دوسرا یہ کہ مسلمان اتنا طویل پر مشقت سفر کرنے کے باعث چونکہ اس کی مشکلات و خصوصیات سے واقف ہوگئے تھے اسی لیے مستقبل میں شام کو فتح کرنے کا راستہ ان کےلئے ہموار ہوگیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد دیگر ممالک کو فتح کرنے سے قبل مسلمان شام کو فتح کرنے کے جانب متوجہ ہوئے۔

نفاق کا چہرہ بے نقاب
صدر اسلام کی دیگر جنگوں کے مقابل ”غزوہ تبوک“ سب سے زیادہ منافقین کی جولان گاہ اور ان کے خیانت کارانہ و مجرمانہ افعال کی آزمائشگاہ ثابت ہوا۔ چنانچہ انہوں نے جتنی بھی بداعمالیاں اور بدعنوانیاں کیں خداوند تعالیٰ نے دوسری جنگوں کے مقابل ان کے اتنے ہی برے ارادوں اور ان کے منافقانہ چہروں کو بے نقاب کیا اور شاید اسی وجہ سے اس غزوہ کو ”فاضحہ“ (رسوا کن) کہا گیا ہے۔ (السیرة الحلبیہ ج۳ ص ۱۳۹)

اس سے قبل کہ سپاہ اسلام ”تبوک“ کی جانب روانہ ہو منافقین نے جو بھی مواقع تلاش کئے اور جو بھی خیانت کاریاں ان سے سرزد ہوئیں ان کے بعض نمونے اوپر پیش کئے جاچکے ہیں۔ انہوں نے انہی خیانت کاریوں اور اپنی بداعمالیوں پر اکتفا نہ کیا بلکہ جتنے عرصے تک لشکر اسلام غزوہ تبوک پر رہا ان کی سازشیں بھی جاری رہیں۔ چنانچہ ذیل میں ہم اس کے چند نمونے پیش کرتے ہیں۔

منافقین کے ایک گروہ نے ”سویم“ نامی یہودی کے گھر پر جلسہ کیا جس میں انہوں نے اس مسئلے پر غور و فکر کیا کہ جنگی امور اور لشکر کی روانگی میں کس طرح خلل اندازی کی جائے۔ چنانچہ جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے ارادے کا علم ہوا تو آنحضرت نے چند لوگوں کو اس کے گھر کی طرف روانہ کیا جنہوں نے اسے نذر آتش کر دیا۔ (حوالہ سابق ص۱۶۰)

اس وقت سپاہ اسلام ”ثنیتہ الوداع“ نامی لشکر گاہ میں جمع ہوئی تو منافقین کے سردار ”عبداللہ بن ابی“ نے اپنے ساتھیوں اور ان یہودیوں کے ہمراہ جن سے ان کا معاہدہ تھا کوہ ”رکاب‘ کے کنارے اپنا خیمہ لگایا اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اس طرح زہر اگلنا شروع کیا۔ محمد کو رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کی سوجھی ہے اور وہ بھی اس جھلس دینے والی گرمی میں اور اتنی دور جا کر ادھر سپاہ اسلام کا یہ حال ہے کہ اس میں جنگ کرنے کی ذرا بھی تاب و مجال نہیں۔ رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کو ہنسی کھیل سمجھ لیا ہے میں تو سمجھتا ہوں کہ محمد کے جتنے بھی ساتھی ہیں سب ہی کل قیدی ہوں گے اور سب کی مشکیں کسی ہوئی نظر آئیں گی۔ وہ اپنی اس خیانت کارانہ گفتار اور بدکرداری سے چاہتا تھا کہ مسلمانوں کے حوصلے پست کر دے اور انہیں اس مقدس جہاد پر جانے سے باز رکھے۔ مگر اس کی یہ نیرنگی وحیلہ گری کارگر ثابت نہ ہوئی اور بہت ہی یاس و ناامیدی کی حالت میں مدینہ پہنچا۔ (مغازی ج۳ ص ۹۹۵)

سپاہ اسلام جب تبوک کی جانب روانہ ہوئی اور حضرت علی علیہ السلام مدینہ میں قیام فرما رہے تو منافقوں کو اپنی تمام کوششیں ناکام ہوتی نظر آئیں چنانچہ اب وہ اس فکر میں رہنے لگے کہ کس طرح ایسا ماحول پیدا کریں اور اس قسم کی افواہیں پھیلا دیں کہ حضرت علی علیہ السلام مرکزی حکومت سے دور چلے جائیں تاکہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کی غیر موجودگی میں پورے اطمینان کے ساتھ اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہناسکیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے یہ افواہیں سنیں کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپ کو اپنی سرزد مہری اور بے اتفاقی کی وجہ سے محاذ جنگ پر لے کر نہیں جا رہے ہیں تو آپ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام واقعات آنحضرت کے سامنے بیان کئے۔ جنہیں سن کر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ” وہ جھوٹ بول رہے ہیں میں تو تمہیں اس وجہ سے چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہاں جو کچھ ہے تم اس کی حفاظت و نگہبانی کرو، کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام تھے بس میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔“ اس کے بعد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ آپ واپس مدینہ چلے جائیں اور آنحضرت کے جانشین کی حیثیت سے ”دارالھجرہ“ میں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ مقیم رہیں۔

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112834 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More