روز اول سے کروڑوں انسان اِس دنیا میں آئے ‘کھایا پیا
افزائش نسل کا حصہ بنے اور پیوندِ خاک ہوگئے، کروڑوں کے اِس ہجوم میں کچھ
ایسے انسان بھی اِس کرہ ارض پر طلوع ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو بے پناہ
صلاحیتوں سے نوازا، اﷲ کی دی ہوئی بے پناہ صلاحیتوں کے بل پوتے پر یہ مقدر
شہرت اور کامیابی و کامرانی کے اُس بلند مقام پر فائز ہوئے کہ صدیوں کا
غبار بھی اُن کی شہرت کو دھندلا نہ سکا، ایسا ہی ایک عظیم انسان356 قبل
مسیح مقدونیا (یونان) کے دارلخلافہ پیلا میں پیدا ہوا، اِس کا باپ بادشاہ
فلپ دوئم انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال اور عقل و شعور سے معمور
تھا۔اُس نے اپنی ذاتی صلاحیتوں سے مقدونیاکی منتشر فوجوں میں تنظیم پیدا کی
اور اتحاد کی نئی روح پھونک کر اعلی درجہ کی جنگجو فوج میں تبدیل کردیا،
پھر یونان کے شمال حصوں کو فتح کیا اور جنوب کی طرف بڑھ کر اُس پر بھی قبضہ
کر لیا اور یونان کے مشرق میں عظیم وسیع عریض ایرانی سلطنت پر حملہ کی
تیاری کرنے لگا، لیکن وقت کے بے راس گھوڑے نے فلپ کو مہلت نہ دی اور
چھیالیس برس کی عمر میں فلپ کو قتل کر دیا گیا ‘باپ کی موت کے وقت بیٹے کی
عمر صرف بیس برس تھی کیونکہ بیٹا تاریخ انسانی کے عظیم ترین فاتحین میں سے
ایک تھا، مقدر نے ساتھ دیا اور بیٹا بغیر کسی مشکل کے اقتدار کے تخت پر
براجمان ہوگیا‘ باپ نے مرنے سے پہلے ہی بیٹے کی جانشینی کی راہیں ہموار کر
دیں تھیں بیٹے کو اعلی عسکری تربیت دی گئی تھی۔اُس کی ذہنی صلاحیتوں میں
ترقی اور عقل و شعور اور بصیرت کے لیے تاریخ انسانی کے عظیم ترین سائنس دان
اور فلسفی ارسطو کو بیٹے کا استاد مقرر کیا گیا‘ یہی بیٹا آگے جاکر دنیائے
قدیم کا عظیم فاتح سکندر اعظم کہلایا، بلاشبہ سکندر اعظم تاریخ کا انتہائی
افسانوی کردار تھا اُس کی زندگی اور شخصیت میں ایک طرح کا انمول سحر پوشیدہ
ہے اِس کی زندگی کے مختلف زاویے اور رنگ بھی ڈرامائی نوعیت کے ہیں، اُس کی
اولین خواہش تھی کہ وہ دنیا کا عظیم ترین جنگجو اور فاتح عالم بنے اور وہ
اِس کا استحقاق بھی رکھتا تھا وہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین سپہ سالار تھا
اپنی گیارہ سالہ فوجی زندگی میں ہمیشہ فتح نے اُس کے قدم چومے شکست کا
سامنا کبھی بھی نہ کیا، سکندر ایک سحر انگیز غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا
مال شخصیت کا مالک تھا۔بارہا اُس نے اپنے ہارے ہوئے دشمنوں کو معاف کیا اور
اُس کا رویہ فراغدلانہ اور صلح جو ہانہ تھا، اپنی زندگی میں سکندر نے بیس
سے زیادہ نئے شہروں کی بنیاد ڈالی اِن میں بہت اہم اور مشہور شہر مصر میں
سکندریہ ہے جو بہت تھوڑے عرصے میں دنیا کے ممتاز اور صف اول کے شہروں میں
شمار ہو نے لگا اور علم و تہذیب کا گہوارا بن گیا، اِس کے علاوہ افغانستان
کے شہر ہرات اور قندھار بھی دنیا کے اہم شہروں کی فہرست میں شامل ہو گئے،
ایران کو فتح کرنے کے بعد وہ کوہ ہندوکش کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا
بہت سارے شہر اور علاقے فتح کئے اب وہ مشرقی ہندوستان کی طرف جانا چاہتا
تھا لیکن سپاہیوں نے تھکاوٹ کا اظہار کیا تو سکندر واپس یونان چلا گیا اور
متحدہ یونانی ایرانی سلطنت کی بنیاد رکھی، جس کا سربراہ تھا اُس نے مشرق
اور مغرب کے عنوان سے ایک شاندار جشن کا اہتمام کیا جس میں مقدونیہ کے
