دلی پرسب کی نگاہیں تھیں،لیکن دل والوں نے جوفیصلہ
کیا،دیکھ کردنیاحیران رہ گئی،اوراب بہارکی باری ہے،چھوٹی بڑی سبھی پارٹیوں
کی نظریں ٹکی ہیں بہار پر ، کیا ہوگا بہارمیں،اونٹ کس کروٹ بیٹھے گی،
بہارکی عوام اوریہاں کی جنتاکوبہت ہی دانشمندی اورسنجیدگی سے فیصلہ لیناہے۔
ہندوستان کی د یگرریاستوں کے مقابلے میں بہارمیں بھلے ہی غریبی زیادہ
ہو،مگریہاں کے لوگوں کے دل امیرہیں،مجموعی طورپرسب کے دلوں میں الفت ومحبت
موجزن ہیں اورایثاروقربانی کاجذبہ پایاجاتاہے، انسانیت کوشرمندہ ہونے سے
بچانے کیلئے ہرایک وسرے کے معاون ومددگاربنتے ہیں،اسی لئے گذشتہ26 سالوں سے
یہاں پرکوئی بڑافسادنہیں ہواہے۔
دیگرریاستوں کے مقابلے میں ریاست بہارمیں عورتوں کی عصمت اوران کے حقوق
کاتحفظ بھی زیادہ ہے،اسی لئے بلاتکاراورعصمت دری کی شرح بہارمیں صرف
1․1ہے،جبکہ گجرات میں 4․1،مہاراشٹرمیں 9․2، جھارکھنڈمیں3.2،ہریانہ میں
4.4،گوامیں 4.9،راجستھان میں 5.3،چھتیس گڑھ میں 5.7 اورمدھیہ پردیس میں
6.7ہے،اوران تمام صوبوں میں عورتوں کے حقوق اورتحفظ کیلئے سب سے
آوازبلندکرنے والی بی جے پی کی سرکار ہے۔
قول وفعل میں تضادیہ بہاریوں کی عادت نہیں ہے،بھلے وہ کمزورہو،خصوصی ریاست
کادرجہ نہ ملنے، مرکزی سرکارکی بے توجہی کی وجہ سے وہ ترقی کے میدان میں
بہت آگے نہ گئے ہوں،لیکن بہاری بے ایمان نہیں ہے، اورنہ بہاربیمارریاست ہے۔
مراٹھی زبان نہ بولنے کی وجہ سے7؍لاکھ آٹورکشہ والوں کومہاراشٹرسے دھکے
مارکربھگایاجاتاہو،یا دلی، ممبئی اورگجرات کی گلیوں میں بہاری ایک گالی
سمجھا جاتاہو،مگرہمیں فخرہے کہ ہم بہاری ہیں،اوریہ کہنے میں کسی بھی بہاری
کوشرمندگی کاذرہ برابراحساس نہیں ہوسکتاہے کہ اس کاتعلق بہارکی سرزمین سے
ہے۔
ہندوستان کاکوئی ایساخطہ نہیں جہاں پربہاریوں کے قدم نہ پڑے ہوں،اوراسے
سرسبزوشاداب نہ کیاہو ، دہلی کودل،ممبئی ،گجرات کوترقی یافتہ ریاست بنانے
میں بہاریوں کااہم رول رہاہے،ہریانہ وپنجاب کی لہلہاتی کھیتوں میں بہاریوں
کاہی خون شامل ہے،کوئی مانے یانہ مانے سچ یہ ہے کہ بہاری محنتی وجفاکش ہوتے
ہیں ، ان کی ضرورت ہرریاست کورہتی ہے،یہ اوربات ہے کہ ہرجگہ ان کااستحصال
ہواہے اور ہور ہا ہے۔
عجب سیاست ہے ،اور اقتدار کے لئے دعووں کی انبارہے،ہندومسلم کارڈکھیلنے کی
کوشش ہورہی ہے، مذہب،مسلک اورذات پات کے نام پردلوں کوتوڑنے کی کوششیں
ہورہی ہیں،ایک طرف سیکولرمہاگٹھ بندھن ہے،تودوسری طرف این ڈی اے اورساتھ
میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں،تیسرافرنٹ بھی ہاتھ، پاؤں پساررہاہے جس کی بہارمیں
اپنی کوئی زمین بھی نہیں ہے،این ڈی اے کے پاس وزیراعلیٰ کیلئے کوئی چہرہ
نہیں ہے،تیسرافرنٹ نیم مردہ ہے،اب صرف ایک چہرہ باقی رہ جاتاہے اوروہ ہے
نتیش کمارجی!
