سیرت فاروق اعظمؓ ۔ چند واقعات و کرامات کے آئینے میں

 ہرمزان ، نہاوند کا ایرانی گورنر تھا اور مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا،اس کی وجہ سے مسلمانوں اور ایرانیوں میں کئی لڑائیاں ہوئیں،آخر ہرمزان گرفتار ہوا،اسے یقین تھا کہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا ،لیکن امیر المومنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسے اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ آئندہ جزیہ دے گا ۔وہ آزاد ہو کر وہ اپنے دارلحکومت پہنچا ، بہت بڑی فوج اکٹھی کی اور مسلمانوں کے مقابلے پر اتر آیا،لیکن اس بار بھی اسے شکست ہوئی اور ہرمزان دوبارہ سے گرفتار ہو کر خلیفہ کے سامنے پیش کیا گیا ۔ ہرمزان کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ خود کو صرف کچھ لمحوں کا مہمان سمجھتا ہے۔اس کے اورخلیفہ ثانی حضرت سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے درمیان ہونے والی بات چیت امیرالمؤمنین کے ایفائے عہدکی ایک درخشندہ مثال ہے،جسے تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کرلیاہے،ملاحظہ فرمائیے!
خلیفہ : تم نے ہمارے ساتھ کئی بار عہد شکنی کی ہے،تم جانتے ہو کہ اس جرم کی سزا موت ہے ؟
ہرمزان : ہاں میں جانتا ہوں اور مرنے کیلیے تیار ہوں،لیکن میری ایک آخری خواہش ہے۔ میں شدید پیاسا ہوں اور پانی پینا چاہتا ہوں ۔ خلیفہ کے حکم پر اسے پانی کا پیالہ پیش کیا گیا ۔
ہرمزان : مجھے خوف ہے کہ پانی پینے سے پہلے ہی مجھے قتل نہ کر دیا جائے۔
خلیفہ : اطمینان رکھو ، جب تک تم پانی نہ پی لو کوئی شخص تمھارے سر کو نہ چھوئے گا ۔
ہرمزان : آپ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ جب تک میں پانی نہ پیوں گا ، مجھے قتل نہ کیا جائے گا،لہٰذامیں یہ پانی کبھی نہ پیوں گا (یہ کہہ کر اس نے پیالہ توڑ دیااورفاتحانہ اندازمیں کہنے لگا)اب آپ مجھے کبھی قتل نہیں کر سکتے ۔
خلیفہ : (مسکرا کر )تم نے عجیب چال چلی ہے، لیکن عمر کو اپنے لفظوں کا پاس ہے،جا ؤتم آزاد ہو ۔ ہرمزان شکرگزاری اور حیرانی کے تاثرات کے ساتھ چلا جاتا ہے ۔کچھ عرصہ بعد ہرمزان اپنے کچھ ساتھیوں سمیت خلیفہ کے سامنے حاضر ہوتاہے۔
خلیفہ : ہرمزان ! کیسے آئے ؟
ہرمزان : امیر المؤمنین ! ہم سب ایک نئی زندگی کی تلاش میں ہیں،ہمیں اسلام کا راستہ بتا دیجئے ۔یہ کہتے ہی اس نے اپناہاتھ خلیفہ ثانی حضرت سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے دست مبارک میں دے دیااورآپ ؓ کے ایفائے عہدکی بدولت اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ اسلام کے دامن رحمت میں داخل ہوگیا۔
بے مثال عدل
آپ کے عدل کی مثال دنیا کے کسی دوسرے حکمراں میں نہیں ملتی ، آپ کے عدل کی یہ حالت تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دوردراز علاقہ کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اورچیخ کربولا: لوگو!حضرت عمرفاروق کا انتقال ہوگیا ہے ۔لوگوں نے کہا: تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں رہتے ہو،تمہیں کس نے خبردی ؟ چرواہا بولا: جب تک عمر فاروق رضی اﷲ عنہ زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف چرتی پھرتی تھیں ،کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتا تھا ،لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھاکر لے گیا ہے ۔ میں نے بھیڑئیے کی اس جراء ت سے جان لیا کہ آج عمررضی اﷲ عنہ دنیا میں نہیں ہیں ۔
