وزنی جیب

عید کے دوسرے دن ایک مولوی صاحب تھکے ہارے بوجھل قدموں سے چلتے ہوے گھر آرہے تھے ، انکے پیر اٹھ نہیں رہے تھےبیچارے رمضان بھر گھوم گھوم کر چندہ کرنے کے بعد آج کمیٹی کو حساب دیکر آئے تھے سا یئکل پنکچر ہونے کیوجہ سے پیدل چل رہے تھے اور سا یئکل کو بھی جیسے تیسے گھسیٹ رہے تھے ، اس سب کے باو جود بھی ایک عجیب سی خوشی انکے چہرے سے جھلک رہی تھی۔ جسکی وجہ تھی ایک ایک رسید کا حساب دینے کے بعد مولوی صاحب کی جیب میں پانچ ہزار کی رقم بچی ہویئ تھی۔ وہ خوش ہو رہے تھے اور کبھی کبھی رک کر آسمان کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں اپنے مالک ومولیٰ کا شکریہ ادا کرتے جاتے کہ ، اے اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر کے تونے اس غریب مولوی کی جیب میں اتنی برکت عطا فرمایئ ، اور ایسی مصیبت و ہریشانی کے عالم مین جبکہ میری تنخواہ کی رقم ختم ہو چکی تھی اور ابھی بچوں کے اسکول کی فیس ، دودھ والے کا حساب، اور بجلی کا بل ادا کرنا باقی ہے ، تونے غیب سے میری یہ مدد فرمائی۔

اسی درمیان مولوی صاحب کا گھر آگیا اور بیگم کو آواز دی دروازہ کھلا مولوی ساحب نے سا یئکل اسکی مقررہ جگہ پر رکھی ، وضو کیا عشاء کی نماز اداکی ، بچوں کو پیار کیا، کھانہ کھایا ، کرتہ اتار کر کھونٹی میں ٹانگا اور آرام کرنے کے لیئے لیٹ گئے۔ اور لیٹے لیٹے من ہی من حساب کرنے لگے کہ بچوں کی فیس، بجلی بل اور دودھ والے کے حساب کے بعد ایک ہزار دوسو بیس روپیئے بچ جایئنگے ۔ ایک بار پھر مولوی صاحب نے اپنے مالک و مولیٰ کا شکریہ ادا کیا اور سوگئے۔

رات کو اچانک کچھ آوازیں سن کر مولوی صاحب بیدار ہوئے، چاروں ترف دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا ، آنکھیں ملنے کے بعد غور کیا تو وہ دھندلی سی ااوازیں اب صاف ہو رہی تھیں وہ پہلی آواز جو مولوی ساحب کو صاف صاف سنائی دی وہ یہ تھی۔