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے،جہاں پرجمہوریت کی بالاستی قائم ہے،ہرفردحکومت
میں برابرکا شریک ہے،چاہے وہ کسی بھی مذہب اوردھرم کاپالن کرتاہو،ہندوستان
اس کے حقوق ووجودکامحافظ ہے، کوئی کمزورہویاطاقتور،امیرہویاغریب،ہندومسلم
سب برابرہیں حصہ داری میں،کسی کے ساتھ بھیدوبھاؤ، امتیازوتفریق نہ برتی
جائے،یہی اس ملک کاآئین کہتاہے۔
مگرجس طرح اقلیتوں پرباربارمظالم ڈھائے جارہے ہیں،انہیں ذلیل
ورسوارکیاجارہاہے،ان کو شکوک وشبہات کی ترچھی نگاہوں سے دیکھاجاتاہے،اوریہ
مطالبہ تک کیاجاتاہے کہ ووٹ کاحق ان سے چھین لیاجائے، کیایہی جمہوریت
ہے،اورجمہوریت کی حکمرانی کایہی مطلب ہے؟
جولوگ ایساکرتے ہیں،یااس طرح کافضاقائم کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کیلئے نہیں
بلکہ انسانیت کو شرمندہ کرکے اقتدارکی اونچائی تک پہونچناچاہتے ہیں ،حقیقت
میں وہ صرف اقلیتوں کا ہی دشمن ہی نہیں ، اس ملک کا دشمن ہے ،اس ملک کی
گنگاجمنی تہذیب کادشمن ہے ،امن وامان اور سیکولر اقداروروایات کا دشمن ہے ،
ریاست بہار اب تک اس طرح کے ناجائز حملوں سے اور ہتھکنڈوں سے پاک رہاہے
،مگر اب اسے آلودہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔
سیاسی بازی گروں کی سیاسی چالیں ،اور ایک دوسر ے کو نیچادکھانے کی کوششیں
تو ہر دور میں رہی ہیں ، لیکن اس بار جو صورت حال دیکھنے کو مل رہی ہے
،ایسالگتاہے کہ بہار کا انتخاب جیتناسب کے لئے بالخصوص مرکز میں برسراقتدار
سرکار کے لئے ناک کا مسئلہ بناہواہے اور یہ سچ بھی اسی لئے پورے ہندوستان
کی نظریں بہار پر مرکوز ہیں،سب کو انتظار ہے نتائج کا ،اگر بہاریوں کے
اتحاد سے فرقہ پرست طاقتیں شکست کھاجاتی ہیں تو پھر اس کی کمرٹوٹ جائیگی
،یوپی ،بنگال میں ابھرنا ایک اہم مسئلہ بن جائیگا۔
حالانکہ کانٹے کی اس ٹکر میں بہاریوں کیلئے یہ کھیل اتناآسان نہیں ہے ،اس
لئے کہ اس میں صرف کھلاڑی ٹیمیں ہی نہیں ،بلکہ کھیل کو بگاڑوالے لوگ زیادہ
ہیں،ہر صورت میں نقصان کو سیکولر کاہوگا،اور تقسیم وبٹوارے کی سیاست کرنے
والے کی کامیابی ،لیکن ہندومسلم سب نے اگر مل کر دلی کی تاریخ سے سبق لیا
ہوگا تو یہاں بھی دلی کی تاریخ دہرائی جائیگی۔اورفرقہ پرست طاقتیں زمین بوس
ہوجائیں گی ۔
ہندوستان ایک خوبصورت چمن ہے ،اور اس چمن کی خوبصورتی یہاں کے بسنے والے
مختلف مذاہب کے لوگوں سے ہے،ہر ایک کو آزادی ہے ،اور اپنے مذہب پر عمل کرنے
میں وہ خودمختار ہے،مگر جو فضاقائم کرنے کی مذموم کوشش ہورہی ہے اور
ہندوستان کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی جو مذموم سازش چل رہی ہے ،اس چمن
کی خوبصورتی کو تہہ وبالاکرنے کیلئے کافی ہے ۔
ہندوستان اس ملک کا نام ہے ،جب مسلمانوں کی حکومت تب بھی اس کا نام
’’ہندوستان ‘‘ہی رہا،اور آج بھی اس کا نام ہندوستان ہے ،ہندوستان کا مطلب
یہ نہیں کہ یہ صرف ’’ہندو +استھان‘‘ ہے،اس لئے کہ ’’ ہندو‘‘کبھی بھی کسی
