واپڈا جیسے سفید ہاتھی کو جسکی 20کروڑ عوام تو ستائی ہو
ئی ہے ہی اب حکومتوں کے زوال کا باعث بھی بن رہا ہے، کو ذرائع کے مطابق
نواز شریف حکومت نے واپڈا کے ملازمین کے دباؤ کے نتیجے میں پرائیویٹائز
کرنے کا پروگرام منسوخ کر دیا ہے۔ واپڈا کی پرائیویٹائزیشن کے حق میں بجلی
چوروں کے سوا پاکستان کا ہر وہ شہری جو باقاعدگی اور ایمانداری سے بل ادا
کرتا ہے لیکن اسکے باوجود اسے بھی 12سے16گھنٹے لوڈشیڈنگ ، اوو رریڈنگ،
ناجائز جرمانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اندھوں کا قانون ہے ۔ سب کو ایک ہی
لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے واپڈا کے کرپٹ افسران و عملہ اور بجلی چور صارفین
، صنعت کار ، زمین دار ، جاگیر دار ، کارخانوں کے مالکان کی ملی بھگت سے جو
سالانہ اربوں روپوں کی بجلی چوری کی جاتی ہے اسکا خمیازہ ایک عام صارف کو
جو اس گناہ میں ملوث نہیں ہے بھگتنا پڑ رہا ہے۔ واپڈا کی نجکاری ہی اسکی
آخری امید تھی۔جو اب دم توڑ گئی ہے۔اب وہی واپڈا کا کرپٹ مافیا ہے اور
20کرو ڑ عوام عذاب مسلسل میں مبتلا ہے اور مبتلا رہے گی۔ موجودہ حکمرانوں
کے دور میں اگر دیکھا جائے تو بجلی کی لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل میں آئے دن
اضافہ نے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ لیکن معاملات بجائے سدھرنے کے
آئے دب بگڑتے جا رہے ہیں۔زرداری دور میں رمضان، عید، بقر عید پر لوڈشیڈنگ
سے عوام کو چند دن نجات مل جاتی تھی لیکن عابد شیر علی جیسے نا اہل وزیر نے
وہ حق بھی لوگوں سے چھین لیا ۔ اب حکومتی اعلان کے باوجود کہ عیدین ، رمضان
میں لوڈشیڈنگ نہ ہو گی ، لوڈ شیڈنگ کی گئی۔ عین قربانی کے وقت جب لوگ جانور
کا خون بہانے اور چھری پھیرنے میں مصروف تھے بجلی گئی۔ ایسے مبارک دن لوگوں
کے دل و زبان سے حکمرانوں ، واپڈا کے کرپٹ افسران و مافیا کے لئے جو بد
دعائیں نکلی وہ اثر ضرور کریں گی۔ ان لوگوں نے جس طرح 20کروڑ عوام کا سکھ و
چین تباہ و برباد کیا ہے یہ بھی سکھ کبھی دنیا و آخرت میں نہ پائیں گے۔یہ
تھیں لوگوں کی بد دعائیں۔ مجھے حیرانی ہے کہ نواز شریف کو تیسری بار
حکمرانی ملی ہی اس لئے تھی کہ انہوں نے لوگوں سے 3ماہ،6ماہ، 1 سا ل، ڈیڑھ
سال اور اب 2017 تک نجات کی نوید لوگوں کو سنائی لیکن جس طرح سے واپڈا کے
مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے لگتا نہیں ہے کہ وہ کچھ کرنے میں مخلص ہیں۔ نندی
پور پراجیکٹ میں مبینہ طور پر 60ارب سے زائد کی رقم برباد کر دی گئی لیکن
عوام کو حاصل کچھ نہیں ۔ بہاولپور کے قریب سولر پراجیکٹ پر خطیر سرمایہ لگا
دیا گیا ہے ۔ لیکن فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ۔ کوئی ڈیم شروع نہ ہو سکا ۔
الٹا اب نیپرا کی جانب سے الزام ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وزارت پانی و
بجلی جان بوجھ کر جعلی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے ۔ نیپرا کی سالانہ رپورٹ سال
2014-15 کے مطابق بجلی کے 70فیصد صارفین کو درست بل نہیں مل رہے ، نئے میٹر
سسٹم بھی ناکارہ ہیں۔ سرکاری تھرمل پلانٹس کی انتظامیہ نے جان بوجھ کر
پلانٹس بند کر رکھے ہیں۔ بعض پاور پلانٹس کی مشینیں تین سال سے بند پڑی ہیں۔
نیپرا نے دریائے سندھ پر بجلی کی پیداواری یونٹ جناح ہائیڈرو پراجیکٹ کی
کارکر دگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ 17ارب روپے خرچ کر دینے کے باوجود
