میری زندگی میں ایک ایسا
واقعہ بھی گزرا ہے ٗ جسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔ ایک دن اجنبی شخص
پوچھتا پوچھاتا ہمارے گھر آپہنچا ۔دروازے پر دستک دی۔ والدہ نے پردے کی اوٹ
سے اجنبی سے آنے والے کا مطمع نظر پوچھا تو اس شخص نے پوچھا کیا دلشاد خان
لودھی کا یہی گھر ہے ۔ والدہ نے نہایت ادب سے ہاں میں جواب دیا۔ اجنبی شخص
نے بتایا کہ دلشاد خان لودھی کے ایک بیٹے کا نام محمداکرم بھی ہے ۔ والدہ
نے کہا جی ہاں ہمارا ایک بیٹا بھی اسی نام کا ہے۔ پھر ماں جی نے پوچھا آپ
اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں اور معاملہ کیا ہے ۔ اجنبی شخص نے بتایا
کہ اس کا فورٹریس سٹیڈیم لاہور کینٹ کے قریب وہ سائیکل پر سوار جارہا تھا
کہ ایک کارنے پیچھے سے ٹکر مار دی جس سے وہ شدیدزخمی ہوگیا اور ہسپتال
پہنچنے سے پہلے ہی وہ فوت ہوچکا ۔جیسے ہی یہ الفاظ امی جان کے کانوں میں
پڑے تو ان کی چیخ نے پورے گھر کو اپنی آغوش میں لے لیا ۔ میں بھی پچھلے
کمرے میں بیٹھا سکول کا ہوم ورک کررہا تھا ۔ ماں کی چیخ سن کے میں بھی دوڑا
چلا آیا ۔میں نے ماں جی سے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا تمہارے
بھائی اکرم کو کسی کار والے نے کچل کر مار دیاہے ۔ یہ بتاتے ہوئے وہ پھر
رونے لگی ۔ایک جانب اس منحوس خبر کی تلخی تو دوسری جانب ماں کی چیخ و پکار
نے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم کردی ۔ زندگی میں پہلے کبھی ایسا نہیں
ہوا تھا ۔اس لیے اس میں شک کی کوئی گنجائش بھی نہیں تھی ۔ چنانچہ رونے
والوں میں ٗ میں بھی شامل ہوگیا ۔دل سے بار بار ہوکیں اٹھ رہی تھیں اور جسم
بھائی کی جدائی میں لرز رہا تھا۔ کاش یہ اطلاع غلط ہو ۔ اس وقت والدصاحب
لاہور کینٹ ریلوے اسٹیشن پر ڈیوٹی پرتھے ۔ میں دوڑ ا دوڑا اسٹیشن پہنچا اور
تلاش کرکے والد صاحب کو بھائی کی موت کی خبر سنائی تو پاؤں کے نیچے سے زمین
ان کے بھی کھسک گئی ۔جوان بیٹے کی موت کی خبر سے مضبوط سے مضبوط شخص بھی
ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے ۔ اس کے باوجود کہ میرے والد بہت بہادر اور سخت دل
انسان تھے انہوں نے ماں اور باپ دونوں کی موت پر بھی آنسو نہیں بہائے تھے ۔
وہ حقیقی زندگی میں بھی موت کو سامنے دیکھ کر بھی کبھی نہیں گھبرائے لیکن
بیٹے کی موت کی اطلاع نے انہیں بھی رونے پر مجبور کردیا ۔ ہم دونوں ایک
ساتھ چلتے ہوئے گھر پہنچے ۔گھر میں تو پہلے ہی کہرام مچا ہوا تھا ۔ اردگرد
اورمحلے کے لوگ بھی جمع ہوچکے تھے ۔
پہلے وقتوں میں محلے دار ہر غمی و خوشی میں ہمیشہ پیش پیش ہوا کرتے تھے ۔
گھر کے سامنے سوگوار لوگوں کے بیٹھنے کے لیے دریاں بچھا دی گئیں ۔والد صاحب
محلے داروں کے ہمراہ نعش لینے کے لیے ہسپتال کی جانب چل دیئے ۔ چند محلے
