رفعت خان پشاور
میں نہ تو کوئی باقاعدہ لکھاری ہوں نہ ہی کوئی محقق۔ ایک ادنی سا قاری ہونے
کے ناطے اردو وزبان کے حوالے سے کئی مقالے میری نظر سے گزرے۔ ایسے میں مجھ
سے بھی نہ رہا گیا اور سوچا کہ اپنے خیالا ت قرطاس ابیض پرمنتقل کردوں ۔
بچپن میں کہیں کسی استاد نے پڑھایا تھا کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے
معنی لشکر کے ہیں کیونکہ یہ کئی زبانوں کا مجموعہ ہے۔ قومیت کی ایک پہچان
قومی زبان بھی سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ باہمی رابطے کاذریعہ ہے اور یگانگت
کا مظہر ہے۔ جب ہمارے اساتذہ ہمیں دوقومی نظر یے کی وضاحت کرتے ہیں تو اس
قومی زبان کا ذکر لازمی کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ اردو کے رسم الخط
عربی زبان سے ماخوذ ہیں۔
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ بعض یم اے اردو کی ڈگری رکھنے والوں کو بھی یہ
یادنہیں ہوتا کہ اردو زبان کے حروف تہجی کتنے ہیں۔ اگرچہ میں یہ سوال بھی
اٹھاتا ہوں کہ کچھ حروف تہجی بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ میں نے پشاور
یونیورسٹی شعبہ اردو کے چیئرمین جناب سلمان علی سے ٹیلیفون پر کچھ اسی طرح
ذکر کیا کہ’’ ذ‘‘اور’’ز‘‘ کو ایک کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح ’’س‘‘ اور’’ص‘‘
یا’’ ک‘‘ اور’’ ق‘‘ ایک جبکہ’’ ڑ‘‘ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ جس پر انہوں نے
بتایا کہ اس پر توبڑی تحقیقات ہوچکی ہیں اور اس کی وضاحت ایک ٹیلیفون کال
میں ممکن نہیں۔
ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ اردوایک مشکل زبان ہے۔ میں نے ایک دفعہ محض ایم
اے کی ڈگری لینے کی خاطر ایم اے اردو میں داخلے کا فارم بھیجا ۔اس زمانے
میں ابن انشاء کی ایک کتاب ’’چلنا ہوتو چین کو چلئے‘‘ بھی اس کے نصاب میں
شامل تھی۔ میرے ایک سینئر رفیق کار نے مجھے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اردو
کتنی مشکل ہے۔ انہوں نے یہ بھی نصیحت کی کہ ا گر ایم اے کرنا ہے تو کسی
ایسے مضمون میں کرو جو کچھ معنی بھی رکھتے ہوں۔ ایک اور موقع پر جب میں
اپنی ایک کتاب کے مسودے پر کام کر رہا تھا تو میرے ایک اور سینئر رفیق
کارنے کہا کہ بڑے اچھنبے کی بات ہے کہ ایک غیر اردو دان اردو زبان میں
تحریر کر رہا ہے۔ یعنی اردو میں لکھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں سمجھی
جاتی۔ کچھ لوگ بھی صحیح نہیں لکھتے ۔
اپنے تئیں میں اردو کو اپنے اندازمیں فروغ دینے کی کوشش میں مگن رہتا ہوں۔
میرے جتنے بھی یار دوست ہیں، میں نے انہیں اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ وہ
مجھے صبح بخیر ‘ سہ پہر بخیر‘ شام بخیر اور شب بخیر کے ساتھ موبائل پر
پیغامات بھیجیں۔ آئیے شامل ہو جایئے آپ بھی فروغ ِ اردو کے مشن میں۔ اپنی
زبان کا فروغ اور تشخص کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ |