ڈاکٹر ممتاز احمدخاں
صفحات: ۳۴۰ قیمت: ۳۰۰ روپے
ناشر: فکشن ہاؤس۔۳۹، مزنگ روڈ، بک اسٹریٹ، لاہور
نوشین سینٹر، فرسٹ فلور، اردو بازار، کراچی
رابعہ سینٹر، حیدرچوک، حیدرآباد
مبصر:صابرعدنانی
’’اردوناول کے ہمہ گیر سروکار‘‘ ڈاکٹر ممتاز احمدخان کی ناول پر پانچویں
کتاب ہے۔ اس سے قبل ان کی کتاب ’’اردو ناول کے بدلتے تناظر‘‘۱۹۹۳ء (ویلکم
بک پورٹ، کراچی/مغربی پاکستان اردو اکادمی، لاہور) پی ایچ ڈی مقالہ ’’آزادی
کے بعد اردو ناول، ہیئت، اسالیب اور رجحانات(۱۹۸۷ء۔۱۹۴۷ء) انجمن ترقی اردو
کراچی سے اور اس کا دوسرا ایڈیشن کئی اضافوں کے ساتھ وہیں سے ۲۰۰۸ء میں
شائع ہوا، ساتھ ہی انجمن ترقی اردو سے ۲۰۰۳ء میں’’اردو ناول کے چند اہم
زاویئے‘‘ چھپی۔زیرتبصرہ کتاب فکشن ہاؤس جیسے اشاعتی ادارے سے چھپا۔ یہ
تفصیل اس لیے دی ہے تاکہ یہ پتا چلے کہ گزشتہ بیس سال سے ڈاکٹر ممتاز
احمدخان اردو ناول کی عملی تنقید سے وابستہ رہے ہیں تاکہ اس بڑی صنفِ ادب
کو تسلسل میں دیکھ کر اس کے اسالیب، رجحانات، تیکنیکوں، متنوع ماجروں اور
نقطۂ ہائے نظریہ محاسن ومعائب کا جائزہ لیا جاسکے۔ انھوں نے اردو ناولوں کے
علاوہ ناول کے مسائل پر بھی لکھا ہے۔جس کی ضرورت بھی تھی اس کی مثالیں یہ
ہیں: ناول کی حشرسامانیاں، ناول کی تنقید وتحقیق کی صورت حال، جدید اردو
ناول میں موضوعاتی تنوع، فنتسیائی (Novels of Fantasy) کے امکانات (بحوالہ
اردو ناول کے چند اہم زاویئے)، ناول کی تفہیم وتعبیر کی دشواریاں، ناول کی
عظمت اور ضرورت، پاکستانی ناول کا آئندہ ناول اپنی تعریفوں (Definitions)
کے آئینے میں، اردو ناول۔ اختلافات وتحقیقی مغالطے وغیرہ۔
زیرتبصرہ کتاب میں کئی چاند تھے سرِآسماں(شمس الرحمن فاروقی)، غلام باغ
(مرزا اطہربیگ)، کاغذی گھاٹ(خالدہ حسین)، العاصفہ(ڈاکٹر حسن منظر)، قربتِ
مرگ میں محبت اور قلعہ جنگی (مستنصرحسین تارڑ)، پارپرے (جوگندرپال)، مٹی
آدم کھاتی ہے(حمیدشاہد)، جنت کی تلاش (رحیم گل) اس کے علاوہ اردو ناول کے
ہمہ گیر سروکار کے عنوان تلے ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر جدید دور تک کے
تقریبًا تمام ہی ناولوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیاہے۔ اس کے علاوہ بھی
مختلف موقرادبی رسائل میں ناولوں پر ان کے تنقیدی مضامین ہمیں پڑھنے کو
ملتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر ممتاز احمدخان کا اختصاص یہ ہے کہ وہ اپنے مضمون کے ذریعے ناول سے
دلچسپی رکھنے والے قاری یا اسکالر کو ناول پڑھنے کی طرف راغب کردیتے ہیں۔
ناول ظاہر ہے کہ بڑی صنفِ ادب ہے اور ہمارے بیشتر ناول پانچ سو صفحات سے
بھی تجاوز کرجاتے ہیں اور چوں کہ اس کا کینویس بڑا ہوتا ہے اور واقعات کی
کثرت ہوتی ہے اس لیے اس کی تفہیم اور ناول نگار کے اصل نقطۂ نظرکی تلاش میں
دشواری ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر علامتی ناول کے ضمن میں زیادہ پیش آتا
ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمدخان چوں کہ انگریزی ادب پڑھاتے رہے ہیں اس لیے ان کے
مضامین میں مغرب کے ناولوں کے حوالے بھی ملتے ہیں۔ آج کل انھوں نے مابعد
جدید ناولوں کا مطالعہ کرکے لکھنا شروع کیا ہے جس کے تحت مرزا اطہر بیگ کے
دو مابعدجدید ناولوں ’’غلام باغ‘‘ اور ’’صفر سے ایک تک‘‘(سائبراسپیس کے
منشی کی سرگزشت)کا احاطہ کیا ہے جو کسی اگلی کتاب کا حصّہ ہوں گے۔ برسبیل