منصوبے میں تکنیکی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں ۔ منصوبے کو تین سال کا عرصہ ہو
گیا ہے لیکن یہ مطلوبہ مقدار میں بجلی پیدا نہ کر سکا۔
تین سال کے عرصے میں صرف 72کروڑ یونٹ بجلی پیدا ہوئی۔ نیپرا کے اس بیان کے
بعد جو حکومتی کارکر دگی کا پول کھولنے کے لئے کافی ہے ۔ وزارت پانی و بجلی
اور نیپرا کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اوور ریڈنگ اور بجلی چوری
کی شکایات کو کم کرنے کے لئے حکومت نے Pesco میں نئے میٹرز کی تنصیب میٹر
ریڈرز کو 20ہزارمالیت کا Samsung موبائل جسکے ذریعے وہ میٹرز کے Imegesلے
کر بل پرنٹ کرنے کے لئے دیں گے کے منصوبے کا آغاز کیا لیکن یہ منصوبہ اپنے
آغاز سے قبل ہی کرپٹ مافیا کے باعث اختتام کو پہنچ گیا ۔ باوثوق ذرائع کے
مطابق ایک اعلیٰ سطح کے افسران کے اجلاس میں اس پر بحث کے دوران جب یہ
بتایا گیا کہ جب میٹر کے Imeges لے کر روانہ کئے جائے گے تو واپڈا کی جانب
سے اوور ریڈنگ نہ صرف پکڑی جائے گی بلکہ اس مد میں صارفین کو کروڑوں کا
کریڈٹ دینا پڑے گا۔ جس کے باعث واپڈا کا بٹھہ بیٹھ جائے گا۔ لہذا اس اچھے
کا م کو ابتدا ہی میں سازشوں کا شکار صرف اس غرض سے کر دیا ہے اس سے بھانڈا
پھوٹ جائے گا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو عوام کے دکھ درد کا
احساس تک نہیں ہے۔ گیس و بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور کرپشن نے عوام کا کاروبار
زندگی معطل کر کے رکھ دیا ہے۔ لیکن صوبائی اور مرکزی حکومتیں بجلی کی
پیداوار کے منصوبے اور کرپشن کے کنٹرول میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ براعظم
افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک موز مبیق کی مثا ل میں یہاں ضرور دوں گا جس کی
آبادی صرف 2کروڑ ساٹھ لاکھ پر مشتمل ہے۔ جس میں 30% مسلمان اور 50% عیسائی
ہیں ۔ موزمبیق کا نام موزمبیق اس لئے پڑا کہ یہاں پرموسیٰ بن بیگ دعوت
تبلیغ کے لئے آئے تھے اس ملک میں ہمارے شہر کی ایک جماعت سات ماہ دعوت کا
کام کر کے آئی ۔انکا کہنا ہے کہ وہاں لوڈ شیڈنگ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
ٹوکن سسٹم ہے۔ جتنی بجلی استعمال کرنی ہے اتنے پیسے ڈالو اوربجلی استعمال
کرو۔ تاروں پہ کنڈہ سسٹم کو کنٹرول کرنے کیلئے انہوں نے پلاسٹک کور تاروں
پہ چڑھا رکھے ہیں۔ جن پر کنڈا نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ غریب ملک اپنے پڑوسی
جنوبی افریقہ کو بھی بجلی فراہم کرتا ہے۔ایک ہم ہیں جہاں پہ بجلی کے نرخ
بنگلہ دیش، انڈیا کے مقابلے میں دگنے ہیں ۔ لیکن ہم نہ تو بجلی پیدا کر پا
رہے ہیں اور نہ ہی اس ملک میں کرپشن کو روک پا رہے ہیں۔ آئے دن عوام کو
جھوٹی نویدیں سناتے ہیں لیکن اپنے قبلے کو درست نہیں کر پاتے۔ موز بیق جیسا
سسٹم پشاور کے ایک علاقے میں آزمائشی طور پر شروع کیا گیا جہاں کا فیڈر
منافع میں چلا گیا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر میں اگر صارفین کی واپڈا
جیسے سفید ہاتھی کے اندر موجود کرپٹ ، غریبوں کا خون چوسنے والے افسران و
عملہ سے جان خلاصی کروانی ہے تو ٹوکن سسٹم، میٹر Imeges ، تاروں پہ کور اور
دیگر نئے Inovatives پروگرام لانے ہونگے۔ بصورت دیگر واپڈا کے نا اہل ،
FIAاور دیگر احتسابی اداروں ، نااہل وزیروں ، مشیروں ، حکمرانوں کے رہتے
ہوئے عوام کو ریلیف ملنا مشکل ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی کوئی صورت پرانے
فرسودہ کرپٹ نظام کے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتی۔ |