پاکستان میں حقوق نسواں کے
کارکنوں اور قانون سازوں کے مطابق جمہوریت کے تسلسل سے خواتین کے بعض
دیرینہ مسائل پر قوانین تو بنے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے
خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات اور امتیازی سلوک میں کوئی کمی نہیں آئی ہے
جبکہ حالیہ برسوں میں بدامنی اور دہشتگردی میں اضافے سے سب سے زیادہ خواتین
متاثر ہوئی ہیں اور ان کے لیے تعلیم، صحت اور کام کاج کے مواقع مزید محدود
ہوئے ہیں۔
گر آپ غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے واقعات کو دیکھیں تو وہ ابھی تک
جاری ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے ہر سال 1000 واقعات
ہوتے ہیں پورے ملک میں اور اسی طرح سے عورتوں کے خلاف تشدد کے پچھلے ایک
سال میں 6000 کے قریب دوسرے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
ٓآئے روز عورتوں پر تشدد کبھی کوئی نام ونہاد غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل
ہورہے ہیں ۔ جس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ عورت نے اپنی پسندیدگی کا اظہار
کیا تھا محبت کی شادی کا نام لینا تو دور کی بات ہے کوئی پڑھائی کو بنیاد
بنا کر قتل کررہا ہے ۔کوئی جہنز نہ لانے پر تیزاب پینک رہا ہے ۔کوئی ہماری
جادائید جو بٹیوں کے نام ہے ان کی شادی ہونے کے ساتھ کسی اور کے نام ہوجائے
گے اس کو ہتھیانے کے چکر میں عورت کی خوشیوں کو مرتے دم تک قربان کر دیتا
ہے اور اس کے شادی قرآن سے کروادی جاتی ہے ۔
’جنسی ہراس کے خلاف قانون بنا۔ تیزاب پھینکنے کے جرم کی سزا کو مزید سخت
کرنے کے لیے قانون میں ترمیم کی گئی اور قبائلی دشمنی کے تصفیے کے لیے
بچیوں اور عورتوں کی لین دین اور جائیداد ہتھیانے کے لیے قرآن سے شادی
کرانے جیسی فرسودہ رسوم کے خلاف بھی قانون سازی ہوئی۔‘ لیکن سختی سے اس پر
عمل کرنے پر کسی نے توجہ نہ دی نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی گئی اور یہ
جرائم دن با دن بڑھتے ہی چلے گئے ایک ختم نہ ہونے والا سلسلا چل نکلا جس کا
نتجہ آج ہر نیوز پیپر میں عورت کے قتل کی صورت میں زینت بنا ہوا نظر آتا ہے
۔
اور تو اور پچھلے دنوں ایک گاوں میں جانا ہوا ۔وہاں کچھ لوگوں کے گھر ہم کو
ٹھرانا تھا ۔ان کے بچیوں سے بات چیت ہوئی تو میں پوچھا آپ کس کلاس میں
پڑھتی ہیں ۔اس معصوم بچی نے جو جواب دیا میں سن کے دھنگ رہ گئی ــــ’’ آپی
ہمارے ہاں جو لڑکی تعلیم حاصل کرلیتی ہے اس کو بری نظروں سے دیکھا جاتا ہے
اسے کوئی اچھا نہیں سمجھتا ہے ۔وہ آوارہ لڑکی تصور کی جاتی ہے اس کی شادی
بھی کہیں نہیں ہوتی ہے ۔کیونکہ وہ بدکار لڑکی ہوتی ہے جو ہزاروں لوگوں کے
پاس بیٹھ کے روز گھر آتی ہے اور اپنی زبان کو دراز کرنے جاتی ہے تاکہ وہ
اپنے بھائیوں اور باپ کے سامنے بول سکے۔
میں یہ سب سننے کے بعد کچھ بول نہ سکی۔ایک دم سے گھٹن محسوس ہونے لگی رات
وہاں رکنے کی بجائے اسی دن اپنے گھر کو راہ لی ۔۔۔۔
آج ضروت ہے اس امر کی کے ان فرسودہ رسومات کے خلاف اقدامات کئے جائے ۔
سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں نے گھریلو تشدد کے خلاف بل بھی پاس کیے مگر
افسوس یہ ہے کہ عملدرآمد کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے
جمہوریت ہونے کے باوجود عورتوں کی حالت میں بہت بہتری نہیں آئی ہے۔‘
موجودہ پارلیمینٹ نے وجود میں آنے سے لے کر اب تک خواتین کے بارے میں کوئی
قابل ذکر قانون سازی نہیں کی ہے اور اب بھی بہت سے ایسے سنگین مسائل ہیں جن
پر پارلیمینٹ نے توجہ نہیں دی ہے۔۔
حالیہ برسوں میں معیشت زیادہ بگڑی ہے، غربت بڑھی ہے اور دہشتگردی میں اضافہ
ہوا ہے تو اس کے عورتوں پر بہت زیادہ منفی اثرات پڑے ہیں۔
’عورتوں کی زندگی کے حالات جو ہوتے ہیں وہ ملک کے وسیع تر سماجی اور معاشی
ڈھانچے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں تو جس طرح آپ نے دیکھا کہ حالیہ برسوں میں
معیشت زیادہ بگڑی ہے، غربت بڑھی ہے اور دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے تو اس کے
عورتوں پر بہت زیادہ منفی اثرات پڑے ہیں۔‘
پاکستان کے موجودہ حالات میں کئی علاقوں میں محنت کش خواتین کے لیے گھروں
سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔
’آپ دیکھیں کہ قبائلی علاقوں میں اب غیرسرکاری تنظیموں کو کام کرنے کی
اجازت نہیں جس کی وجہ سے وہاں صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں خواتین اب کام
نہیں کر پا رہیں۔ اسی طرح سے خیبر پختونخوا این جی او کے کارکنوں کے قتل
اور اغوا کے واقعات ہوئے۔ کراچی میں بھی اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی پروین
رحمن کا قتل ہوا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز پر حملے ہوئے تو عامل خواتین کے لیے تو
حالات بہت ہی زیادہ بگڑے ہیں۔‘
ایک دفعہ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی تو انہوں نے پہلی بار اعلی عدلیہ
میں عورتوں کی تقرریاں کیں مگر اس وقت اعلی عدالتوں میں عورتوں کی نمائندگی
نہیں ہے تو حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس سے عورتوں کے حالات
میں میرے خیال میں کافی فرق پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو انصاف کے حصول میں دشواری کی ایک وجہ پاکستان
میں عدلیہ کا ادارہ بڑی حد تک مردوں تک محدود ہونا بھی ہے
’جو اقلیتیں پاکستان میں رہتی ہیں۔ ان کی خواتین کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔
سماج کے جتنے بھی شعبے اور ادارے ہیں، ان میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے
برابر ہے۔ ویسے بھی اس وقت پاکستان کا جو سماجی اور ثقافتی منظر ہے، اس میں
اقلیتیں پورے ملک میں تنہا محسوس کرتی ہیں، خاص طور پر خواتین۔‘ |