واحدنظامی حقیقت پسندافسانہ نگار

واحد نظامی کے افسانے پڑھنے کے بعد قاری پر ایک چیزمنکشف ضرورہوجاتی ہے کہ وہ حقیقت کو بیان کرنے میں بے باک ہیں۔ یقینا یہ ایک بڑے افسانہ نگار ہی کا خاصہ ہوسکتا ہے۔
واحدنظامی کے افسانے اور شاعری پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ہمیں بہت جلد تنہا کردیا۔ اُن کی تحریروں کا رنگ پکا اور اُن کی فکری سوچ کا ایک بلند مقام ہمارے سامنے ہے۔واحد صاحب کا پورا نام عبدالواحدخان تھا ، آپ ۲۹جنوری ۱۹۳۰ء میں ہندوستان کے شہر (جھانسی) یوپی میں پیدا ہوئے۔آپ کا پیشہ ملازمت اور طب تھا(ہومیوپیتھک کلینک) چلاتے تھے ۔

مرحوم نے مشرقی پاکستان سے سب سے پہلااردو کا جریدہ ’’بانگِ سحر‘‘ ۱۹۴۸ء میں سیّدپور سے جاری کیا۔اس کے علاوہ متعدد اخبارات ورسائل میں اپنی تخلیقات کے جوہر دکھاتے رہے جن میں ’’گل خنداں‘‘ لاہور، ’’آزادایشیا‘‘ دہلی، ’’شمع‘‘ کراچی، ’’سب رنگ‘‘ کراچی،’’سب رنگ‘‘ ڈھاکہ، ’’ساقی‘‘کراچی، ’’چترالی‘‘ ڈھاکہ، ’’ندیم‘‘ ڈھاکہ، ’’فنکار‘‘ ڈھاکہ، ’’ہم قلم‘‘ کراچی وغیرہ شامل ہیں۔

واحد نظامی نے جن اصناف پر طبع آزمائی کی اُن میں افسانہ نگاری، شاعری، تنقید اور صحافت جیسی اصناف ہیں۔افسانہ نگاری ایک ایسا فن ہے جہاں سچ اور جھوٹ میں باریک لکیر کے برابر فرق ہوتا ہے، یہ کام صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو اپنے دل کی آواز سنتا ہو اور اُس پر عمل کرتا ہو۔ ہیرپھیرسے پرہیزکرتا ہو اور دل کی بات زبان پر لانے میں کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتا ہو۔واحد نظامی کے افسانوں میں ہمیں یہی سچائی نظر آتی ہے کہ وہ ہر بات کو محسوس کرتے ہیں اپنے اردگرد کے ماحول پر اُن کی گہری نظر ہے، وہ دیہاتی زندگی کو بھی ایکسپوزکرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک پڑھے لکھے شہری ماحول کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ مگراُن کے زیادہ تر افسانے دیہات ہی کے ماحول میں پروان چڑھے ہیں۔

یقینا اُن کے افسانے آج سے چالیس پینتالیس سال قبل کا منظرنامہ پیش کرتے ہیں جب مشرقی پاکستان کی کل آبادی کا پانچ فی صدحصہ شہروں میں رہتا تھااور باقی آبادی دیہاتوں میں سکونت پذیر تھی۔ آج کے بنگلہ دیش کو سامنے رکھنے کے بجائے اُس وقت کے مشرقی پاکستان کو مدنظررکھ کر اِن افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ایک مشرقی روایت کے ساتھ ساتھ دیہاتی زندگی کی بھرپور عکاسی ان افسانوں میں نظرآئے گی۔

