آغازِ سال ِ نو

محرم الحرام کے محترم مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی اسلامی سال کا بھی آغاز ہوتا ہے ۔محرم الحرام سال کے ان محترم مہینوں میں سے ایک ہے جو ہر الہامی مذہب کے لیے محترم ہے۔اس مہینے کی اہمیت اور فضیلت مسلم ہے ۔ نئے اسلامی سال کا آغاز جہاں حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت کی یاد دلاتا ہے وہاں یہ مہینہ کربلا میں بیتنے والے عظیم سانحہ کی یاد تر و رتازہ کر دیتا ہے ۔ کربلا میں ہونے والی حق و باطل کی جنگ اور حضرت امام حسین ؓ کی جان نثاری کی عظیم یاد تمام امت ِ مسلمہ کے لیے ایک ابدی سبق ہے ۔یہ ایسا واقعہ ہے جس تادم ِ قیامت نہ صرف زندہ و جاوید رہے گا بلکہ یہ واقعہ اسلام کی بقاء کا ضامن بھی ہے ۔اس واقعہ کے اثرات رہتی دنیا تک قائم ع دائم رہیں گے یہ وہ المناک سانحہ ہے جب نواسہ رسول ﷺ ، جگر گوشہ ء بتول ؓ ، حضرت امام حسین ؓ ، جنتیوں کے سردار ، اپنے جان نثاروں کے ساتھ خود کو مسلمان کہنے والوں کے ساتھ جنگ و جدل میں مبتلا ء ہوئے اور اس جنگ کے نتیجے میں شہادت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوئے ۔

ظلمت کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس روشنی کے لیے چراغ جلانے پڑتے ہیں ۔ چاہے ان چراغوں میں تیل کی جگہ شہیدوں کا لہو ہی کیوں نہ ہو ۔ یہ چراغ جان اور مال کی قربانی مانگتے ہیں اور دین کی بقاء کی خاطر یہ قربانی دینا پڑتی ہے ۔اگر یہ چراغ نہ جلائے جائیں تو ظلمت کے اندھیرے صدیوں پر محیط ہو جاتے ہیں، انسانیت اس اندھیرے میں بھٹکتی پھرتی ہے ،جب ظلم و بربریت اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے ۔زمیں پر رہنے والے خدا کی برابری کرنے لگتے ہیں اور جب جب زمین پر بسنے والوں کے جرم خدائی کی حد کو چھونے لگتے ہیں تب تب خدا ان زمین کے فرعونوں کو شکست دینے، حق کی سربلندی کے لیے موسیٰؑ مبعوث فرمایا کرتا ہے ۔ہر زمانے کے فرعونوں کے تدارک کے لیے لوگوں کو چنا گیا اور فرعونوں کے مدمقابل کھڑا کیا گیا اور بالآخر حق کو فتح نصیب ہوئی ۔مشیت ِ ایزدی کبھی عالم انسانیت کو ظلمت کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑتی بلکہ ان اندھیروں کو ختم کرنے لیے ایسے لوگ منتخب کرتی ہے جو اپنی ہمت و جرات سے ان اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتے ہیں ۔

تاریخ عالم گواہ ہے کہ ہر زمانے میں فرعونیت جب حد سے بڑھی تو خدا نے اس کے خاتمے کے لیے اپنے بہترین بندوں کو چنتا ہے ۔ یہ اﷲکے چنیدہ بندے انسانیت کی معراج پر ہوتے ہیں۔ انسانیت کی بقاء کے ضامن ۔خدا کے یہ چنیدہ بندے حق کی سربلندی کے لیے اپنی جان دینے سے گریز نہیں کرتے ، یہ اپنے لہو سے ظلمت کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے چراغ روشن کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔

