ہمیشہ سے پاکستان اور
انڈیا کا میچ چا ہے وہ کسی بھی فارمیٹ میں ہو تو جہ کا مرکز رہا ہے۔ دنیا
کھیل کے شیدائی لو گ پاکستان اور انڈیا کے مابین میچ کا شدت سے انتظا ر کر
تے ہیں اور وقت سے پہلے ہی ٹکٹ تقسیم ہو جا تے ہیں۔ جو ں جو ں میچ قریب ہو
تا جا تا ہے انتظا ر کی گھڑیا ں بھی بے قابو ہو تی جا تی ہیں ۔ کیو نکہ
مقابلہ بہت کا نٹے دار دیکھنے کو ملتا ہے۔ شائقین میچ کا یک لمحہ بھی ضا ئع
نہیں کر نا چا ہتے، کچھ ایسی ہی صورتحا ل پاکستان کے اندر کچھ دنو ں پہلے
بنی ہو ئی تھی، لوگوں کا اشتیاق حد سے زیادہ بڑھا ہو ا تھا ، انتظا ر بھی
تھا ، NA-122 لا ہور سے دو ہزار تیراہ کے انتخابات میں ایا ز صادق جیتے اور
سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے سے نو ازے گئے، بعد میں عمران خان نے جنا ب
سپیکر ایا ز صادق کے صداقت پر شک کر تے ہو ئے دھا ندلی کی درخو است دی جو
منظو ر ہو ئی اور ایا زصا دق صا حب چھ ، سات ہفتے پہلے اپنی بڑی شان والی ،
کرسی سے ہٹا کر معزول کر دئیے گئے ، اور ری الیکشن کا حکم ہو ا ۔ صورتحال
با لکل پاکستان اور انڈیا کے میچ جیسی ہی تھی، پی ٹی ائی کے شیدا ئی صبح
اٹھ بجے سے ٹی وی کے سامنے بیٹھے گئے اور تقریبا چو دہ گنٹھے بیٹھے رہے ،
شام اٹھ بجے نتائج دیکھ کر ایک ایک کر کے ایسے اٹھنے لگے جیسے چھ اوورز میں
ستر رنز درکار ہو اور آفریدی ایک آسمان کو چھو تا ہو شاٹ مار کر بو نڈری پر
کیچ اوٹ ہو اور دوسری طرف نان سٹرائک اینڈ پر مسٹر ٹک ٹک مصبا ح الحق کھڑے
ہو ۔ پی ٹی ئی کے سپو رٹر ایسی ہی نا امیدی کی صو رتحال میں ما یو س لو ٹنے
لگے۔
NA-122 کی صورتحال ٹٹو لنے کے لیئے ہمیں 13 سال پیچھے جا نا ہو گا۔ اور
آخری مرتبہ کئے گئے تین الیکشن کی صورتحال کا جا ئزہ لیتے ہیں۔ NA-122 ایک
طرح سے ایا ز صا دق کا گھر ہے جس سے NA-122 یا ز صادق تین مرتبہ مسلسل جیت
چکا ہے۔ جسے کرکٹ کی زبان میں ہیٹ ٹرک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
الیکشن 2002میں ایا ز صا دق صا حب کو پڑھنے والے وٹ کی تعداد تقریبا 38000
تھی۔۔۔۔ اور اس کے مقابلے میں پی ٹی ائے کے عمران خان صا حب کو ا19000ووٹ
پڑے۔
الیکشن 2008 NA-122۱ کی کمان دوبارہ ایاز صادق کی ہاتھ میں تھما دی
گئی۔۔۔الیکش دو ہزار اٹھ میں ایا ز صادق ن لیگ سے لڑے 79000لیکر واضح ترین
مارجن سے کا میاب ہو ئے۔ اسکے مقابلے میں پی پی پی پی کے امیدوار میاں عمر
مصبا ح الرحمان تھے جس کے حق میں صرف چو بیس ہزار ووٹ ہی پڑے۔
الیکشن 2013 میں جیت کر مسلسل تین بار جیت گئے۔۔۔۔ایا ز صادق صا حب کو
پڑنھے والے ووٹ کی تعداد93000ہزار تھی اسکے مقابلے میں پی ٹی ائی کے چئیر
میں عمران خان تھے جسے 84000ہزار ووٹ پڑے۔
الیکشن دو ہزار تیراہ کے نتائج پر عمران کان صا حب نے ایا ز صادق کی صد اقت
پر شک کر تے ہو ئے سپریم کو رٹ سے رجو ع کیا اور سپریم کو رٹ نے دوبارہ
الیکشن کا حکم دیا۔ 11 اکتوبر کو سخت ترین مقابلہ ہو ااور ایا ز صادق صاحب
بہت ہی کم ما رجن سے فتح یا ب ہو ئے۔ اور 2000 ووٹ سے جیت گئے۔
ایک ایسا شخص جو اپنے حلقے سے مسلسل تین مرتبہ جیت رہا ہوں اور بہت واضح
مارجن سے جیت کو گلے لگا رہا ہو۔ اس دوران اس کا اس حالت میں نہا یت ہی کم
ما رجن سے جیتنا جیت نہیں کہلا یا جا سکتا۔ جیت ایا ز صادق صا حب کی پکی
تھی مگر اتنی کم اور تھوڑی مارجن کے ساتھ نہیں۔ کم از کم اسے پندرہ ہزار
ووٹ سے جیتنا ضروری تھا،
ری الیکشن مسلم لیگ ن کے لیئے انا کا مسئلہ تھا کیو نکی ایک چنا گیا سپیکر
کی جو اسمبلی کی بو لتی بند کر اسکتا ہے الیکشن کمیشن نے اسکی بو لتی بند
کر کے اسے کر سی ہٹا دیا گیا تھا ۔ اور تا حال یہ کر سی خالی ہی تھی۔۔۔
NA-122 پی ٹی ائی کے لیئیے صرف ایک فتح کی حیثیت رکھتی تھی۔ جیت اور ہار سے
ان پر کو ئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ بہر حال کپتان کا کھیلا ڑی بہت ہی اچھا
کھیلا ۔ جیت جس کی بھی ہو اب ہمیں منظو ر ہے ، کیو نکہ ایک شفاف طریقے سے
چنا و ہو گیا۔ جنا ب سپیکر کر سی اپ کی منتظر ہے۔ جس کا سارا کریڈٹ بلا شبہ
عمران خان صا حب کو جاتا ہے جس نے تا ریخ بدل ڈالی۔ با قی فتح اور شکست تو
ایک کو ہو نی ہی تھی، لیکن مجھے افسو س ہے کہ ہم سسٹم میں چینج کے راہ میں
کیو ں رکا وٹ بن رہے ہیں۔ جب ہمارے ب NA-122کے بھا ئیوں کو پنے مسائل سے
ایک مرتبہ پھر چھٹکارے پانے کا مو قع تھا تو دو بارہ اس امیدوار کو لے ائے
جس کی حکومت میں دو ماہ پہلے گدھے کی گو شت کی فروخت کی خبریں آرہی تھی ،
بلکہ کھلا ئی بھی گئی تھی۔ جب گدھے کے گو شت سے جان چھو ڑانے کا وقت آگیا
تھا تو ایسے میں پھر وہی امیدوار۔۔۔؟؟؟؟؟شاید گدھے کے گو شت میں کچھ مٹھا س
تو ہو گی جھبی تو دوبارہ اعتماد کیا گیا ہے۔ |