ویسے بھی قدرت نے اس خطے کو ایسا حسن بخشا ہے کہ یہاں کے دریاؤں کی تیزروانی، ندیوں کا پیچ وخم کھاتا ہواجال، سبزہ کی فراوانی، دھان کے کھیتوں کا لہلہانااوریہاں کی ایک مخصوص قسم کی موسیقی جو اپنی جدا حیثیت میں لوگوں کو محصور کردیتی ہے۔ باہر سے آنے والے لوگ جب یہاں کے کھیت کھلیان، ہریالی اور دریاؤں کی روانی دیکھتے ہیں توعش عش کراُٹھتے ہیں۔یہاں کے دیہاتوں کا تمدن بھی عجب ہے ، لوگوں کے مزاج میں نرمی ہے، ٹہراؤَہے۔ اپنے اندر ایک نئے انقلاب کی آرزورکھتے ہیں اورعملِ مسلسل پر کارفرما ہیں۔ اسی لیے واحدنظامی کے اِن افسانوں میں دیہاتی زندگی بہت سادہ ہے، اس میں پیچیدگی بالکل بھی نہیں۔ تجربات کے پیچ و خم تو ہیں، مگر اُلجھن نہیں۔ وہ فکراور سوچ کو وسیع پیمانے پر دکھانے کا ہنرخوب جانتے ہیں۔ یہاں چندمثالیں پیش ہیں:
واحدصاحب کا افسانہ ’’یہ دنیا ہے جہاں……‘‘ پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اُن کے دل میں جو حساس شاعرموجود ہے وہ اخترکے روپ میں مخاطب ہے۔ دوسرا کردار اُس لڑکی ثریا کا جس سے وہ محبت کرتا ہے سچی محبت،وہ اُسے پانا چاہتا ہے مگر سچائی کی بنیاد پر نیک نیتی کی بنیاد پر، مگرکچھ معاشرتی اور معاشی مجبوریاں اخترکو جکڑے ہوئے ہیں جس کا اظہار وہ ایک خط کے ذریعے ثریا سے کردیتا ہے:
……ثریا میں ایک شاعر ہوں۔ شاعرسچائی کا علمبردار ہوتا ہے اور شاعرکا مرتبہ بہت بلند سمجھا جاتا ہے، میں ایسی انسانیت سوزحرکت نہیں کرسکتا۔ میں تمھیں لے کر فرار نہیں ہوسکتا۔ اس طرح ہم سماج کی نظروں میں حقیر سمجھے جائیں گے۔ حالانکہ میں سماج کی پرواہ نہیں کرتا، میں جانتا ہوں کہ ہمارا سماج کتنا پارسا ہے، لیکن پھر بھی میں اسے برا سمجھتا ہوں۔

اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس افسانے میں کتنی سچائی اور دیانت داری ہے، جو اُن کے قلم سے رواں ہے۔ وہ چاہتے تواس کہانی کو مزید گھما پھرا کر ایک طویل اور چونکا دینے والی کہانی بناسکتے تھے، مگر اُنھوں نے کہانی کے ذریعے ایک ایسا پیغام دیا کہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے اپنے اردگردکے حالات کا سچائی کے ساتھ موازانہ کرکے فیصلہ کرنا چاہیے، جیسا کہ اخترنے اپنے بارے میں کیا۔ یہ صرف ایک چھوٹاسا افسانہ نہیں بلکہ معاشرے کے اُن نوجوانوں کی اصلاح ہے جو آسائش وزیبائش کے گردگھومتے ہیں اور اپنے نفس پر قابونہیں پاتے ہیں اور مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔
’’ایک حقیقت ایک افسانہ‘‘واحدنظامی کے کُل افسانوں کا مجموعہ بھی ہے اورایک افسانہ بھی جومعاشرے کی ایک ایسی سچی تصویر کی عکاسی کررہا ہے جہاں دومختلف طبقات ملتے ہیں مگر پھربھی اپنی خواہشات کے باوجود ایک نہیں ہوسکتے، جہاں امیری اور غریبی کافرق ہوجائے وہاں ایسے مسائل درپیش آتے ہیں جیسا کہ اس افسانے میں بتایا گیا ہے۔واحدنظامی نے اس افسانے کے ذریعے عورت کے حسن وجمال کی مرقع سازی بڑے خوب صورت انداز میں کی ہے ملاحظہ ہو:
واقعی عورت بھی کیا شے ہے، کائنات کا حسن، دنیا کی رنگینی، بہاروں کا رقص اور زندگی کی تگ ودوسب اسی مرقع قدرت کے دم سے ہیں۔ یہ نہ ہوتی تو دنیا نہ ہوتی۔ اسی لیے تو آدم کا دل باغِ جنت میں اس وقت تک نہ لگا جب تک انھیں حوا نہ ملیں۔

اس افسانے کی کہانی دراصل وہ سچائی ہے جو عموماً ہمارے ماحول کا حصہ ہے۔ ملاحظہ ہو:
رضیہ تم مجھے دھوکاتو نہیں دوگی۔

