تری مرگ ناگہاں کا ابھی تک یقیں نہیں ہے

یقیناً اس صفحہ ہستی پر ظہور پذیر ہونے والے لاتعداد اسلام کے جیالوں نے علم و عمل، فکر و نظر، تدبر و تعقل اور عمدہ اخلاق و کردار کے ذریعہ دین محمدی کی ہمہ جہت رہنمائی فرمائی ہے جن میں سے بعضے افراد نے اپنے لئے ایک مخصوص میدان کا انتخاب کیا اور اس میدان کے شہسوار بن کر نکلے … اور انہوں نے اس میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مرور زمانہ اور حوادث وقت نے ایسے مخلصین اور فکر و فن کے ماہر علماء کی کمی میں اضافہ کیا ہے۔ قحط الرجال کے اس نازک وقت میں جبکہ عالم اسلام پر اندھیرے نے حکومت بنالی ہے، اسلام اور اہل اسلام کیلئے چہار جانب سے پھندا تیار کیا جارہا ہے خود ہمارے ملک میں ایک خاص طبقہ کا بول بالا ہے اور آئے دن ماحول خراب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں …ایسے پر خطر ماحول میں ایک باوقار عالم کا دینی و ملی رہنمائی کرنا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی…لیکن افسوس کہ اب امت اس عظیم سایہ سے بھی ہمیشہ کیلئے محروم ہوچکی ہے۔ امیر شریعت (حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ) کی ذات گرامی ان تمام صفات سے پر تھی۔
یقیناً اس صفحہ ہستی پر ظہور پذیر ہونے والے لاتعداد اسلام کے جیالوں نے علم و عمل، فکر و نظر، تدبر و تعقل اور عمدہ اخلاق و کردار کے ذریعہ دین محمدی کی ہمہ جہت رہنمائی فرمائی ہے جن میں سے بعضے افراد نے اپنے لئے ایک مخصوص میدان کا انتخاب کیا اور اس میدان کے شہسوار بن کر نکلے … اور انہوں نے اس میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مرور زمانہ اور حوادث وقت نے ایسے مخلصین اور فکر و فن کے ماہر علماء کی کمی میں اضافہ کیا ہے۔ قحط الرجال کے اس نازک وقت میں جبکہ عالم اسلام پر اندھیرے نے حکومت بنالی ہے، اسلام اور اہل اسلام کیلئے چہار جانب سے پھندا تیار کیا جارہا ہے خود ہمارے ملک میں ایک خاص طبقہ کا بول بالا ہے اور آئے دن ماحول خراب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں …ایسے پر خطر ماحول میں ایک باوقار عالم کا دینی و ملی رہنمائی کرنا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی…لیکن افسوس کہ اب امت اس عظیم سایہ سے بھی ہمیشہ کیلئے محروم ہوچکی ہے۔ امیر شریعت (حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ) کی ذات گرامی ان تمام صفات سے پر تھی۔ حضرت امیر محترم کی پیدائش 31 مارچ 1927 کو گیا کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی آپ کے والد محترم سید قاضی حسین ؒ اپنے وقت کے محدث عظیم حضرت انور شاہ کشمیری رحمت اللہ علیہ کے شاگرد رشید تھے…گھر کے علمی ماحول کی بنا پر بچپن سے ہی علم و عمل کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ ابتدا سے ہی آپ لہو و لعب سے دور رہے …بنیادی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کرنے کے بعد 1941 میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ تشریف لے گئے…1942 میں اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے کیلئے مادر علمی دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا ۔ 1946 میں کتب متداولہ سے فراغت کے بعد مزید ایک سال مادر علمی کی آغوش میں عربی ادب اور تفسیر و فقہ میں مہارت پیدا کی ۔ بعدازاں 1948 تا 1962 ریاض العلوم ساٹھی چمپارن بہار، میں صدر مدرس کی حیثیت سے خدمت انجام دی، 1963 /1964 دوسال مدرسہ رشید العلوم چترا ہزاری باغ کے مسند صدارت پر فائز رہے اور یہیں سے آپ کیلئے امارت شرعیہ کے راستے وا ہوئے۔ امیر شریعت رابع حضرت منت اللہ رحمانی اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی دعوت پر امارت شرعیہ کے ناظم کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئے …آپ کی شخصیت بہت صاف ستھری تھی، ملت کی رہنمائی کے موضوع پر ملک بھر کے چپہ چپہ میں عوامی جلسوں، علماء کی محفلوں، وکلاء کی مجلسوں، اخباری کانفرنسوں، فقہی سیمیناروں، مدارس کے جلسوں میں ان کی پر مغز تقریروں کا انداز …سامعین کو محظوظ کرنے کا نرالا پن…تبسم آمیز طرز کلام لوگوں کو زندگی بھر یاد رہے گی…یوں تو آپ کی ہر بات ،ہر ادا نرالی تھی پھر بھی کچھ خاص صفتیں جس سے دوسرے بہت کم آراستہ ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ مثبت پہلو اپنانے کے قائل تھے …نامساعد حالات میں بھی آپ منفی پہلو سے اجتناب کرتے …جس کے بہت دور رس نتائج برآمد ہوئے…آپ ملک کے بگڑتے حالات کے تناظر میں اتحاد امت کے داعی و نقیب تھے…مسلکی اختلافات سے قطع نظر آپ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے خواہاں تھے…حالات پر آنسو بہانے کے بجائے آپ نے عملی اقدامات کئے…آپ بیک وقت ملک کے تقریباً تمام بڑے ادارے سے وابستہ رہے…دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس شوری کے اہم رکن بھی تھے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے 25 سال تک جنرل سیکریٹری کے عہدہ پر فائز رہے جہاں آپ نے مسلم پرسنل لاء کے تین بہت ہی قابل قدر شخصیت کے ساتھ کام کیا سب سے پہلے حضرت ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ علیہ، ان کی وفات کے بعد قاضی مجاہد الاسلام قاسمی پھر موجودہ صدر مولانا رابع حسنی ندوی اور امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ سے تقریباً نصف صدی تک وابستہ رہے ۔ ان کے علاوہ بے شمار علمی وفلاحی ادارے کے سرپرست اور روح رواں بھی تھے…اس دوران اللہ رب العزت نے آپ سے وہ کام لیا جس کیلئے آپ کو بھیجا گیا تھا، جس وقت آپ امارت شرعیہ سے وابستہ ہوئے اور امارت کے کام کاج کو سنبھالا تو سب سے بڑا مسئلہ معاشی تنگدستی کا تھا امارت اپنی افادیت کے باوجود مالی اعتبار سے کسمپرسی کی حالت میں سانس لے رہی تھی، ارباب امارت خصوصاً قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ علیہ نے امیر شریعت حضرت سید نظام الدین کو ساتھ لیکر پورے ملک کا دورہ کیا اور عوام کو امارت کی حیثیت اس کے اغراض ومقاصد اور ضرورت سے آگاہ کیا۔ دن رات، ماہ و سال کی بے پناہ کوششوں، آرام سے بے پرواہ، صحت و تندرستی سے بے نیاز ہمہ وقت دم بدم اسفار کی کلفتوں سے بے خبر عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ایک شاندار اور بے مثال ’امارت ‘لوگوں کے سامنے متعارف کروایا جو آج ہندوستان کی فعال ترین تنظیموں میں سے ایک ہے۔ یہاں صرف نکاح و طلاق کے مسائل حل نہیں کئے جاتے ہیں بلکہ ملت کے دیگر امور میں بھی امارت شرعیہ پیش پیش رہی ہے، فلاحی کاموں میں امارت اپنی مثال آپ ہے، صوبہ بہار جو تقریباً ہر سال سیلاب کی زد میں آجاتا، بستیاں اجڑ جاتی ہیں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں، لہلہاتی کھیتیاں برباد ہوجاتی ، ہنستے مسکراتے بچوں کی خوشیاں درد و غم کی عکاس بن جاتی ہے، صوبہ اڑیسہ ساحل سمندر پر واقع ہونے کی بنا پر ہمیشہ طوفان کی زد میں رہتا ہے اور دیگر صوبے جو قدرتی آفات یا فرقہ وارانہ فسادات میں ظلم و تشدد کا شکار بنائے جاتے ہیں ان کی دادرسی کیلئے امارت کے اپنے متعین کردہ کارکنان ہمیشہ تیار ہوتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کا ایک نہایت ہی اہم مرکز بھی ہے جہاں سے علماء و عوام کی ایک جماعت مستفیض ہورہی ہے، قوم میں نت نئے مسائل کی پیداوار کو سلجھانے کیلئے امارت کا قابل تعریف اور لائق تحسین شعبہ جہاں نوجوان فضلاء مدارس کو افتاء و قضاء کی مشق کرائی جاتی ہے ۔ آج امارت کی موجودہ صورتحال اور ترقیات میں حضرت امیر شریعت کا خون شامل ہے۔ امارت کا تصور حضرت کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر آنے والے کو ایک نہ ایک دن اس دار فانی سے رخصت ہونا ہے… خدا کے اصول ’ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘ کے تحت سبھی کو اس دار فانی سے کوچ کرنا ہے۔ حضرت امیر شریعت اپنی پیرانہ سالی اور متواتر بیماریوں کے حملے کی وجہ سے نہایت ہی کمزور ہوچکے تھے، اخیر عمر میں چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ بالآخر 17 اکتوبر ، ۳؍محرم الحرام 1437ہجری کی شام علم وعمل، صدق و صفا ، پیکر و اخلاص و محبت، امت مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن اپنی روشنی سے عالم کو تابانی بخشنے والا یہ آفتاب و ماہتاب عین غروب شمش ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا اور اپنے پیچھے امت کیلئے ایک بہترین عملی نمونہ چھوڑ گیا… اللہ سے دعا ہے کہ اللہ حضرت کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69208 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.