تذکرہ بتاتا چلو ں کہ ان کی رہنمائی میں ان کے استاد نقادوناول نگارڈاکٹر
احسن فاروقی کا بھی حصّہ ہے جو بذاتِ خود ’’شامِ اودھ‘‘ اور ’’سنگم‘‘ جیسے
ناولوں کے خالق ہیں اور جن کی دو کتابیں ’’اردو ناول کی تنقیدی تاریخ‘‘ اور
’’ادبی تخلیق اور ناول‘‘ اردو ناول کی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں اور شاید ہی
ناول کا کوئی نقاد یا استاد ایسا ہو جنھوں نے ان کی ان دو کتابوں اور ادبی
رسائل میں پھیلے تنقیدی مضامین (جن کو کتابی صورت میں آنا چاہیے)سے استفادہ
نہ کیا ہو۔ لیکن اس کے باوجود کہ ڈاکٹر یوسف سرمست، ڈاکٹرسہیل بخاری، ڈاکٹر
سیدمحمدعقیل اور ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹرعلی احمدفاطمی وغیرہ کی کتابیں اور
چند دیگر نقادوں کے معدودے چند تنقیدی مضامین اور جامعات میں ناول پر پی
ایچ ڈی کرنے والے محققین کی چند کتابیں جو چھپ چکی ہیں ہمیں محسوس ہوتا ہے
ناول کی تنقید وتحقیق کے اثاثے میں پھر بھی کچھ کمی ہے اس لیے کہ ۱۸۶۹ء سے
لے کر آج تک اس ایک سو چالیس سال میں خاصی تعداد میں ناول سامنے آئے ہیں جن
کا اگر بیس فی صدحصّہ معیاری اور قابل ذکر ناولوں پر مشتمل ہو ، تب بھی ان
پر تنقید اور تحقیق شاعری اور دیگر اصنافِ ادب پر لکھے جانے والے مضامین
اور کتابوں کے مقابلے میں کم ٹھہرتی ہے۔ ایسی صورت میں جو نقاد ناول پر لکھ
رہے ہیں اور اس کی عملی تنقید کو ثروت مند بنارہے ہیں ان میں ایک ڈاکٹر
ممتاز احمدخان بھی ہیں۔ انھوں نے قرۃ العین حیدر، عزیز احمد،احسن فاروقی،
نثارعزیز بٹ، ڈاکٹر انورسجاد، انیس ناگی، ڈاکٹرشمس الرحمن فاروقی، مرزا
اطہربیگ،ڈاکٹر حسن منظر، شوکت صدیقی، فضل احمد کریم فضلی، محمدخالداختر،
خدیجہ مستور، حیات اﷲانصاری، حجاب امتیازعلی، جیلانی بانو، غلام عباس،
جوگندرپال، انتظارحسین، عبداﷲحسین، بانوقدسیہ، غلام الثقلین نقوی، فہیم
اعظمی، جمیلہ ہاشمی، رشیدہ رضویہ، بیدی، تارڑ جیسے ناول نگاروں پر لکھا ہے۔
جہاں تک ان کے نقطۂ نظرکا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں احساسِ کمتری اور بے
بضاعتی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، اردو ناول توانا ہے، اس نے کئی رجحانات کا
احاطہ کیا ہے اور کئی ناولوں کو مغرب کے سامے رکھا جاسکتا ہے۔ مغرب میں
ناول کے آثار سترھویں صدی میں اُبھرنا شروع ہوگئے تھے، پھر روس، فرانس،
جرمنی، امریکہ، لاطینی امریکہ میں قابلِ ذکر ناول لکھے گئے جس میں ٹالسٹائی
کا ’’وار اینڈ پیس‘‘ اور گیربل گارسیا مارکیز کا ’’ون ہنڈرڈایرس آف سولی
چیوڈ‘‘ بھی ہے۔ اس کے مقابلے میں اردو ناول کی ایک سوچالیس سالہ عمرخاصی کم
ہے لیکن وہ ارتقائی منازل طے کررہا ہے۔ ڈاکٹراحسن فاروقی بڑے ناول کے لیے
’’داناے راز‘‘ کی تلاش میں رہے۔ قرۃ العین حیدر کی عظمت کو وہ تسلیم نہیں
کرتے تھے۔ پینتیس سال پہلے وہ چلے گئے، ورنہ آج انھیں ’’دانائے راز‘‘مل
جاتا!
آخرمیں کہنا چاہوں گا ’’اردو ناول کے ہمہ گیرسروکار‘‘ پر آکر ڈاکٹر ممتاز
احمدخان ٹھہر نہیں گئے ہیں۔ ان کا سفر جاری ہے۔ اہم ادبی وتحقیقی جریدوں
میں ان کے مضامین تواتر سے چھپ رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ناول کی گمشدہ
کڑیوں کو بھی ڈھونڈنکالیں گے۔ ہمارے ناولوں کی تاریخ میں اب بھی کئی ناول
نگار ایسے ہیں جن پر کام کرنا ان پر قرض ہے۔ یہ ناول کے تاریخی تناظر اور
اس کی تنقید وتحقیق کا بھی تقاضا ہے۔
|