مدینہ کے بازارمیں گشت کے دوران ایک موٹے تازے اونٹ پر نظر پڑی ، پوچھا: یہ کس کا اونٹ ہے ؟ بتایا کہ یہ آپ کے صاحبزادے عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کا ہے ۔ آپ نے گرجدار آواز میں کہا کہ عبداﷲ کو فورا میرے پاس بلاؤ، جب سیدناعبداﷲ رضی اﷲ عنہ آئے توپوچھا: عبداﷲ! یہ اونٹ تمہارے ہاتھ کیسے آیا؟ عرض کیا : اباجان !یہ اونٹ بڑا کمزورتھا اورمیں نے اس کو سستے داموں خرید کرچراگاہ میں بھیج دیا تاکہ یہ موٹا تازہ ہوجائے اور میں اس کو بیچ کر نفع حاصل کروں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: تمھاراخیال ہوگا کہ لوگ اس کو چراگاہ میں دیکھ کر کہیں گے : یہ امیر المؤمنین کے بیٹے کا اونٹ ہے، اسے خوب چرنے دو، اس کو پانی پلاؤ ، اس کی خدمت کرو۔ سنو! اس کو بیچ کر اصل رقم لے لو اور منافع بیت المال میں جمع کرادو۔ سیدنا عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے سرتسلیم خم کردیا ۔
امیرالمو منین سیدنا عمر فاروق رض اﷲ عنہ کے دربار میں ایک نوجوان روتے ہوئے داخل ہوا ۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی :اس نے روتے روتے عرض کیا کہ میں مصر سے آیا ہوں، وہاں کے گورنر کے بیٹے سے دوڑ کے مقابلے میں جیت گیا تو محمد بن عمروبن عاص رضی اﷲ عنہ نے میری کمر پر کوڑے برسائے، جس سے میری کمر چھلنی ہوگئی ۔ وہ کوڑے مارتا رہا اور کہتا رہا کہ تمہاری یہ جراء ت کہ سرداروں کی اولاد سے آگے بڑھو۔ آپ نے یہ داستان سننے کے بعد مصر کے گورنرعمروبن عاص رضی اﷲ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلابھیجا، جب وہ آگئے توکہا: یہ ہیں سردار کے بیٹے ، پھرمصری کو کوڑا دیا اور کہا کہ اس کی پیٹھ پرزورسے کوڑے ماروتاکہ اس کو پتا چلے کہ سرداروں کے بیٹوں کی بے اعتدالیوں پر ان کا کیا حشر ہوتا ہے ۔ اس نوجوان نے جی بھر کر بدلہ لیا ۔ یہ ہے وہ بے لاگ عدل جس میں قوموں کی عزت اورترقی کا راز پنہاں ہے ۔
حب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں داخل ہوتے تو دیکھا کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کے گھر کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف لگا ہوا ہے،جس کی وجہ سے بارش وغیرہ کا پانی مسجد نبوی کے اندر گرتا تھا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے سوچا کہ مسجد تو اﷲ تعالیٰ کا گھر ہے اور کسی شخص کے ذاتی گھر کا پرنالہ مسجد کے اندر آرہا ہو تو یہ اﷲ کے حکم کے خلاف ہے چنانچہ آپ نے اس پرنالے کو توڑنے کا حکم دیا او وہ توڑ دیا گیا۔حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کو پتا چلا کہ میرے گھر کا پرنالہ توڑ دیا گیا ہے تو حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے پاس آ ئے اور ان سے فرمایا :
یہ پرنالہ حضوراقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں لگا یاتھا اور آپ کی اجازت سے میں نے لگایا تھا۔
حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : کیا حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی؟