دارقبر کھودنے کے قبرستان کی جانب روانہ ہوگئے ۔ ہم سب آنسو بہا کر اپنے
بھائی کے لیے محبت کااظہار کررہے تھے ۔ میرا دل بھی ڈو ب ڈوب جاتا تھا
کیونکہ جب سے میں نے ماں کی آغوش سے زمین پر قدم رکھے تھے۔ یہی بھائی سائے
کی طرح میرے ساتھ رہا کرتا تھا ۔یہ مجھ سے دو سال بڑا تھا اس اعتبار سے وہ
میرا محافظ بھی تھا۔ میں نے سکول جانا شروع کیا تو وہ مجھ سے پہلے سکول
جاتاتھا ۔ماں جی نے ملیشیے کا لباس پہنا کر گلے میں ریلوے کی وردی کا بنا
ہوا نیلے رنگ کا تھیلا ڈال کر (جس میں چند قاعدے تھے ) بھائی اکرم کے ساتھ
سکول بھیج دیا ۔گھر کی چار دیواری سے نکل کر جب میں بھائی اکرم کے ساتھ
چلتا ہوا سکول کی جانب جاتا تو پہلے ٹانگوں کا اڈا پڑتا تھا ۔اس کے بعد
سکول شروع ہوتا ہے ۔ ماں کی خصوصی ہدایت تھی کہ ٹانگوں سے بچ کے رہنا
کیونکہ کئی بچے ٹانگوں کے نیچے آ کر زخمی ہو چکے تے ۔ریلوے اسٹیشن واں
رادھا رام (جس کا نام اب تبدیل کرکے حبیب آباد رکھ دیا گیا ہے ) پر گاڑیوں
سے جو سواریاں اترتی تھیں وہ ٹرین سے اتر کر سیدھی ٹانگوں کے اڈے پر پہنچتی
پھر وہاں سے جس جس گاؤں میں انہیں جانا ہوتا اس ٹانگے میں سوار ہوکر چلی
جاتیں ۔ فصلوں کے درمیان ایک کچا راستہ مغرب کی جانب اس بڑی نہر کی طرف
جاتا تھا۔ جہاں ایک بزرگ کا مزار بھی تھا ۔یہ نہر دریائے راوی ہیڈبلوکی کے
مقام سے نکل کر ساہیوال کی جانب جاتی تھی ۔یہ نہر اس قدر کشادہ اورگہری تھی
کہ ایک مرتبہ کنارے پر چلنے والا سواریوں سے بھرا ہوا ٹانگہ اس میں گر گیا
جس سے تمام مرد و زن ڈوب کر ہلاک ہوگئے ۔اس خبر نے اردو گرد کے تمام
دیہاتوں میں خوف پھیلادیا ۔ ماں جی بھائی اکرم (جو حد سے زیادہ شرارتی ٗ
ذہین اور مہم جو بھی تھا اوروہ سکول سے اکثر بھاگ کر ارد گرد کے دیہاتوں
میں سیر سپاٹے کے لیے چلا جایاکرتا تھا )کو سختی سے ہدایت کرتی کہ وہ نہ
خود والدین کو بتائے بغیر اردو گرد جایا کرے اور نہ ہی مجھے اپنے ساتھ سکول
سے بھگا یا کرے ۔پھر ان دنوں بچے اغوا کرنے والوں کا بھی بہت چرچا تھا ۔
میرے معصوم ذہن میں کتنی ہی خوفناک کہانی ماں نے باتوں ہی باتوں میں ڈال
رکھی تھیں ۔ کہیں سے خبر آتی کہ ایک بچہ سکول سے پڑھ کے واپس گھر آرہا تھا
کہ ایک پٹھان نے رومال سونگھا کر اسے اغوا کرلیا پھر مدت دراز تک اس کا پتہ
نہ چلا۔اسی طرح بھرے بازار میں ایک نوجوان کے قریب کار آکر رکی ۔کار میں
بیٹھے ہوئے افرادنے اس نوجوان کو ایڈریس پوچھنے کے لیے قریب بلایا پھر
رومال اس کی ناک پر رکھا جس سے وہ بے ہوش ہوگیا وہ لوگ اسے کار میں ڈال کر
چلتے بنے پھر مدت دراز تک کسی کو اس نوجوان کے بارے میں خبر نہیں ہوئی۔ اس
وقت سنا کرتے تھے کہ بنوں اور کوھاٹ کی جانب بیگار کیمپ موجود ہیں جہاں
پاکستان بھر سے اغوا کرکے لائے جانے والے بچے اور بڑے رکھے جاتے ہیں ۔
انہیں معذور کرکے بھیک منگوانے کا کام لیا جاتا ہے ۔اغوا کرنے والوں کا یہ