قلم بھائی! آج میرا بوجھ پتہ نہیں کیوں بہت بھاری ہو گیا ہے ؟ حالانکہ آج تو میرے اندر صرف پانچ ہزار روپئیے ہیں اور رمضان شریف مین تو بہت پیسے ہوتے تھے مگر اتنا وزن کبھی محسوس نہیں ہوا ؟
قلم: ارے جیب بہن ! تو تھک گئی ہوگی اسی لیئے تجھے ایسا لگ رہا ہے۔
جیب : نہیں! میں تھکی نہیں ہوں آج تو حساب ہوگیا ہے اب میرے اندر صرف تم ، اور رسید بک ہی ہیں اور بہت سارا روپیہ اور کاغذات تو آج کم ہوگئے مگر پھر بھی نہ جانے کیوں آج مجھے بہت بھاری پن محسوس ہو رہا ہے ۔
قلم: رسید بک زیادہ موٹی ہو گئی ہے کیا؟ اور دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔
رسید بک: ہاں تم میرا ہی مزاق اڑاؤ، میں ہی ملتی ہوں تمہیں مزاق اڑانے کے لیئے۔ اور کوئی کام تو ہے نہیں مزاق اڑانے کے سوا۔
قلم: ارے بہن ہم لوگ تو بس ایسے ہی کہہ رہے تھے بر ا مت ماننا۔
جیب : مگر کیا بات ہے میرا بوجھ تو واقعی بڑھ گیا ہے۔
رسید بک: تونے کوئی برا کام کیا ہوگا تبھی تیرے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ اب قلم اور رسید بک دونون زور سے ہنسے اور جیب نے برا سا مونہہ بنایا ، اور کہا برا کا م کریں میرے دشمن میں تو کوئی برا کام نہین کرتی۔
رسید بک: تو پھر ہم سب کو غور کرنا چاہیئے کہ ایسا کیوں ہے ۔ قلم ،جیب اور رسید بک تینوں کافی دیر تک غور و فکر کے سمندر میں غوطہ زن رہنے کے بعد ۔
قلم: میرے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔
رسید بک: میرا بھی یہی حال ہے۔
جیب : تو اب کیسے پتا چلے کہ یہ کیونکر ہوا ہے؟
اسکے بعد پھر سب کے سب غور و فکر کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے اور ایک بار پھر گہری خاموشی چھا گیئ۔ اور اسی درمیان ایک دلخراش چیخ رات کی گہری خاموشی کا سینہ چیرتی ہوئی چلی گئی ۔ اور پھر کیا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے چیخوں کا سیلاب آ گیا ہو ، پہلے تو کسی کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہوا ، سب گھبرا سے گئے تھے پھر جب ہوش بجا ہوئے تو دیکھا کہ وہ پانچ ہزار روپیئے تھے جو دہاٹیں مار مار کر رورہے تھے ۔
قلم : ارے ارے چپ ہو جاؤ بتاؤ تو کیا بات ہے اچانک تم اتنی زور زور سے کیوں رونے لگے۔
جیب نے روپیوں کے آنسو صاف کرتے ہوئے تسلی دی اور کہا کہ چپ ہوجاؤ ! ہمیں اپنا دوست سمجھو! اور بتاؤ کیا بات ہے؟
روپیوں کا رو رو کر برا حال تھا انکا دم اکھڑ چکا تھا ، سانسیں لینے میں مشکل ہو رہی تھی۔
رسید بک: وجہ بتاؤ بھایئ ! ہم سے جو ہو سکے گا مدد کرینگے تمھاری۔
روپئیے اپنے آپکو سنبھالتے ہؤے ، ہم اپنے لیئے نہیں رو رہے ۔ ہم جیب کے بوجھ اور مولوی صاحب کے رزق کیوجہ سے رورہے ہیں ۔
قلم: وہ کیسے؟
روپئے: در اصل بات یہ ہے کہ جب مولوی صاحب پہلے رمضان المبارک کو چندہ کر رہے تھے وہ جمعہ کا دن بھیڑ بہت تھی ، لوگ جلد بازی میں تھے اور مولوی صاحب جلدی جلدی رسید کاٹ رہے تھے ، تبھی ایک شخص آیا اور مولوی ساحب کو پانچ ہزار روپیے دیئے اور جانے لگا ، مولوی صاحب نے اسے آواز دی بھایئ رسید تو لیتے جاؤ! وہ ہاتھ اٹھا کر بولا مجھے آپ پر بھروسہ ہے ، رسید کی کویئ زرورت نہیں۔ اور وہ نکل گیا مولوی صاحب اسی کی طرف دیکھ رہے تھے کے اچانک لوگوں نے انہیں جھنجھوڑا اور وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہؤے اور جلدی سے اسکی رسید کاٹنے لگے تبھی وہاں موجود ایک شخص نے مولوی ساحب سے کہا آپ میری رسید کاٹیئے وہ تو چلا گیا اور مجھے بھی جلدی ہے کام پر جانا ہے۔
اسکے بعد مولوی صاحب یکے بعد دیگرے لوگوں کی رسید کاٹتے رہے اور جب تک بھیڑ ختم ہو یئ مولوی صاحب کے ذہن سے یہ بات نکل چکی تھی کہ انہیں ابھی کسی کی رسید بھی کاٹنی ہے۔
اور آج جب کمیٹی والوں نے حساب لیا تو صرف انہی روپیوں کا جو رسید میں درج تھے ، اور جن روپیوں کی رسید نہیں کٹی تھی انکا نہ تو انہیں علم تھا اور نہ مولوی صاحب کو یاد تھی۔کیونکہ ایک مہینے سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا ، اب انہیں یہ لگ رہا ہے کہ یہ روپیئے انکے ہیں، جو چندہ کے تھے وہ سارے تو کمیٹی والوں کے حوالے کر دیئے۔
اسی لیئے آج جیب کا وزن بڑھ گیا ہے کیونکہ آج ہم حرام اور ناجائز طریقے سے مولوی ساحب کی جیب میں ہیں، اور مولوی صاحب اپنا سمجھ کر ہمیں اپنے کام میں خرچ کر لینگے اور وہ بھی حرام میں مبتلاء ہو جایئنگے اور جیسے ہی حرام رزق سے بنا ہوا خون انکے جسم کی رگوں میں دوڑے گا تو شیطان انپر غلب ااجائے گا اور پھر وہ ان سے غلط کام کروائے گا۔
قلم: پتا نہیں لوگ کیوں مسجد سے اتنی جلدی بھاگنا چاہتے ہیں، اس شخص کی تھوڑی سی جلد بازی کیوجہ سے جیب بہن کو بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے اور مولوی صاحب فتنہ میں پڑنے والے ہیں۔ اگر وہ شخص ایک منٹ رک کر اپنی رسید لے لیتا تو آج یہ تکلیفیں نہ ہوتیں۔
جیب: یہی لوگ دوسری جگہوں پر گھنٹوں ٹائم برباد کرتے ہیں ، تین تین گھنٹے کی فلم دیکھتے ہیں ، واٹس ایپ، ٹؤیٹر، انسٹاگرام، فیس بک، فلپ کارٹ، وغیرہ پر گھنٹوں وقت برباد کرتے ہیں تب انہیں کوئی جلدبازی نہیں ہوتی مگر جب مسجد مین جو کہ  ﷻ کا گھر ہے جاتے تو انکے سارے کام بگڑنے لگتے ہیں اور یہ مسجد سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے چور پولیس کو اور ہرن شیر کو دیکھ کر بھاگتا ہے ۔
قلم:  ان سب کو ہدایت عطا فرمائے ، اور سب نے آمین کہا۔
مولوی صاحب روتے ہوئے اٹھے اور سب سے پہلے وضو کرکے اللہ ربالعزت کی باگاہ میں سر بسجود ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اسنے انہیں گناہ میں مبتلا ہونے سے بچا لیا ، اور دل میں عہد کیا اب اسی وقت رسید کاٹےگا چاہے کویئ لے یا نہ لے ، اور لوگوں سے کہےگا کہ وہ رسید ضرور لیا کریں ۔
اور صبح نماز فجر ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے وہ پیسے کمیٹی کو دیئے اور اللہ سے دعا کی کہ اے میرے رب میرے بچوں کی فیس کا انتظام فرما اگر تو نہیں فرمائے گا تو کون فرمائےگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
mohammad Shahid Ali
About the Author: mohammad Shahid Ali Read More Articles by mohammad Shahid Ali: 2 Articles with 2020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.