عظمت تمھارا دماغ خراب تو نہیں ہوگیاجو ہروقت ایسی باتیں کیا کرتے ہو؟ میں زہرکھالینا قبول کرلوں گی لیکن تمھارے سوا کسی دوسرے سے شادی نہ کروں گی۔

جہاں رضیہ جیسی لڑکیاں جن سے محبت کرتی ہیں اور تمام زندگی ساتھ نبھانے کی باتیں بھی کرتی ہیں مگر کچھ گھریلومجبوریوں اور بندھنوں کے باعث سراُٹھانے سے قاصررہتی ہیں اور اپنی مرضی کے خلاف شادیاں کرلیتی ہیں، پھر سسرال میں جاکر بھی خوشی نصیب نہ ہوتو زہرکھالیتی ہیں۔ یہ پیغام معاشرے کی پستہ حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جہاں عورتوں کی سوچ پر پابندی ہوتی ہے اور وہ مجبوراً انتہائی قدم اُٹھالیتی ہیں۔
’’زندگی نام ہے……‘‘اس افسانے میں کم آمدنی سے پیدا ہونے والی معاشرے میں خرابیاں،جو انسان کو زندہ درگور کردیتی ہیں۔ تمام ترکوشش اور محنت کے باوجود وہ ٹوٹ کررہ جاتا ہے۔ایسا ہی کچھ اس افسانے میں بھی ہے۔ جہاں ندیم کی قسمت میں اپنی محبت اوراپنے گھروالوں سے بچھڑنالکھا ہوا تھا۔جب انسان زندگی کے موڑ کاٹتے کاٹتے تھک جاتاہے توپھر بے نام زندگی گزار کررخصت ہوجاتا ہے۔ندیم اپنا سب کچھ ہار دیتا ہے۔ گھربھی گیا، گھروالے بھی گئی، محبت بھی گئے ، نوکری بھی گئی، غرض جہاں جہاں وہ کوشش کرتا ہمیشہ ایک نئے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا تواُس نے ان مسائل سے نجات کا حل تلاش کرہی لیا۔ملاحظہ ہو:
ندیم پر قنوطیت چھاچکی تھی۔ وہ زندگی کے ایسے دور سے گزررہا تھا جہاں انسان کا قنوطی ہوجانا عجیب نہیں۔ وہ ہمت ہار چکا تھا۔ اس میں حالات سے ٹکرلینے کی سکت نہ تھی وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ مسلسل آلام نے اسے پژمردہ بنادیا تھا۔ ایک دن اخبار کی سرخی پر ہم لوگوں کی نظریں مرکوزرہ گئیں ’’ایک نوجوان نے بھوک سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ طوفان میل آدھہ گھنٹہ لیٹ ہوگئی۔‘‘ اُف کس قدر سنگدل ہے یہ دنیا؟ نوجوان کی موت کا خیال نہ کرسکی۔ مگر طوفان میل کے آدھ گھنٹہ لیٹ ہونے پر حیران رہ گئی۔ یہ دنیا بھی ایک طوفان میل ہے جس کی زد میں روزانہ سینکڑوں انسان آتے ہیں، لیکن اس کا چلانے والا کبھی گھوم کر بھی نہیں دیکھتا کہ کتنی لاشیں بے جان پڑی ہیں۔

اس افسانے میں پورا فلسفہ موجود ہے کہ انسان کتنا سنگ دل اور کٹھورہے، وہ اپنے مفادات کے تابع ہے۔انسان مرجائے توکچھ نہیں مگرایک ٹرین آدھ گھنٹہ لیٹ ہوجائے تو واویلامچ جاتا ہے۔ شاید انسان اتنا بے ضرر ہے اتنا حقیر ہے ، واحدصاحب کفِ افسوس ملتے ہیں مگر یہ پہیہ یوں ہی چل رہا ہے اور شاید تاقیامت چلتا رہے گا۔

واحدنظامی کے تمام ہی افسانے ایک کیفیت کا نام ہیں جو حقیقی زندگی میں پیش آنے والے نشیب وفرازکی تصویر دکھاتے ہیں۔ واحد نظامی کے افسانے پڑھنے کے بعد قاری پر ایک چیزمنکشف ضرورہوجاتی ہے کہ وہ حقیقت کو بیان کرنے میں بے باک ہیں۔ یقینا یہ ایک بڑے افسانہ نگار ہی کا خاصہ ہوسکتا ہے۔
صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 78989 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.