جرمنی یورپ کا انتہائی اہم ترقی
یافتہ ملک ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔ ہر زبان کے
مسلمانوں نے اپنی اپنی مسجد بنا رکھی ہے۔ جہاں اُن کے ملک سے آئے ہوئے
علماء و امام انہیں ہدایت پر گامزن رکھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ جرمنی
میں نمازوں کے اوقات کا ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر اسلامی کلینڈر
والوں نے جو اوقات لکھے ہیں وہ قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے اور جرمنی
میں رہنے والوں اور مساجد کے ائمہ کرام نے بھی اس طرف خاص توجہ نہیں دی۔
جرمنی کے شہر ساربروکن کی پاکستانی مسجد میں 2010ء میں اٹلی سے ایک سید
صاحب بطور امام مسجد تشریف لائے انہوں نے اٹلی میں پاکستانی کمیونٹی کے
ساتھ مل کر ایک مسجد بنائی اور تقریباً نو سال فی سبیل اللہ امامت و خطابت
کے فرائض سرانجام دیئے۔
سید صاحب نے جرمنی آنے کے بعد سب سے پہلا کام نمازوں کے اوقات کا صحیح تعین
کیا ان سے ساربروکن کی مسجد میں جو پاکستانی امام تھے وہ دس سال بطور امام
رہے مگر انہوں نے کئی سال قبل پاکستان اور مصر میں دینی تعلیم حاصل کی مگر
رمضان المبارک میں وہ سورج طلوع سے تقریباً اڑھائی گھنٹے قبل روزہ بند
کرواتے رہے جو کہ قرآن کریم کے احکام کے بالکل خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
سورۃ البقرہ آیت نمبر187 میں ارشاد فرمایا:
”اور کھاؤ اور پیؤ یہاں تک کہ تمہارے لیے ظاہر ہو جائے سفید کا ڈورا سیاہی
کے ڈورے۔“
اس حکم کے مطابق سورج نکلنے سے حد نوے منٹ قبل سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے
مگر بھیرہ کے پیروں نے مدرسہ کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے اس مولوی صاحب
کو جرمنی بھیجا اس مولوی صاحب نے اپنے پیر کی خدمت تو صحیح کی مگر دین کی
خدمت نہ کی اور نماز کے مقررہ وقت سے قبل نمازِ فجر پڑھاتے رہے جو کہ کبیرہ
گناہوں میں سے ایک ہے پیر صاحب خوش ہیں حرام و حلال چندہ آ رہا ہے۔
سید صاحب نے نمازوں اور رمضان کے اوقات مکہ پاک اور مدینہ پاک کے اوقات کے
مطابق کیے اور ان کے ترتیب دیئے ٹائم ٹیبل کو یورپ کے دوسرے ممالک فرانس،
ہالینڈ اور فن لینڈ میں بہت پسند کیا گیا اور وہاں رہنے والی پاکستانی اور
دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے راہنمائی حاصل کی حتیٰ کہ جرمنی میں رہنے والے
عربی و ترکش مسلمانوں نے بھی سید صاحب کے کلینڈر کو بہت پسند کیا اور دوسرے
غیر ترتیب شدہ کلینڈرز سے بے زاری کا اظہار کیا۔
سید صاحب کی محنت کو ضائع کرنے کے لیے پہلے امام نے بہت بھاگ دوڑ کی اور
ساربروکن میں اپنے گروپ میں سے بجو برادرز کو خوب استعمال کیا تاکہ کسی نہ
کسی طرح سید صاحب کو وہاں سے نکالا جائے بجو برادرز کی ایک پنچائیت
ساربروکن اور جرمنی میں بڑی مشہور ہے جس میں چھوٹے بھائی نے بھری پنچائیت
میں اقرار کیا کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی جرمن بیوی کے ساتھ ہم بستری کرتا
رہا ہے آج یہ عزت داروں کو بے عزت کر رہے ہیں اور سابقہ امام مسجد کی تربیت
ایسی کہ ان لوگوں کی ساری اولاد ہی گمراہی اور بے حیائی کے راستے پر چل رہی
ہے۔ سابقہ امام آج کل فرینکفرٹ میں ہیں اور ان سے بہت سی داستانیں وابستہ
ہو رہی ہیں یہ چشتی مولوی ایک مرتد عمران قادیانی کے ساتھ رنڈی خانے بھی
جاتا رہا ہے اور امامت بھی کرواتا رہا ہے۔ اس مولوی نے مسلمانوں کو تین
گروپوں میں تقسیم کر کے اپنا ویزا پکا کیا جن گھروں میں جاتا رہا ان کی
اولاد گندی نکلی وہ لوگ سکھوں کے تلوے چاٹتے رہے۔ جس پاکستانی نے سید صاحب