گروپ اس قدر طاقتور ہے کہ حکومت جانے بوجھتے بھی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی
۔کیونکہ حکومتی ایوانوں میں ان کے سرپرست بیٹھتے ہیں۔ اغوا کرنے والوں کا
خوف مجھے ہمیشہ پریشان کیے رکھتا ۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب گھر سے نکلتا تو
اپنے بھائی کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا سکول پہنچتا ۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ بھائی اکرم کو کتے پالنے کا بے شوق تھا۔ اس نے ایک
کتے کا چھوٹا سا بچہ اپنے ساتھ رکھا ہوتا ۔ بھائی جہاں بھی جاتا کتے کا بچہ
اس کے ساتھ ہی رہتا ۔جب ہم سکول میں پڑھ رہے ہوتے کتے کا بچہ سکول کی کچی
دیوار کے اس پار کھڑا رہتا ۔جب ہم چھٹی کرکے باہر نکلتے تو وہ بھی ہمارے
ساتھ ہولیتا ۔ سکول سے ملحق ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس میں سکول کے اساتذہ
اور اردو گرد کے لوگ نماز پڑھا کرتے ۔ مسجد میں ایک کنواں موجود تھا ۔ نماز
سے کچھ وقت پہلے لوگ اس کنواں سے پانی نکال کر مٹی کی بنی ہودی میں ڈال
دیتے ٗ پھر وہاں سے نمازی وضو کرتے ۔ایک دن چھٹی کے بعد بھائی مجھے لے کر
اس مسجد میں جا پہنچا ۔میں سمجھا کہ نماز ظہر پڑھنے کے لیے وہاں آیا ہے۔
مجھے اس وقت حیرانی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ کتے کو ایک ہی جست میں کنواں
عبور کرنے کی مشق کرانے لگا ۔ ایک دو بار تو کتے نے چھلانگ مار کر کنویں کو
عبور کرلیا لیکن تیسری بار کتا کنویں کو عبو کرنے میں ناکام رہا اور کنویں
میں گر گیا۔جونہی کتا کنویں کے گہرے پانی میں ڈوبکیاں کھانے لگا تو بھائی
اکرم سخت پریشان ہوئے ۔ اس نے مجھے حکم دیاکہ میں چرخی کو مضبوطی سے
پکڑرکھوں وہ ساتھ لگی رسی کو پکڑ کرکنویں میں اترنے لگا ۔ کنواں بیس پچیس
فٹ گہرا تھا جونہی بھائی پانی کی سطح پر پہنچا تو کتا چھلانگ لگا کر اس سے
چمٹ گیا ۔ اب بھائی رسی کو پکڑ کر باہر نکلنے کی جستجو میں تھا ۔دوسری جانب
میری ہمت جواب دیتی جارہی تھی ۔ قریب تھا کہ کنویں کی چرخی میرے ہاتھ سے
چھوٹ جاتی ایک شخص نے بڑھ کر اس چرخی کو تھام لیا اور بھائی کتے سمیت کنویں
سے باہر نکل آیا ۔
سخت سردیوں کا موسم تھا۔ پرانے وقتوں میں کوارٹروں کے پیچھے اگی ہوئی گھاس
پر برف کی تہہ جم جایا کرتی تھی ۔لوگ کہتے تھے کہ آج تو اتنی سردی ہے کہ
کورا بھی جم چکا ہے ۔ سردی سے بچانے کے لیے ماں ہمیں سر پرٹوپہ ٗ تین تین
قمیضیں اور تین تین پاجامے پہنا دیا کرتی تھی ۔بہرکیف سردی کے اس یخ بستہ
موسم میں بھائی اور کتا سردی سے کانپ رہے تھے ۔اسی اثنا میں اور لوگ بھی
نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آ پہنچے ۔ جب انہیں پتہ چلا کہ کتا مسجد کے
کنویں گر گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ اب اس کنویں کا پانی اسی طرح پاک
ہوسکتا ہے کہ ڈیڑھ سو بوکے پانی نکالا جائے ۔ بھائی مجھے یہ کہہ کر خود گھر
کی جانب چل دیا کہ تم یہاں ٹھہرو میں ابھی کپڑے تبدیل کرکے آتا ہوں پھر ہم
دونوں ڈیڑھ سو بوکے پانی کنویں سے نکالتے ہیں۔میں نے اپنی طاقت کے مطابق
آٹھ دس بوکے پانی تو نکال لیا تو میری ہمت جواب دینے لگی۔ ایک شخص کو مجھ
پر ترس آیا تو اس نے مجھے وہاں سے جانے کی یہ کہتے ہوئے اجازت دے دی کہ میں
پانی نکالتا ہوں تم اپنے بھائی کو بلا کر لے آؤ ۔ میں جب گھر پہنچا تو دیکھ
کر حیران رہ گیا کہ توبھائی اکرم دھوپ میں چارپائی پر لیٹے خواب خرگوش کے
مزے لے رہے تھے۔ ماں نے سخت غصے کے عالم میں پوچھا کہ تم کہاں رہ گئے تھے ۔
میں نے بتایا ماں جی بھائی اکرم کا کتا کنویں میں گر گیا تھا یہ کتانکال کر
خود گھر آگئے ہیں نمازیوں نے مجھے پکڑ رکھا تھا کہ کنویں کو تمہارے بھائی
نے پلید کیا ہے ٗ اب تم ڈیڑھ سو بوکے پانی کے نکالو۔بہت مشکل سے ایک خداترس
انسان نے ترس کھاکر مجھے گھر آنے کی اجازت دی ہے ۔ماں جی کو صورت حال کا
پتہ چلا تو انہوں نے اسی وقت جوتی ہاتھ میں پکڑی اور بھائی اکرم کی پٹائی
شروع کردی ۔ماں جی نے حکم دیا کہ اگر تم نے گھر میں رہنا ہے تو کتے سے جان
چھڑوانی پڑے گی وگرنہ تمہیں گھر آنے کی اجازت نہیں ۔ بھائی اکرم اس صور ت
حال پر بہت پریشان ہوئے ۔ وہ نہ ماں باپ کو چھوڑ نے کا تصور کرسکتے تھے اور
نہ ہی اپنے چہیتے کتے کی جدائی برداشت کرنا ان کے لیے ممکن تھا ۔ اس واقعے
کو چند دن ہی گزرے تھے کہ پتہ چلا کہ اکرم بھائی کا کتا کھیت میں پڑا ہوا
کچلا کھا کے مر گیا ہے ۔ یہ خبرہم سب کے لیے بہت اہم تھی کہ چلو کتے سے جان
تو چھوٹی وگرنہ وہ کتا بھائی کے ساتھ ہی چارپائی پر سویا کرتا تھا اس کو
بھگانے کی جتنی بار بھی کوشش کی گئی ٗ ناکام ثابت ہوئی ۔مردہ کتے کی نعش کو
کوڑے کے ڈھیر پر پھنکوا دیاگیا اور بھائی روتا روتا گھر واپس آگیا ۔ جسے
غمزدہ دیکھ کر ماں جی بھی پریشان ہوئی ۔ شام کے گہرے سائے کائنات کو اپنی
آغوش میں لے رہے تھے کہ گھرکے باہر کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی ۔گھر
کے سبھی افراد آواز سن کر باہر نکلے تو کتا بقلم خود سامنے کھڑا تھا بلکہ
بھائی اکرم کے پاؤں کو چاٹ نے لگا۔
سب کتے کو زندہ دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ کھیت میں پڑے
کچلے میں زہر نہیں نشہ آوردوا تھی ۔ جس کا اثر ختم ہونے پر کتا ایک بار پھر
زندہ ہوگیا ۔
ماں جی اور گھر والوں کا درد سر بھی کتے کی شکل میں موجود تھا ۔ یہ بات بھی
قابل ذکر ہے کہ بھائی اکرم پڑھائی سے زیادہ کتے کی دیکھ بھال پر زیادہ توجہ
دیتے تھے ۔ کچھ دنوں بعد وہ کتا حقیقت میں فوت ہوگیا ۔ بھائی نے قبر کھود
کر اسے دفن کردیا اور روزانہ جاکر اس کی قبر پر بیٹھ کے آنسو بہاتے ۔ بھائی