انھوں نے فرمایا : ہاں! اجازت دی تھی۔ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے فرمایا :
میرے ساتھ آؤ۔ چنانچہ اس پرنالے کی جگہ کے پاس گئے اور وہاں جاکر خود رکوع کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے فرمایا : اب میری کمر پہ کھڑے ہوکر یہ پرنالہ دوبارہ لگاؤ۔ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : میں دوسروں سے لگوالوں گا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : عمر(رضی اﷲ عنہ) کی یہ مجال کہ وہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لگائے ہوئے پرنالے کو توڑ دے، مجھ سے یہ اتنا بڑا جرم سرزد ہوا، اس کی کم از کم سزا یہ ہے کہ میں رکوع میں کھڑا ہوتا ہوں اور تم میری کمر پہ کھڑے ہوکر یہ پرنالہ لگاؤ۔ چنانچہ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے ان کی کمر پر کھڑے ہوکر وہ پرنالہ اس کی جگہ پر واپس لگادیا۔
قیامت میں جواب دہی کاخوف
ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ علاقہ شام سے واپس آئے تو آپ ؓ تنہا ہوکر لوگوں سے حالات دریافت کرنے لگے۔ آپؓ ایک بڑھیا کے پاس سے گزرے اور اُس سے اُس کا حال پوچھا۔
بڑھیا نے کہا :عمرؓ کا کیا حال ہے؟
حضرت عمرؓ : اوہ ابھی شام سے واپس آئے ہیں۔
بڑھیا! اﷲ تعالیٰ اُنہیں میری طرف سے جزائے خیر دے۔
حضرت عمرؓ :کیوں؟ آخر اس کا سبب؟
بڑھیا: جب سے وہ خلیفہ ہوئے ہیں، مجھے آج تک بیت المال سے ایک پیسا نہیں ملا۔
حضرت عمرؓ : عمر ؓ کو تیرا حال معلوم نہیں۔
بڑھیا: سبحان اﷲ! یہ آپ نے کیا کہا؟ جو شخص خلیفہ ہو اور پھر اسے یہ معلوم نہ ہو کہ مشرق ومغرب کے درمیان کیا ہورہا ہے؟میری سمجھ میں نہیں آسکتا۔
اس بڑھیاکے یہ الفاظ سُن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے:
اے عمرؓ !تجھ پر افسوس ہے، تیری رعایا تجھ سے کیسے جھگڑتی ہے ۔اس کے بعد آپؓ نے بڑھیا سے کہا:
’’اے بڑھیا! تو اپنی داد خواہی کتنے میں فروخت کر کے اپنے دعویٰ سے دستبردار ہوسکتی ہے ،بتا،میں عمرؓ کو اس پر راضی کر لوں گا۔
بڑھیا: اﷲ تعالیٰ تم پر رحم کر ے، میرے ساتھ تم تمسخرنہ کرو۔آخر آپؓ نے 20درہم میں اُس کی داد خواہی خرید لی۔ اس بڑھیاسے رخصت ہونے ہی کوتھے کہ حضرت علیؓ اورعبد اﷲ بن مسعودؓ ’’السلام علیک یا امیر المؤمنین ‘‘کہتے ہوئے آموجود ہوئے۔بڑھیا امیر المؤمنین کا لفظ سنتے ہی سخت پریشان ہوئی ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے بڑھیا!افسوس نہ کر، تو نے کوئی الزام کی بات نہیں کہی۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ایک کاغذکے ٹکڑے پر یہ عبارت لکھی۔’’بسم اﷲ الرحمن الرحیمیہ تحریر اس امر کے متعلق کہ عمرؓ نے فلاں بڑھیا سے اپنی ابتدائے خلافت سے اب تک اس کی داد خواہی20 درہم میں خرید لی۔ اب اگر وہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے دعویٰ کرے تو میں اس سے بری ہوں، علیؓاور عبد اﷲ بن مسعود ؓ اس پر گواہ ہیں۔‘‘
صحرامیں بدوکی دادرسی
حضرت عمرفاروقؓ کا دستور تھا کہ جب کبھی کوئی قافلہ باہر سے آکر نواح مدینہ میں اترتا تو آپ ؓ تمام رات چوکی داری کیا کرتے۔ ایک رات آپؓ گشت کرتے ہوئے ایک بدو کے خیمے کے پاس سے گزرے۔ بدوخیمے کے سامنے سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا۔ حضرت عمرؓ اس کے پاس جا پہنچے اور اُس سے سفر وغیرہ کے حالات پوچھنے لگے۔ اتنے میں خیمے کے اندر سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آئی۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا:: یہ کس کی آواز ہے؟
بدو نے کہا کہ میری عورت کو در دِزہ ہورہاہے۔ حضرت عمرؓ یہ سنتے ہی شہر کی طرف لوٹے اور گھر آئے ۔ آپؓ کی زوجہ حضرت ام کلثوم،ؓ جو نیکی وحلم اور محبت واطاعت کی مجسم تصویر تھیں، آپ فی الفور انھیں ہمراہ لے کر اُس بدو کے خیمے کے پاس آئے اور بدو سے کہا : آپ میری بیوی کو خیمہ کے اندر آنے کی اجازت دیں تاکہ وہ اندر جاکر آپ کی بیوی کو تسلی وتشفی دیں اور ممکن امداد کرسکیں۔ چنانچہ بدو نے اجازت دے دی۔ حضرت ام کلثوم ؓ اندر تشریف لے گئیں ۔ پہلے چراغ روشن کیااور پھر تیماداری میں مصروف ہوگئیں۔بدو کو اس وقت تک معلوم نہ تھا کہ آپؓ امیر المؤمنین ہیں۔ جس وقت امیر المؤمنین ؓکی بیوی ام کلثومؓ خیمہ کے اندر تیماداری میں مصروف ہوگئیں، بدو حضرت عمرؓ کے پاس آکر بیٹھ گیا اور کہا بدو:سنا ہے حضرت عمرؓ بڑے سخت گیر ہیں ،کیا تم انہیں جانتے ہو؟
حضرت عمرؓ :واقعی وہ سخت گیر ہیں۔
بدو :میں حیران ہوں کہ مدینہ کے لوگوں نے کیوں اُسے اپنا امیر بنا لیا؟
حضرت عمرؓـ: مسلمانوں کی مرضی ،شاید اُن کی نظر میں عمرؓ اچھا آدمی ہوگا اور کثرت رائے نے انہیں امیر منتخب کر لیا۔
بدو:وہ بڑے پُر لطف کھانے کھاتا ہوگا۔حضرت عمرؓ اور بدو کے درمیان اسی قسم کی گفتگو ہورہی تھی کہ حضرت ام کلثومؓکی آواز آئی:
’’امیر المؤمنین !ً اپنے دوست کو خوش خبری دے دیجیے، اﷲ تعالیٰ نے اُنھیں فرزند عطا کیا ہے۔‘‘
بدو امیر المؤمنین کا نام سنتے ہی گھبرا کر آپ کے برابرسے اُٹھ کر آپ کے سامنے آبیٹھا اور اپنی گستاخی کی معذرت کرنے لگا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے۔ کل صبح تم میرے پاس آنا، میں بیت المال سے تمہارے بچے کا وظیفہ مقرر کر دوں گا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
فاتح بیت المقدس کی خاکساری
جب صحابہ ؓ کی افواج دورِفاروقیؓ میں بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے گئی تو عیسائیوں نے کہا کہ مسلمانو! ہم تم سے لڑنا نہیں چاہتے،کیوں کہ ہماری تورات میں لکھا ہے کہ بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے اگر مسلمانوں کی افواج آئیں تو تم ان سے لڑائی مت کرنا،اسی طرح یہودیوں نے کہا :ہماری کتاب انجیل میں ہے کہ چابیاں مسلمانوں کے خلیفہ کے سپرد کر دینا۔فوجیں وہیں بیٹھ گئیں اور ایک قاصد مدینہ منورہ بھیجا گیا کہ وہ لوگ چابیاں خلیفۂ وقت کو دینا چاہتے ہیں ۔خلیفہ وقت سیدنا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنے غلام اسلم کو بلاکرحکم دیاکہ سواری تیا کرو غیر ملکی دورے پر جانا ہے۔اس نے سواری تیا رکی۔فاروقِ اعظمؓ سواری پر سوار ہو گئے ،سادگی اور عدل کی انتہا دیکھیے کہ22 مربع میل پر حکومت کرنے والاخلیفہ وقت اور مسلمانوں کا حاکم جب چلنے لگا تو جسم پروہ کپڑے تھے جن پر سترہ پیوند تھے۔
جانے لگے تو تمام صحابہؓ مل کر اُم المومنین سیدنا عائشہ ؓ کے پاس گئے اور کہا کہ اے امی عائشہ!ؓ دیکھئے فاروقِ اعظمؓ غیر مسلموں سے مذاکرات کرنے جا رہے ہیں، یہ ٹاکیوں والے کپڑے دیکھ کر غیر مسلم کیا کہیں گے۔