کو جرمنی میں بھجوانے کی کوشش کی وہ اٹلی میں سید صاحب کی مسجد کا مقتدی
تھا اس کا ایک بیٹا جرمنی میں کسی ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ جب سید صاحب
جرمنی پہنچے تو وہ لڑکا انہیں ملنے آیا اس وقت اس لڑکے کے منہ سے پیشاب کی
بدبو آ رہی تھی اس نے اپنی زبان میں کوکا لگوایا ہوا تھا اور ایک اٹالین
لڑکی کے ساتھ بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ رہتا تھا۔ سید صاحب نے اس کو
بے حیائی سے بچانے کی بڑی کوشش کی اس کو توبہ کروائی اور ایک پاکستانی جس
کی جرمن بیوی سے جوان بیٹی تھی سیدصاحب نے بھاگ دوڑ کر کے اس پاکستانی کی
بیٹی کی شادی اس نوجوان سے کروا دی۔ اس نوجوان کی ساری فیملی اس نوجوان کی
شادی کے بعد جرمنی سیٹل ہو گئی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ساری فیملی سید
صاحب (امام صاحب) کا شکریہ ادا کرتی مگر اس نوجوان کے والد نے سید صاحب پر
تہمت لگا دی کہ یہ بیک دروازے سے کسی لڑکی کو لے آتے ہوں گے اس پر جب سید
صاحب نے جمعۃ المبارک کی نماز میں نمازیوں کے سامنے ذکر کیا تو وہ پاکستانی
سید صاحب کو مسجد سے نکلوانے پر لگ گئے لوگوں نے بتلایا کہ یہ پوری فیملی
بے حیائی کے کاموں میں مشہور ہے اور جرمنی میں بے حیائی کر کے اور مذہب
تبدیل کر کے انہوں نے پاسپورٹ حاصل کیے ہیں۔ پوری جرمنی میں اس سبزی فروش
فیملی کی بے حیائی اور بے غیرتی کی داستانیں مشہور ہیں۔ جو اپنے وطن میں
کمی اور نیچ تھے وہ یورپ میں بھی نیچ کے نیچ رہے۔
آج سید صاحب اس بے حیا اور بے غیرت فیملی کے غلط پروپیگنڈے اور بدسلوکی کی
وجہ سے واپس اپنے وطن جا چکے ہیں مگر یورپ کے مسلمانوں کو رمضان اور نمازوں
کے صحیح اوقات کا تعین کر کے ایک خوبصورت تحفہ دے گئے ہیں۔ جن سے تمام
مسلمان فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
سید صاحب کی واپسی کی وجوہات:
ساربروکن میں پاکستانیوں کی اکثریت مرتد اور بے حیائی میں ملوب رہی قادیانی
اور زانی بن کر شہریت لی مسجد کے صدر نے ایک پاکستانی کی میت پاکستان
بھجوانے کے لیے چندہ اکٹھا کیا پھر اس میں سے 1500 یورو خرد برد کر کے اپنی
دوکان چلاتے رہے۔ سید صاحب اپنی بیوی کی وفات پر وطن گئے واپسی پر تین
مہینے کا وظیفہ نہ دیا خود ہڑپ کر گیا۔
ایک پاکستانی نے اپنی قریبی رشتہ دار خاتون کو رسپانسر پر بلوا کر ایک جرمن
عیسائی کافر کے ساتھ نکاح کروایا تاکہ اس خاتون کو جرمن پاسپورٹ مل جائے یہ
شخص مولوی چشتی کا پیر بھائی ہے پیر کو علم ہی نہیں کہ مرید قرآن کے حکم کی
خلاف ورزی کر رہا ہے۔ دیکھ کر کہتے ہیں چار حلالیوں میں ایک حرامی بھی جا
رہا ہے۔ آج یہ عزت دار بنے ہوئے ہیں اور جو عزت والے ہیں ان کو ذلیل کر رہے
ہیں۔
جس پاکستانی مسلمان نے اپنی قریبی رشتہ دار خاتون کو اسپانسر پر وطن سے
بلوا کر عیسائی جرمن کافر کے ساتھ نکاح کروایا وہی سابقہ امام کے پیر بھائی
ہیں اور سرعام کہتے ہیں کہ ہمارے پیر بڑی کرنی والے ہیں مرید اپنی رشتہ دار
خاتون کی شادی جرمن کافر کے ساتھ کر کے قرآن کریم کی آیت کا منکر ہو رہا ہے
اور پیر صاحب مرید کی کمائی پر موج اُڑا رہے ہیں کیا ایسے پیر کی بیعت جائز
ہے جس کا مرید آیت قرآنیہ کا مذاق اُڑا رہا ہے۔ پیر صاحب کو تو ہر مہینے
ہزاروں یورو چندہ مل رہا ہے حرام ہے یا حلال اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہی
وجہ ہے کہ جماعت حق اہل سنت و جماعت کمزور ہو رہی ہے اور مرتدین و منافقین
بڑھتے جا رہے ہیں اس کے ذمہ دار ایسے پیر ہیں جن کے مرید قرآن کریم کے
احکامات کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔
ایم اے علیم
فرینکفرٹ جرمنی
|