اس حرکت پر والدصاحب نے بہت ڈانٹا بلکہ گھر سے باہر نکال دیا تب کہیں جاکر
کتے کا جنون ان کے سر سے اترا ۔بھائی کے حوالے سے واقعات تو بہت ہیں لیکن
اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف اسی واقعے پر اکتفا کررہا ہوں ۔
اس لمحے جبکہ بھائی کی موت کے صدمے سے پورا خاندان زار و قطار رو رہا تھا
کہ نماز ظہر کی اذان ہونے لگی ۔ یہ اﷲ کا مجھ پر بہت کرم ہے کہ میں بچپن سے
ہی دادا جان کی نصیحت پر پنچ وقتہ نماز کا پابند ہوں۔ میرے دلی جذبات بھی
والدین سے مختلف نہ تھے۔ جونہی اذان کی آواز میرے کانوں میں پڑی تو میں
نڈھال جسم اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے چلتاہوا مسجد کی جانب چل پڑا ۔ وضو
کیا اور نماز کی ادائیگی میں مصروف ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے نماز ظہر
کی بارہ رکعتوں میں جتنے بھی سجدے کیے ہر سجدے میں اس قدر رویا کہ مصلہ تر
ہوگیا۔دل سے بار بار یہ ہوک اٹھ رہی تھی اے اﷲ یہ خبر غلط نکلے اور میرا
بھائی زندہ سلامت واپس آجائے ۔ پھر یہ سوچ غالب آجاتی کہ کبھی مرنے والے
بھی زندہ واپس آتے ہیں ۔ نماز کے دوران میں اس قدر رویا کہ وہ مصلہ بھی
میرے آنسو سے بھیگ گیا ۔ ساتھ نماز پڑھنے والوں تک میری ہچکیوں کی آواز
متواتر پہنچ رہی تھی وہ بھی میری دلی کیفیت سے ی بخوبی آشنا تھے ۔ نماز ختم
ہوئی تو سب نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی ۔ نماز پڑھنے کے بعد
مسجد سے نکل کر میں گھر کی جانب چلا تو میں نے اپنی جاگتی آنکھوں سے بھائی
اکرم کو آتے ہوئے دیکھا ۔ پہلے تو میں اسے اپنا وہم سمجھتا رہا لیکن اس نے
قریب آکر پوچھا کہ تم رو کیوں رہے ہو تب مجھے یقین آیا کہ وہ زندہ سلامت ہے
۔ اس کے مرنے کی خبر غلط تھی ۔ بھائی کے زندہ واپس آنے سے گھر کا سوگوار
ماحول قہقہوں میں تبدیل ہوگیا اور تمام لوگ بھائی اکرم کو گلے لگا کرپیار
کرنے لگے ۔ ماں جو پہلے بیٹے کی موت سے نڈھال تھی اس نے بھی خود کو سمیٹا
اور سجدہ ریز ہو کے اﷲ کا شکرادا کیا ۔اس کے باوجود کہ بھائی اکرم اس واقعے
کے تیس سال بعد 2005ء میں پچاس سال کی عمر میں فوت ہوچکے ہیں اور ماں جی
2007ء میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوچکی ہے لیکن یہ واقعہ اور معجزہ ہمیشہ
مجھے اپنی اہمیت یاد دلاتا ہے ۔میں سمجھتاہوں کہ جب انسان کے دل کو ٹھیس
لگتی ہے تو بے ساختہ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں اس حالت میں کی جانے
والی دعا کبھی اﷲ تعالی کے ہاں رد نہیں ہوتی ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
بچہ اگر روئے نہ تو ماں دودھ نہیں دیتی ۔ اسی طرح رب سے اپنی بات منوانے کے
لیے بھی انسان کو بچے کی طرح رونا اور گڑگڑانا پڑتا ہے ۔تب ایسے معجزے
رونما ہوتے ہیں ۔ |