شہیدِ کربلا امام عالیٰ مقام حضرت امام حسین ؓ کی شہادت دینِ اسلام کی تجدید
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
تاریخ انسانی بھی عجب اسلوب و
انداز کی حامل ہے۔جس وقت کوئی اندوہناک واقعہ درپیش ہوتا ہے اُس وقت یہ
سمجھا جاتا ہے کہ شکست ہوئی ہے ۔ظلم ہوا ہے۔ طاقت کی فتح ہوئی ہے اور مظلوم
کو شکست ہوئی ہے ۔یوں شکست کھانے والے کا نشان وقتی طور پر مٹ جاتا ہے اور
شکست دینے والا غالب آجانے کی وجہ سے اپنے وجود کو بچا لیتا ہے۔ لیکن
تھوڑئے ہی عرصے کے بعد جب اُس واقعہ کے محرکات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور
اُس کے نتائج و عواقب کو خالقِ کائنات کی طے کردہ کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے
تو پھر شکست دینے والا تاریخ کے ہاتھوں شکست کھا جاتا ہے۔اُسے لعن طن کی
جاتی ہے ظاہری فتح کے باوجود وہ عبرتناک شکست کا شکار ہو جاتا ہے کہ پھر
اُسے تاریخ کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔یہی کیفیت اور
اہمیت امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے حوالے سے تاریخ کے
انوکھے باب کی ہے۔ لاکھوں پیغمبروں رسولوں کے بعد اور نبی پاکﷺ سے دین کو
مکمل کروانے کے بعد فوری طور پر دین کی تجدید کی ضرورت کیوں پڑی۔ اِس کا
جواب بھی تاریخ ہی دیتی ہے کہ خالق نے جس دین کو نبی پاک ﷺ پر مکمل کیا اُس
کی تجدید کی ذمہ داری بھی آپﷺ کے گھرانے کی قسمت میں لکھ دی گئی گو کہ آپ
کے نواسے امام حسینؓ کو اِس را ہ میں دیگر اہل ِ خانہ کے ساتھ شہادت کے
مقام پر سرفراز ہونا پڑا لیکن نبی پاکﷺ کے گھرانے نے قربانی سے دریغ نہیں
کیا اور موت کو اِس طرح گلے لگایا کہ چند ماہ کے علی اصغرؓ نے بھی نبی پاکﷺ
کے دین کی آبیاری کے لیے اپنے خون کو پیش کیا۔ اِس طرح کی قربانی کے فلسفے
کو سمجھنے کے لیے اطاعت رسولﷺ،عشق رسولﷺ کے سبق کو سمجھنا ہوگا۔حضرت امام
حسینؓ کی شہادت بھی درحقیقت اُنھی قربانیوں کا تسلسل ہے جس کا آغاز اﷲ پاک
کی وحدانیت کے پرچم کو بلند کرنے کے لیے ہمیشہ سے جاری و ساری ہے۔اگر ہم
عشق رسولﷺ کے فلسفے کی اہمیت کو جان جاتے ہیں تو پھر کربلا کے میدان میں
سجنے والی انوکھی مقتل گاہ کا فلسفہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے۔ دو شہزادوں کی
جنگ کا بہتان لگانے والوں کی عقل پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے کہ
جنگیں لڑنے کے لیے چند ماہ کے بچوں اور گھر کی خواتیں کو ساتھ لے کر نہیں
جایا جاتا۔اور گھرانہ بھی وہ جن کے بابا نبی پاکﷺ ہیں۔نبی پاکﷺ کے گھرانے
کے بچوں اور عورتوں کے ساتھ جس طرح سلوک کربلا کی دھرتی پر ہوا وہ دھرتی
خود شائد کھبی معاف نہ کر پائے گئی لیکن دوسری جانب اِسی دھرتی پر بپا ہونے
والا ظلم سچائی کے لیے مینارہ نور بن گیا ۔یقینا کربلا کی دھرتی کے لیے یہ
امر کسی اعزاز سے کم نہیں۔اﷲ پاک، نبی پاکﷺ اور قران مجید کے پیغام کو
ہمیشہ کے لیے دوام بخشنے کے لیے نبی پاکﷺ کے گھرانے کو عظیم قربانی دینا
پڑی۔آئیے سرکار نبی پاکﷺ کے حوالے سے ذکر خیر ہو جائے۔انسانی تاریخ میں کسی
بھی الہامی کتاب کو وہ پذیرائی اور مرکزیت حاصل نہیں ہے جو کہ قران پاک کو
ہے۔قران پاک تقریباً چوبیس سالوں میں نبی پاکﷺ پر نازل ہوا۔قران پاک اﷲ پاک
کا کلام ہے جو اﷲ پاک نے مختلف ادوار میں مختلف حالات کے مطابق نازل کیا ۔قرانِ
مجید کو نبی پاکﷺ تک پہنچانے کا کام اﷲ پاک کے جلیل القدر فرشتے حضرت جبریلؑ
نے انجام دیا۔گویا قران اﷲ پاک کی جانب سے بندئے کے لیے ایک ایسا ہدایت
نامہ ہے کہ اِس کی نظیر نہیں ملتی۔اسلامی تمدن کے تمام تر محرکات اور اسلوب
اِس انداز میں قران پاک میں بیان فرما دئیے گئے ہیں کہ اِس کتاب کو اﷲ پاک
نے ایسی کتاب قرار دیا ہے کہ جو کہ لاریب ہے۔ہم مسلمان ،یورپ امریکہ کے
لوگوں کے کارنامے اور وہاں کا نظامِ حکومت دیکھ کر کمتری محسوس کرتے ہیں کہ
شائد وہ ہم سے زیادہ علم کے حامل ہیں۔ اصل نکتہ تو یہ ہے کہ تمام تر
معاملات کا تعلق عمل سے ہے۔ گفتار کے غازی اور کردار کے غازی دو مختلف
انداز ہیں۔ فی زمانہ جو صورتحال واضع ہے وہ یہ کہ مسلمان گفتار پر زور دئے
رہے ہیں۔ اور کردار یعنی عمل والا پہلو اُن لوگوں نے ا پنا رکھا ہے جن کو
ہم کافر کہتے ہیں۔ اِس جگہ میں ایک نہایت ہی اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول
کروانا چاہتا ہوں۔ قران اﷲ کا کلام ہے اور اِس کتابِ برحق کو انسان کی
ہدایت کے لیے اﷲ پاک نے نازل فرمایا۔ نبی پاکﷺ نے فرمادیا کہ یہ قران ہے
اُس کو قران کا درجہ دئے دیا گیا۔ اور جس بات کو نبی پاکﷺ نے کہا کہ یہ
حدیث ہے ہم نے اُس کو حدیث کا درجہ دئے دیا۔ اِس سے یہ بات اظہر من الشمس
ہوجاتی ہے کہ صاحب کتاب نبی پاکﷺ کی ذات کی اہمیت اور تقدس کتنا ہے۔ یعنی
نبی پاکﷺ کے کہنے سے کتاب برحق کو کتاب ہونے کا درجہ ملا۔بعض اوقات ایسا
بھی ہوتا ہے کہ نام کے مسلمان وہ صاحب قران نبی پاکﷺ کی تقدیس کی بجائے
قران کی بات کرتے ہیں۔یہاں یہ کہنا ازحد ضروری ہے کہ جو نبی ﷺکی بات ہے وہ
اﷲ کی بات ہے اور جو اﷲ کی بات ہے وہی قران ہے گویا ہم اﷲ اور نبی ﷺ کو الگ
الگ نہیں کر سکتے۔انسانی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ اﷲ کے پیغام کو پُر
اثر انداز دینے کی سعادت نبی پاکﷺ کو اﷲ پاک نے بخشی اور یوں راہ ہدایت
قران کو نبی پاک ﷺ کے توسط سے نازل کیا گیا۔ کیونکہ اگر ہم خالق کی توقیر
کی بات کرتے ہیں اور اگر ہم کتاب ہدایت قران کی بات کرتے ہیں تو پھر صاحب
قران نبی پاکﷺ کی ذات اِس ہدایت والے عمل میں مرکز ومحور ہے کیونکہ الہامی
کتابیں اور صحیفے تو پہلے بھی نازل ہوتے رہے۔رب پاک کو ایک ماننے کا سبق تو
سوا لاکھ پیغمبروں نے دیا لیکن نبی پاکﷺ پر آکر نبوت کا سلسلہ ختم کرنے کا
مطلب یہ ہے کہ اﷲ پاک پوری کائنات کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہدایت کا
سلسلہ نبی پاکﷺ پر آکر مکمل ہوچکا ہے اور یوں سوا لاکھ نبیوں کے تبلیغی مشن
کے باوجود،توریت زبور انجیل کے ہوتے ہوئے بھی اﷲ پاک نے دین کو مکمل کرنے
کے لیے جس ہستی کا چناؤ کر رکھا تھا وہ نبی آخر و اعظمﷺ ہیں۔ جن کی تعلیمات
کو زوال نہیں۔جن کا وجود سارئے جہانوں کے لیے رحمت اور جو کائنات کی تخلیق
کی وجہ قرار پائے۔ حتیٰ کہ جس توحید کو تمام ادیا ن کسی نہ کسی طرح مانتے
ہیں اُس توحید کی خالص روح سے آگاہی بھی نبی پاکﷺ کے توسط سے ہوئی۔۔ جو نبی
ﷺ اُمت کے لیے شفاعت کر نے والی ہستی ہے۔ایسی برگزیدہ ہستی کہ جس کے متعلق
اﷲ پاک فرماتا ہے کہ ائے میرئے پیارئے حبیبﷺ اگر میں آپﷺ کو پیدا نہ کرتا
تو زمین وآسمان پیدا نہ کرتا حتیٰ کہ اپنے رب ہونے کا بھی اظہار نہ
کرتا۔اِس حدیث قدسی کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کے قران اور
صاحب قران نبی پاکﷺ کا کیا مقام ہے۔نبی پاکﷺ کی اولاد پاک اور پیارئے نواسے
جناب حضرت امام حسینؓ کی شہادت در حقیت ظلم و بربریت کے منہ پر ایک ایسا
طمانچہ ہے کہ مورخ اِسکا کبھی بھی ثانی ڈھونڈ نہیں پائے گا۔ چونکہ وجہ
تخلیقِ کائنات جناب نبی پاکﷺ کے پیارئے نواسے کی حق کی خاطر عظیم شان
قربانی ہمیشہ کے لیے سچ کے پیروکاروں کے لیے مشعل راہ بن چکی ہے۔ قیامت تک
قدرت اِس عظیم قربانی پر ناز کرتی رہے گی ۔ حشر کے میدان میں بھی اِسی
قربانی کا چرچا ہوگا کہ جس نے بھی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا ہوگا وہ
شہادت امام عالی مقام کو ہی کسوٹی قرار دئے گا۔ |
|