فاروقِ اعظمؓ نے سیدہ عائشہ ؓ سے عرض کیا:’’ اے اُم المومنینؓ میں آپ کی بات ٹال نہیں سکتا ،لیکن مجھے یہ بتائیے کیاحضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر ٹاکیوں والا لباس نہیں ہوتا تھا ــ؟کیا پیغمبرؐ کاچولہا کئی کئی ماہ نہیں بجھا رہتا تھا ؟‘‘۔
چنانچہ اسی حالت میں فاروقِ اعظم ؓ اپنے غلام کو لے کر چل پڑے۔ایک منزل پر پہنچ کر فاروقِ اعظم ؓ نے اپنے غلام کو فرمایا :سواری کو بٹھاؤ۔سواری بیٹھ گئی تو فاروقِ اعظم ؓ نے غلام کے ہاتھوں سے مہار پکڑ کر کہا کہ اب تم سواری پر سوار ہو جاؤ۔ غلام نے کہا ’’امیرالمومنینؓ !میں ایک نوکر ہوں، غلام ہوں،خادم ہوں ‘‘ توفاروقِ اعظمؓ نے فرمایا بحیثیت انسان تُو اور میں برابر ہیں ۔ پھرباریاں طے کرلیں اور باری باری سواری پر سوار ہونے لگے۔ اتفاق سے جب بیت المقدس کے قریب پہنچے تو مہار فاروقِ اعظمؓ کے ہاتھ میں تھی ۔غلام نے کہا: یا امیرالمومنین ؓ !سامنے یہودیوں اور عیسائیوں کی جماعت کھڑی ہے،وہ لو گ کیا کہیں گے کہ مسلمانوں کا خلیفہؓ پیدل آرہا ہے۔تو اس پر فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا :میں اس ناانصافی کا جواب میں کیا دوں گا ، اگر آج تیرا حق میں نے استعمال کر لیا۔فاروقِ اعظمؓ نے ایک ہاتھ میں مہار پکڑی اور دوسرے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا جوتا جو دورانِ سفر ٹوٹ گیا تھا ۔ اور جب فاروقِ اعظمؓ بیت المقدس پہنچے تو وہ کتابیں کھول کر بیٹھے تھے ۔ایک نے کہا جو سواری پر ہے وہ مسلمانوں کا دوسرا خلیفہ ؓہے۔دوسرے نے کہا نہیں،بلکہ میری کتاب کہتی ہے کہ خلیفہؓ پیدل ہو گا سواری پر غلام ہو گا۔پھر آپ کو چابیاں دے دی گئیں۔
یہ میری جدی پشتی جاگیرنہیں مسلمانوں کی ملک ہے
جب فاروقِ اعظمؓ چابیاں لیے باہر تشریف لائے تو ایک بوڑھا آدمی آیا اور ایک کاغذ فاروقِ اعظمؓ کے ہاتھ میں دیا ۔عمر فاروقؓ نے وہ کاغذ پڑھا اور سر ہلا دیا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں۔واپسی پر فاروقِ اعظمؓ سے صحابہ ؓ نے سوال کیا : وہ بوڑھا کون تھا اور وہ خط کیا تھا؟ تو فاروقِ اعظمؓ نے جواب دیا : آج سے چالیس سال قبل میرا والد مجھے یہاں بکریاں چَرانے کے لیے لایاتھا،میں دن کو بکریاں چَراتا اور رات کو یہیں سو جاتا ۔ ایک روز بیت المقدس کی باہر والی دیوار کے ساتھ سو رہا تھا ،صبح جب دھوپ نکلی اور میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ ایک آدمی میرے چہرے کو بڑے غور سے دیکھ رہا ہے۔میں بیدارہواتومجھ سے مخاطب ہوکراس نے سوال کیا:
تم کون ہو اور کدھر سے آئے ہو ؟میں نے جواب دیا :عرب سے آیا ہوں ،یہاں بکریاں چراتا ہوں ۔اس نے کہا: تیرا نام کیا ہے؟ میں نے کہا: عمر۔یہ سن کراس نے کہا تمہارے باپ کا نام خطاب تو نہیں ۔میں نے کہا ہاں ۔اس نے کہا تم اپنے دائیں پاؤں کی پنڈلی سے کپڑا ٹھاؤ ۔جب میں نے کپڑا اٹھایا تو اس نے کہا :میں گواہی دیتا ہوں اے نوجوان! جو آخری رسول آئے گا تو اس کا دوسرا خلیفہ ہو گا ،میری کتاب تورات میں لکھا ہے :محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کا دوسرا خلیفہ عمر ؓ ہو گااور اس کی پنڈلی پر نشان ہو گا۔پھر اس نے کہا: جب یہ علاقہ تیرے قبضہ میں آئے تو تُو مجھے دے گا؟میں نے جان چھڑانے کے لیے کہہ دیا: ہاں دے دوں گا۔ فاروقِ اعظمؓ فرمانے لگے: وہ جو آدمی میرے پاس خط لایا تھا وہی آدمی تھااور اس نے بیت المقدس کا قبضہ مانگاتھا۔ میں نے اس سے معذرت کی اور کہا :یہ مسلمانوں کا علاقہ ہے، میری جدی پشتی کوئی جاگیر نہیں ۔
فاروق اعظم ؓ کی چندکرامات
دریائے نیل کے نام خط: فتح مصر کے بعد جب فاتح مصر حضرت عمروؓبن عاص مصرمیں داخل ہوئے تو لوگوں نے بتایا کہ سال میں ایک مرتبہ مخصوص مہینے میں گیارھویں رات کو ایک خوب صورت باکرہ لڑکی کو بناؤسنگھارکرکے دریاکے حوالے کرنا پڑتاہے ورنہ دریا کا پانی سوکھ جاتاہے اور یہ رسم عرصہ دراز سے جاری ہے۔ حضرت عمروؓبن العاص نے اس سلسلے میں حضرت عمربن خطاب ؓ کے پاس خط لکھا، حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ اس قسم کی رسم کی گنجائش شریعت میں نہیں ہے۔ حضوراکرمصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاہے:ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ‘‘( اسلام زمانہ جاہلیت کی بری رسم کوختم کردیتاہے )میں دریاکے نام ایک خط بھیج رہاہوں، یہ خط اس مخصوص رات میں حوالۂ دریا کردیا جائے، چنانچہ یہ خط حوالۂ دریا کردیا گیا اور پانی معمول سے بھی زیادہ نکل آیا۔ اس وقت سے آج تک یہ دریا خشک نہیں ہوا ۔خط کے الفاظ یہ تھے: من عبداﷲ عمربن الخطاب امیر المومنین الی نیل مصر فان کنت تجری من قبلک فلا تجر،وان کان اﷲ یجریک فاسال الواحد القھار ان یجریک (ترجمہ:اﷲ کے بندے امیرالمؤمنین عمربن خطاب کی طرف سے مصرکے دریائے نیل کی طرف،اگرتواپنی مرضی سے چلتاہے تومت چل،اوراگرتجھے اﷲ تعالیٰ چلاتاہے تومیں اﷲ تعالیٰ سے دعاکرتاہوں کہ جویکتااورقہروغضب کامالک ہے ،کہ وہ تجھے جاری کردے)
بادل اوردریاکوبھی عمرؓ کاپاس ولحاظ:حضرت خوات بن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے حکم دیاکہ نماز استسقاء ادا کی جائے نماز کے بعد سب لوگوں نے دعا کی: یااﷲ ہم آپ سے مغفرت چاہتے ہیں اور تیرے بندے حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے وسیلے سے بارش چاہتے ہیں توتھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی، چند دیہاتی دوڑتے ہوئے آئے انھوں نے عرض کی: امیرالمؤمنین! ہم جنگل میں تھے ایک بادل چھا گیااور اس میں سے ایک آواز سنائی دی، ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی کہہ رہا ہے: آگیا ہے تیرے پاس فریاد پوری کرنے والا اے ابوحفص، آگیا ہے تیرے پاس فریاد پورے کرنے والا اے ابوحفص! حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے ایک لشکر مدائن کسریٰ کی طرف بھیجا، یہ لوگ جب دریائے دجلہ کی جانب روانہ ہوئے تو دریا میں کشتی نہ تھی۔ امیرلشکر حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ نے دجلہ کو مخاطب ہوکر فرمایا، اے دجلہ! تو محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی حرمت او رامیرالمؤمنین خلیفۃ اﷲحضرت عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ کے عدل کے طفیل ہمارے عبور کے درمیان رکاوٹ نہ بن،تو تمام لشکر اپنے اونٹوں، گھوڑوں سمیت مدائن کی طرف عبور کرگئے۔ (ازالۃ الخفاء)
مدینہ کی آواز نہاوندتک: امیرالمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالی عنہ نے حضرت ساریہ رضی اﷲ تعالی عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالاربنا کر نہاوند کی سرزمین میں جہاد کے لیے روانہ فرمادیا۔ آپ جہاد میں مصروف تہے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے مسجدنبوی کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں یہ ارشاد فرمایا کہ یاسارِیۃ الجبل ( اے ساریہؓ!پہاڑکی طرف اپنی پیٹھ کرلو)حاضرین مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ رضی اﷲ تعالی عنہ تو سرزمین نہاوند میں مصروف جہاد ہیں اورمدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہیں۔آج امیر المؤمنین نے انہیں کیونکر اورکیسے پکارا ؟ لیکن نہاوند سے جب حضرت ساریہ رضی اﷲ تعالی عنہ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کریہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو۔ حضرت ساریہ رضی اﷲ تعالی عنہ نے فرمایا کہ یہ تو امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالی عنہ کی آواز ہے، یہ کہا اورفورا ہی انھوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کر کے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو ایک دم اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اوردم زدن میں اسلامی لشکرنے کفار کی فوجوں کو روندڈالا اورعساکر اسلامیہ کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکر کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔
فاروق بین الحق والباطل :عبداﷲ بن مسلمہ کہتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کا ایک وفد امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کی بارگاہ خلافت میں آیا تو اس جماعت میں اشترنام کا ایک شخص بھی تھا۔ امیرالمؤمنین رضی اﷲ تعالی عنہ اس کو سر سے پیر تک باربار گرم گرم نگاہوں سے دیکھتے رہے پھر مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا یہ شخص تمہارے ہی قبیلہ کا ہے ؟میں نے کہا کہ ''جی ہاں'' اس وقت آپ رضی اﷲ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ عزوجل اس کو غارت کرے اور اس کے شروفساد سے اس امت کو محفوظ رکہے۔ امیر المؤمنین رضی اﷲ تعالی عنہ کی اس دعا کے بیس برس بعد جب باغیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ کو شہید کیا تو یہی ''اشتر''اس باغی گروہ کا ایک بہت بڑا لیڈر تھا۔اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ ملک شام کے کفار سے جہاد کرنے کے لیے لشکر بھرتی فرمارہے تہے۔ ناگہاں ایک ٹولی آپ کے سامنے آئی تو آپ رضی اﷲ تعالی عنہ نے انتہائی کراہت کے ساتھ ان لوگوں کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ پھر دوبارہ یہ لوگ آپ کے روبروآئے تو آپ نے منہ پھیرکر ان لوگوں کو اسلامی فوج میں بھرتی کرنے سے انکار فرمادیا۔ لوگ آپ رضی اﷲ تعالی عنہ کے اس طرز عمل سے انتہائی حیران تھے لیکن آخر میں یہ راز کھلا کہ اس ٹولی میں ''اسودتجیبی''بھی تھا جس نے اس واقعہ سے بیس برس بعد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ کو اپنی تلوار سے شہید کیا اوراس ٹولی میں عبدالرحمن بن ملجم مرادی بھی تھا جس نے اس واقعہ سے تقریباچھبیس برس کے بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کو اپنی تلوار سے شہید کرڈالا۔

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 308082 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More