ہزاروں فوجیوں کی ایشیائی عورتوں سے باضابطہ شادیاں کرائی گئیں، جنگجو کے
ساتھ وہ ایک دانشور بھی تھا‘ ارسطو کا شاگرد رہا‘ ہومر کی شاعری سے بصیرت
حاصل کی، وہ جب بھی جنگ کے بعد واپس آتا تو اپنے دور کے مشہور مجذوب فلسفی
دیو جانس کلبی سے ضرور ملنے جاتا یہ مجذوب اپنی عقل و فراست کی وجہ سے ہر
دل عزیز اور مشہور ہو چکا تھا۔اِس مجذوب کی ساری زندگی غوروفکر ‘مراقبے ‘بے
خودی اور عالم استغراق میں گزری ‘ہر وقت عالم بے خودی ‘جذب ‘سُکر اور اپنے
ہی خیالوں میں مستغرق ‘دنیا ؤ مافیا سے بے فکر ‘ایک ٹب میں بیٹھا نظر آتا
اُسی جگہ بیٹھے بیٹھے زندگی گزار دی، وہ ہر وقت اپنی خلوت سے انجمن کا لطف
اٹھاتا ‘جب بھی دیکھو عالم جذب و کیف سرور اور سر شاری میں نظر آتا ‘اگر
کوئی آجاتا تو اُسے دانش و حکمت سے مستفید کر دیتا ‘بے نیازی کے عالم نے
اُس کو جکڑا ہوا تھا ‘یہی وقت تھا جب سکندر اعظم کی فتوحات کا ڈنکا چار
دانگ عالم میں بج رہا تھا، سکندر اگر چہ جنگجو تھا لیکن اُسے دانش و حکمت
اور اربابِ فکر و بصیرت سے ایک گو نہ گو رغبت اور عقیدت تھی، وہ اکثر دیو
جانس کلبی سے ملنے جاتا لیکن اکثر ملاقات کے بغیر ہی واپس جانا پڑتا کیونکہ
کلبی بے نیاز شخص تھا وہ اُن لوگوں میں ہرگز نہیں تھا جو قرب شاہی کے طلب و
آرزو مند ہوں اور شاہی دانشور کہلانے کے جنون میں ہمہ وقت مبتلا ہوں،
دیوجانس ساری عمر اِسی بے نیازی پر قائم رہا اُس کی یہ بے نیازی ضرب مثل بن
چکی تھی۔ ایک بار سکندر اعظم اُس سے ملنے آیا تو سردی عروج پر تھی کلبی
سورج کی حدت اورکرنوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا سکندر حاضر ہوا اور احترامًا
کھڑا ہوگیا کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اجازت لیتے ہوئے بولا استادِ محترم
میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلا تکلف حکم فرمایے مجھے بہت خوشی ہو گی تو
اپنے وقت کے بے نیاز اور بے نفس مجذوب نے کہا نیم باز آنکھوں سے فاتح عالم
سے بے تکلفی اور بے ساختگی سے کہا بس اتنی مہربانی کر دیجیے کہ آپ ذرا ایک
طرف ہو جایئے آپ نے میری دھوپ روک رکھی ہے، ایک بار سکندر اپنے وزرا اور
ساتھیوں کے ساتھ کلبی کے پاس آیا کچھ دیرٹھہرا کھانے کے وقت پر کلبی نے
اپنے شاگردوں سے کہا باقی لوگوں کو تو معمول کا لنگر پیش کیا جائے البتہ
سکندر اور میں ایک ساتھ کھانا کھائیں گے، ہمارے لیے سونے چاندی کے ٹکڑے اور
سکے کھانے کی جگہ دسترخوان پر رکھے جائیں، یہ چیزیں دیکھ کر سکندر بولا
حضور یہ کیسے کھائیں گے تو مجذوب وقت بولا دوسروں کے لیے تو عام کھانا ہے
یہ صرف آپ کے لیے ہے‘ سکندر نے حیرت سے کہا جناب یہ کھانے والی چیزیں نہیں
ہیں میں اِن کو نہیں کھا سکتا تو کلبی بولا میں تو سمجھاتھا تم اب فاتح بن
کر عام انسانوں والا کھانہ نہیں کھاتے ہو گے بلکہ سونے چاندی اور ہیرے
جواہرات موتی کھاتے ہو گے مگر آج پتہ چلاتمھیں بھی اُسی خوراک کی ضرورت ہے
جو عام انسان کھاتے ہیں اگر یہی کھانا کھاتے ہو تو اتنے بڑے پیمانے پر قتل
و غارت اور تباہی و بربادی کی کیا ضرورت ہے یہ سب کچھ تو گھر بیٹھے بھی مل
سکتا ہے۔اِس پر فاتح عالم کی شرمندگی ندامت اور خِفت کا کیا عالم ہوگا یہ
ارباب علم و دانش کی نظر سے مخفی نہیں، بلا شبہ دیوجانس کلبی کی شان بے
نیازی تھی جو ابد تک داد وصول کرتی رہے گی اور یہ بھی کہ فاتح عالم اکثر
علم و دانش کے موتی سمیٹنے ایک مجذوب کے در پر سوالی بن کر آتا اور احترامً
کھڑا ہو جاتا۔ |