کوفہ میں جب یزید کے ظلم ایک حد سے بڑھ گئے تو اﷲنے حضرت امام حسین ؓ کو اس کی سرکوبی کے لیے چنا ۔ یہ وہ وقت تھا جب یزید شام کا امیر اور ابن زیاد کوفہ کا گورنر تھا ۔چہار جانب ظلم و بربریت ، بدامنی کا دور دورہ تھا ۔یزید نے زبان سے نہیں بلکہ اپنے اعمال سے خدائی کا دعویٰ کر رکھا تھا ۔قبیح رسومات معاشرے میں جڑ پکڑ چکی تھی اور اسلام کا وجود خطرے میں پڑ چکا تھا۔ ایسے حالات میں امام عالم حضرت امام حسین ؓ کی ذات وہ واحد ذات تھی جو اسلام کو اس دنیا سے مٹ جانے سے بچا سکتے تھے اور انھوں نے اپنے فرض کی انجام دہی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزارشت نہ کیا ۔کوفہ کے رہنے والوں نے یزید کے اس ظلم و ستم سے نجات حاصل کرنے کے لیے حضرت امام حسین ؓ کو پے در پے خطوط لکھے کہ ان کی مدد کریں ، کوفہ تشریف لائیں اور انھیں یزید کے ظلم سے نجات دلائیں جن میں اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی کہ کوفہ میں حضرت امام حسین ؓ کی بھر پور مدد کی جائے گی لیکن جب حضرت امام حسینؓاپنے خاندان کے ساتھ کوفہ پہنچے تو ان کا ساتھ دینا تو درکار ان کے حق میں کسی نے آواز تک بلند نہیں کی ۔ امام الامام حضرت حسین ؓ کسی جنگ کے لیے کوفہ تشریف نہیں لارہے تھے بلکہ وہ اس لیے کوفہ آرہے تھے کہ لوگوں کے دلوں میں پھر سے دینِ اسلام کی شمع روشن کریں ۔ یزید کو اس کی بداعمالیوں سے روکیں لیکن یزید اپنی طاقت کے نشے میں دھت تھا اس نے اس نہتے قافلے جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے کے سامنے اپنا لشکر لا کھڑا کیا ۔ حضرت امام عالی مقام ؓ اور ان کے ساتھیوں کو کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی کربلا (نیں نواء) کے مقام پر روک دیا گیا ۔نہ صرف روکا گیا بلکہ ان معصومین پر دریائے فرات کا پانی تک بند کر دیا گیا ۔ یہاں تک کہ قافلے میں شامل بچے تک پیاس سے تڑپتے رہے ۔دریائے فرات آج تک اپنی اس بدبختی پر روتا ہے کہ نواسہ ء رسول ﷺ اس کے کنارے رکے اور پیاسے رہے ۔یہ بھوکا پیاساکاروان جو کوفہ کے رہنے والوں کو یزید کے ظلم سے بچانے اور اﷲ کی راہ دیکھانے انھی کی درخواست پر آیا تھا اس پر جنگ مسلط کی گئی ۔جب کہ یزید جانتا تھا کہ حضرت امام حسین ؓ کون ہیں؟ ان کی نسبت کن سے ہے ؟ وہ کس مقصد سے آئے ہیں لیکن اس کے غرور اور انا نے حضرت نبی پاک ﷺ کے خاندان سے جنگ تو گوارا کر لی لیکن جھکنا نہیں ۔ امام اعلی مقام نے سب کو اجازت دی کہ وہ چاہیں تو اپنی جان بچا سکتے ہیں لیکن کسی نے اپنے امام ؓکو ان حالات میں چھوڑنا گوارا نہ کیا اور بالآخر جان کی قربانی دی ۔ اس قربانی میں شیر خوار بچے بھی شامل تھے اور جوان بھی ۔ اس جنگ میں حضرت امام حسین ؓ اور ان کے تمام ساتھیوں کو شہید کردیا گیا ۔ خانوادہ ء رسول ﷺ کی پردہ دار خواتین کو سرِ بازار بے پردہ کیا گیا ۔ بچوں اور خواتین کو زندان میں ڈال دیا گیا ۔ یہاں تک کہ حضرت امام حسین ؓ کی صاحب زادی حضرت بی بی سکینہ ؓ اسی زندان میں اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملیں ۔ ان تمام مظالم کے باوجود یزید اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا ۔ اﷲنے اسے شکستِ فاش دی اور بظاہر شکست کا شکار ہونے والے حضرت امام حسین ؓ اور ان کے جان نثاروں کو دنیا کے لیے ایک مثال بنا دیا ۔ ۔یہ وہ ۷۲ جان نثار تھے جو اپنی کم تعداد، کم اسلحہ کے باوجود باطل قوتوں سے ٹکرا گئے ، بالآخر باطل کو شکست ِ عظیم کاسامنا کرنا پڑا اورحق کا الم ہمیشہ کے لیے سربلند ہو گیا ۔آج حضرت امام حسین ؓ کی یاد رتو تمام عالم میں زندہ ہے ان کے روضہ پر آج بھی لاکھوں زائرین جمع ہوتے ہیں لیکن یزید اور اس کی نسل کا نام و نشان تک اس زمین سے مٹ چکا ہے ۔ اسلام آج بھی زندہ ہے ، اسلام کو مٹانے کی کوشش کرنے والے خود خاک میں مل کر اپنا نام و نشان گنوا بیٹھے ہیں

تاقیامت یہ بہادر جان نثار اور عظیم امام کی یاد، اس واقعہ کے اسباق یاد رکھے جائیں گے ۔ یہ واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے چاہے بظاہر حق پرستوں کو شکست ہو ۔

واقعہ کربلا ، حضرت امام حسین ؓ اور لشکر حسینی ؓ کے ہمت و حوصلے کون واقف نہیں ؟۔حضرت امام حسین ؓ کی یزید سے جنگ ، حق کی سربلندی کے لیے اپنی جان کی قربانی ، اسی چراغ کی مانند ہے جو خداوند عالم نے ظلم و بربریت کے خلاف روشن کیا ۔یہ واقعہ تاریخ کے صفحوں میں اس روشن تحریر کی مانند ہے جو رہتی دنیا تک انسانیت کو روشنی فراہم کرتا رہے گا ۔
قتل حسین ؓ اصل میں مرگ ِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا ء کے بعد

آج بھی ہمارا معاشرہ اسی یزدیت کا شکار ہے ۔ ایک اﷲاور ایک رسول ﷺ کے ماننے والے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں ۔ حق پرستی اور دین پرستی کو فرسودہ خیالات کہہ کر پامال کیا جا رہا ہے ۔ ہر طرف دین کی قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بھی حکمران طبقہ خود کو خدا سمجھنے لگا ہے ۔ امن اور انصاف ناپید ہے ۔ ہمیں اپنے معاشرے کو سدھارنے کے لیے حضرت امام حسین ؓ کی زندگی سے حاصل ہونے والے سبق کو یاد رکھنا چاہیے ۔ ان کی پیروی کرنا چاہیے ۔اگر ہر شخص اسوۃ حسینی کانمونہ بن جاتا ہے تو معاشرہ از خود ایک فلاہی معاشرہ بن سکتا ہے ۔
 
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164619 views i write what i feel .. View More