مذہب کا نام نہیں رہا،ہاں یہ سچ ضرور ہے کہ حضرت نوح ں کے پوتے کانام’’
ہند‘‘تھا ،وہ جب دنیاکے اس حصے میں آیاتو اپنے نام سے ایک شہر بسایاجس
کانام ’’ہند‘‘رکھا،بعد میں’’ استھان ‘‘ جڑگیا، اور ہندوستان مشہور ہوگیا۔
ہندوستان کی یہ پرانی تاریخ ہے کہ یہاں پر اقتدار کی جنگ تو خوب ہوئی ہے
،مگر کبھی بھی فرقہ اور مذہب کے نام پر لڑائی نہیں ہوئی ،مگر افسوس یہ ہے
کہ اسی دیش میں صرف اقتدارکیلئے مخصوص ذہنیت نے لوگوں کے دلوں کو
بانٹناشروع کردیاہے،چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر ہندومسلم کو کو
توڑاجارہاہے،خون کی ندیاں بہادی جارہی ہیں،کھانے اور پینے تک کی سیاست ہونے
لگی ہے،اپنی آئیڈیالوجی کو دوسرے پر تھوپنے کی کوشیں ہورہی ہیں ، مگر یہ
ہندوستان ہے ،جس کی آزادی کے لئے مذہب سے اوپر اٹھ کر سب نے اپنی قربانیاں
پیش کی ہیں،وہ کبھی بھی لاشوں کی سیڑ ھی پر چڑھ کر ملک کی ترقی کابھاشن
دینے والوں کومعاف نہیں کریں گے۔
سمجھ میں میں نہیں آتا،آج کے نیتااس قدرنیچے کیوں گرگئے ہیں؟صرف افواہوں کی
بنیادپرمندرسے باضابطہ اعلان ہوتاہے،ایک بھیڑجمع ہوتی ہے،اورپیٹ پیٹ
کراخلاق نامی شخص کوقتل کردیاجاتاہے،ملک کی آئین کی بات کرنے والے اورقانون
وانصاف کے رکھوالے کہاں سوگئے؟یہ کہدینا:یہ ایک حادثہ تھا،یہ زعفرانی جھوٹ
ہے،یہ کہدیناکہ:صدرجمہوریہ نے جوکہا: ہم سب اس پر عمل کریں،یہ مخصوص ذہنیت
کو خوش رکھنے کاایک نیااندازہے۔
مرکزخاموش تماشائی ہے،اوریوپی سرکار30؍لاکھ روپئے دیکرپھروہی لیپاپوتی کرنے
کی کوشش کررہی ہے ، مگرکیا30؍لاکھ روپئے کسی کی جان کابدل ہوسکتاہے،پھرتو
کوئی بھی طاقتورکمزورکوماردیگااوراپنے کالے دھن میں سے لاکھوں روپئے
اداکرکے اس طرح فسادپھیلاتارہے گا،اس لئے معاوضہ مسئلہ کاحل نہیں، انصاف
اور انصاف صرف انصاف؛ہرہندوستانی کامطالبہ ہے۔
اگرانصاف نہیں ہوگا،اورخاطیوں کوسزانہیں ملے گی،توصوفی ،سنتوں ،بزرگوں
اورگاندھی جی کے اس دیش میں اخلاق کاقتل ہوتارہے گا۔ابھی توامریکی صدربارک
حسین اوبامہ نے ریمارکس کیاہے،امریکہ کے اخبارنے بی جے پی سرکارکوآڑے
ہاتھوں لیکرنہایت ہی تشویش اوربڑھی خلیج کا اظہارکیاہے،پوری دنیاکی طرف سے
آوازاٹھے گی،اورہندوستان شرمسارہوگا۔
بہارکاپرامن بہارقائم ودوائم رہے۔دادری کاسانحہ نہ پیش نہ آئے،سب مل جل
کررہیں ، مذہب ، مسلک سے اوپراٹھ کر انسانیت کے نام پرسب ایک پلیٹ فارم
پرکھڑے ہوجائیں،نہ ہوکوئی بھید بھاؤ، اور ذات پات کی لڑائی،اس کیلئے تمام
بہاریوں کواتحادکاثبوت پیش کرناہوگا۔تو اب کیاچاہتے ہیں؟
ہمارے مسلم اور ہندو بھائیو!آئیے انسانیت کو شرمندہ ہونے سے بچانے کے لئے
ہم بہاری اتحاد کا مظاہرہ کریں،ایک دن دلی کا سر اونچاہواتھا،آج بہار کی
باری ہے،اور فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!!
مذہب نہیں سکھاتاآپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا |