تحریر: کہکشاں بابر (فیصل آباد)
واقعہ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680ء) کو موجودہ عراق میں
کربلا کے مقام پر پیش آیا اسلام نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر
تھی۔آنحضورْﷺ اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ حضرت حسین
علیہ السلام ابن علی ؓسے امیر معاویہ ؓنے معاہدہ کیا تھا کہ کسی کو خلیفہ
نامزد نہ کریں گے مگر حضرت امیر معاویہ ؓ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد
کرکے اس اصول دین کی خلاف ورزی کی تھی کیونکہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی
حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں تھا۔
ابھی تک حجاز میں ایسے کبار صحابی اور اکابرین موجودتھے جنہوں نے براہ راست
نبی کریمﷺ کا دور دیکھا تھا۔ حضرت امام حسین ؓ نے ان ہی اصولوں کی خاطر
یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف
سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کیلئے شریعت اسلام نے مقرر کیے تھے۔ حکمران
تسلیم کرنا امام حسین علیہ السلام کیلئے ناممکن تھا۔
یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کی وساطت سے امام
حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کی ولید نے سختی سے کام نہ لیا جب مروان کواس
صورت حال کا پتہ چلا تو ولید اس سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بعیت کا
وقت کھو دیا اب قیامت تک بیعت نہ لے سکو گے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام مع اہل وعیال مکہ روانہ ہو گئے آپ علیہ السلام
نے وہاں شعب ابی طالب میں قیام کیا۔امام حسین علیہ السلام کو اہل کوفہ نے
کئی خطوط لکھیں تھے جس کے پیش نظرامام حسین علیہ السلام نے مسلم بن عقیل کو
کوفہ روانہ کیا، تاکہ وہ اصل صورت حال معلوم کریں۔ (ایک روایت کے مطابق
کوفہ والوں نے 12000 خطوط لکھیں اور دوسری روایت کے مطابق 18000 خطوط تھے)
مسلم کوفہ پہنچے کے پہلے ہی دن ہزارکوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت لی اپ
کوفیوں کے جذبات سے بہت متاثر ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے
کا لکھا۔۔۔۔کوفہ کے نئے حاکم عبیداﷲ ابن زیاد نے اعلان کروایا کہ جو مسلم
سے اپنی وفاداریاں توڑ لے گا اس کو امان دی جائے گی اور بعد میں مسلم کی
جائے پناہ کی تلاش شروع کردی اس وقت مسلم ایک محب اہل بیعت ہانی بن عروہ کے
ہاں چلے گئے ابن زیاد نے ہانی کو بلا کر مسلم کو پیش کرنے کا حکم دیا ہانی
نے انکار کر دیا جس میں ان کو قید میں ڈال دیا گیا۔
شہر میں افواء پھیل گئی کہ ہانی کو قتل کر دیا گیا یہ خبر سنتے ہی مسلم نے
اٹھارہ ہزار ہمنواؤں کے ساتھ ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ ابن زیاد
کے پاس صرف 50 آدمی تھے اس نے حکمت سے کام لیا اور ہمنواؤں کو منتشر
کردیا۔۔اب مسلم کے پاس صرف 30آدمی رہے گئے مجبورا مسلم نے ایک بڑھیا کے گھر
میں پناہ لی۔ لیکن اس بڑھیاکے بیٹے نے لالچ میں اکرمسلم کے یہاں ھونے کی
اطلاع کردی مسلم تنہا لڑنے پرمجبورجب زخمیوں سے چور ھوگئے تومحمد بن اشعث
نے امان دے کر گرفتار کرلیا۔ جب مسلم کوابن زیاد کے پاس پیش کیا گیا تو وہ
اپنے وعدے سے پھیرگئے اور ان کو قتل کر دیا۔
مسلم نے اشعث کے ذریعے امام حسین علیہ السلام کوایک پیغام دینے کو کہا۔
اشعث نے وعدہ پورا کیا اور ایک قاصد امام حسین علیہ السلام کی طرف روانہ کر
دیا۔ ادھر اہل مکہ اورمدینہ نے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ جانے سے
بازرکھنے کی بھرپور کوشش کی۔کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ عمل ان کے
سامنے تھا۔ ابن عباس ؓ نے یہاں تک کہا کہ اگر آپ علیہ السلام نہیں مانتے تو
کم از کم اہل وعیال کو ساتھ نہ لے جائے لیکن امام حسین علیہ السلام اپنے
فیصلے پر قائم رہے۔
راستے میں مشہور شاعر فرزوق آپ علیہ السلام سے ملا اور امام حسین علیہ
السلام سے عرض کی ’’لوگوں کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے
ساتھ۔ قضاء الہی آسمان سے اتری ہے اور اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے، لیکن ان کے
باوجود آپ علیہ السلام نے سفر جاری رکھا۔
ابن زیاد کے حکم سے تمام اہم راستوں پر ناکہ بندی کر دی اشعث کے بھیجے ہوئے
قاصد نے راستے میں ہی مسلم کے قتل کی خبرآپ علیہ السلام کو دی اور کہاکہ
مسلم نے پیغام دیا تھا کہ آپ علیہ السلام جہاں بھی ہو وہاں سے واپس لوٹ
جائیں۔ اب آپ علیہ السلام سفر کوفہ کے بارے میں متردد ہوئے ،ساتھیوں نے
واپس لوٹنے کا مشورہ دیا۔ لیکن مسلم کے بھائیوں نے اپنے بھائی کے خون کا
انتقام لینے کی خاطر سفر جاری رکھا۔ امام حسین علیہ السلام نے کہا جو شخص
واپس جا نا چاہے میری طرف سے اجازت ہے۔چنانچہ سوائے ان جان نثاروں کے جو
مدینہ سے آپ کے ساتھ آئے تھے رہے گئے۔
ابن زیاد نے امام حسین کی پیش قدمی روکنے کیلئے حربن یزید کو روانہ کیا
امام حسین کی جب اس سے ملاقات ھوئی توآپ نے اس کو کوفیوں کے خطوط کے دو
تھیلے منگوا کر دیکھائے اور کہا اب آپ کی رائے بدل گئی ہے تو میں واپس جانے
کو تیار ہو۔ حر نے کہا ہمیں تو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے چنانچہ امام
حسین نے اپنا سفر جاری رکھا۔
امام حسین علیہ السلام کا
قافلہ اور حر کا قافلہ ساتھ ساتھ آگے بڑ رھے تھے۔ راستے میں حر کوابن زیاد
کا خط ملا جس میں حکم تھا جونہی میرا خط تم کو ملے حسین علیہ السلام اور ان
کے ساتھیوں کوجہاں ہو وہیں روک لو اور ان کو ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو
جو بالکل چٹیل میدان ہوجہاں کوئی سبزہ اور پانی کاچشمہ نہ ھو۔بلاآخر یہ
مختصر سا قافلہ 2محرم الحرم61ء بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلاکے میدان میں
اترا۔ دوسرے دن عمربن سعد6 ہزار سپاہیوں کو لے کر پہنچا اور ابن زیاد نے
عمر بن سعد کو حکم دیا اگر امام حسین علیہ السلام بیعت نہ کریں تو ان کا
پانی بند کر دیا جائے۔ اگر امام حسن علیہ السلام اور ان کے ساتھی اپنے آپ
کو حوالے کردے تو ٹھیک نہیں تو بہتر ہے جنگ کی راہ لو۔ عمر بن سعد اپنے
اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر امام حسین علیہ السلام کے خلاف تلوار اٹھانے
کے لئے تیار ہو گیایہ 9 محرم الحرم کا دن تھا۔
صلح کی آخری گفتگو ناکام ہونے کے بعد امام حسین علیہ السلام نے پھر سے اپنے
ساتھیوں کو کہا جو جانا چاہیں میری طرف سے اجازت ہے۔ اب امام حسین کے جاں
نثاروں کی تعداد 72 تھی جنگ کے آغاز سے بیشتر اﷲ کے حضور دعا کی اوران سے
تائید اور نصرت چاہی۔
اس کے بعد تمام حجت کی صفوں اور دشمنوں کی طرف متوجہ ہوئے پھر فرمایا ’’اے
لوگو! جلدی نہ کروپہلے میری بات سن لو مجھ پر تمھیں جو سمجھانے کا حق ہے وہ
پوراکر لینے دواگر تم مجھ سے انصاف کرو گے تو خوش بخت انسان ہو گے‘‘۔
تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کے میں کون ہو؟کیا میں تمھارے نبیﷺ
کا نواسہ نہیں اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے اﷲ
کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لائے۔
کیا تمھیں رسول اﷲﷺ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے بھائی اور میرے
لیے فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ھو گئے اگر یہ میرا بیان
سچا ھے اور ضرور سچاھے تو تم مجھے بتاؤ کہ کیا آپﷺ کی اس حدیث کی موجودگی
میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے۔
لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ھوا ، صرف حربن یزید کے
علاوہ اس نے کہایہ جنت اوردوزخ کے انتخاب کا موقع ھے میں نے جنت کا انتخاب
کرلیا۔اس کے بعد جنگ کا آغاز ھوا اہل بیت نے دشمنوں کی یلغاروں کا ڈٹ کر
مقابلہ کیا ایک ایک کر کے کٹ کر مرے لیکن میدان نہ چھوڑا یہاں تک کہ تمام
جاں نثار شہید ھو گئے لیکن امام حسین علیہ السلام ابھی تک میدان میں جمے
ھوئے تھے دشمنوں نے آپ علیہ السلام کے چاروں طرف نرغہ کر لیا مگر شہید کرنے
کی کسی بھی میں ہمت نہیں تھی کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ گناہ اس کے سر ھو
بالاآخر زرغہ بن شریک نے یہ بد بختی مول لی۔ ہاتھ اور گردن پر تلوار سے وار
کیے اور سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ علیہ السلام گر گئے اس کے بعد شمر
نے آپ کا سر پیچھے کی طرف سے کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔
تمام شہدائے اہل سنت کے سر تیروں کی نوک پرر کھ کر ابن زیاد کے پاس لے گئے
اور بعد میں دمشق میں یزید کے دربار میں لے جائے گئے۔ شہادت حسین علیہ
السلام کی خبر جب سر زمین حجاز میں پہنچی تو کوئی آنکھ ایسی نہیں تھی جو اس
سانحہ میں اشکبار نہ ھو لہذا حجاز میں فوری طور پر انقلاب آگیا۔اہل مدینہ
نے یزید کے بجائے عبداﷲ بن زبیر کو خلیفہ چن لیا تھا شہدت حسین علیہ السلام
نے لوگوں کے سوئے ھوئے جذبات کو از سر نو بیدر کر دیا حسین کی شہدت نے ملت
اسلامیہ کو بہت متاثر کیا اور انھوں نیامیوں کی حکومت کا تختی الٹ دیا۔
اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے
سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی
اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی
گئی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد
بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، انسان دوستی ، مساوات
اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی
یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت
کے تصور پر قائم کی گئی تھی۔ لہذا مسلمان اس تبدیلی کو اسلامی نظام شریعت
پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسین علیہ السلام محض ان اسلامی
اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدانِ عمل میں اترے۔
(کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا۔ اس واقعہ کی
خبر اﷲ نے حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی۔ چنانچہ روایات میں
آتا ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ
عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی ہے
جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔ جب وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون کی
طرح سرخ ہو جائے گی۔ کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا زندہ
تھیں اور جس وقت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ
اور مائع ہو گئی تھی)
امام حسین علیہ السلام کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا باب
ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ
ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی
بقا اور احیاء کے لیے تاریخِ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔
|