سرینگر ہائیکورٹ کا فیصلہ اور کشمیر میں رائے شماری!

 سرینگر میں قائم بھارت کی کشمیر ہائیکورٹ نے9اکتوبر2015 ء کو ایک فیصلے میں کہا کہ ریاست کشمیر کا بھارت سے الحاق ہوا ہے،ریاست بھارت میں ضم نہیں ہوئی ،دفعہ370بھارتی آئین کا مستقل حصہ ہے جس میں ترمیم یا اس کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔تحریک آزادی کشمیر اور کشمیریوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں اور پاکستان میں کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی دفعات کی حمایت یا مخالفت میں نہیں پڑنا چاہئے ۔تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ اس معاملے پر کوئی رائے قائم کرنے کے بجائے اس کے مختلف پہلوؤں کا بغورمطالعہ کیا جائے۔جسٹس حسنین مسعودی اور جسٹس جنک راج کوتوال پر مشتمل ڈویژن بنچ کے 60صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ الحاق کے دوران جموں وکشمیر نے محدود طرز کی خودمختاری حاصل کی اور بھارت کے ساتھ دوسری ریاستوں کی طرح مکمل انضمام نہیں کیا اور ریاست اپنی محدود طرز کی خودمختاری کے تحت اپنی مخصوص حیثیت سے مستفید ہورہی ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارتی صدر کو دفعہ370شق 1کے تحت آئین کی اس دفعہ میں حذف و اضافہ کرنے کا اختیار حاصل ہے تاہم اسکے لئے ’’ریاستی حکومت‘‘ کے ساتھ مشاورت ضروری ہے اور اس دفعہ میں کسی حذف واضافے کی گنجائش اسی صورت میں جائز ہے اگر آئین میں ہی اسکے حذف و اضافے کیلئے قواعد وضع ہوں۔بھارت اور ریاست کشمیر کے درمیان آئینی فریم ورک کی وضاحت دفعہ370کی جڑوں میں دستاویز الحاق کے پیرا 4اور7میں موجود ہے۔ڈویژن بنچ نے کہاکہ دفعہ370کی اصطلاح میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کااختیار ریاست پر دستاویزالحا ق کی رو سے تین موضوعات پر ہی محدود ہیں جن میں دفاع ،امورخارجہ اور مواصلات شامل ہیں۔صدر ریاستی حکومت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے دیگر کئی قانونی شقوں کو نافذ کر سکتا ہے ۔دفعہ 370کی شق3کے تحت ریاستی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ صد کو یہ سفارش پیش کرے کہ وہ اس دفعہ کے اطلاق کو روکیں یا اس کے بعض حصے کو ناقابل اطلاق قرار دیں ۔ڈویژن بنچ نے کہاکہ چونکہ ایوان اسمبلی نے 1957میں تحلیل ہونے سے قبل دفعہ370کی تنسیخ یا ترمیم کے حوالے سے کوئی بھی ایسی سفارش پیش نہیں کی لہذا یہ دفعہ آئین کا ایک مستقل حصہ بن گئی ۔

اسی دوران ہندو انتہا پسند تنظیم ’’ راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ کی ایک ذیلی تنظیم نے آئینی دفعہ 35 A کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک اپیل کی ہے۔ دفعہ ( 35A )آئین ہند کی دفعہ 370کی شق (1) کے تحت ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے 14اگست 1954 سے نا فذالعمل ہے۔ ۔آئین کی اِس دفعہ میں ریاست جموں و کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد رکھنے اور کام کاج کا حق ریاست کے مستقل باشندوں کیلئے محفوظ ہے ۔اِس مقدمے کی سماعت آئندہ ماہ ہونی ہے ۔ A 35 ریاست جموں و کشمیر کی بھارت سے الگ خصوصی حیثیت سے متعلق ہے اور یہ باشندہ ریاست جموں و کشمیر کے علاوہ غیر ریاستی افراد کے ریاست میں زمین،جائیداد خریدنے اور وہاں کام کرنے کی ممانعت سے متعلق ہے۔یعنی باشندہ ریاست جموں و کشمیر کا سرٹیفیکیٹ نہ رکھنے والا شخص ریاست کشمیر میں کشمیر کے عام شہری کی طرح حقوق نہیں رکھتا۔گزشتہ سال مقبوضہ جموں و کشمیر ریاست کے الیکشن کے موقع پر ’بھارتیہ جنتا پارٹی ‘ کی طرف سے بھارتی آئین کی مقبوضہ ریاست سے متعلق خصوصی حیثیت کی دفعہ370کو ختم کرنے کا انتخابی نعرہ سامنے آیا اوراس کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں سخت عوامی ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔اس وقت آزاد کشمیر کے حکمرانوں کی طرف سے بھارتی آئین کی دفعہ370کو ختم نہ کرنے سے متعلق بیانات بھی سامنے آئے ۔اب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ہائیکورٹ نے دفعہ370سے متعلق ایک فیصلہ دیا ہے۔یہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ’ڈیموگرافک‘ تبدیلی لانے کے منصوبے کے ایک تسلسل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے کہ 47ء کے وقت پاکستانی علاقوں سے بھارت جانے والے ہندوؤں ،سابق فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں آباد کیا جائے، مقبوضہ کشمیر میں چند بڑی صنعتیں لگاتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں بھارت سے ہندوؤں کو ان میں لگایا جائے اور انہیں مقامی طور پر ہر طرح کے مکمل حقوق دیتے ہوئے ریاست کشمیر کی اکثریتی مسلم آباد ی کو اقلیت میں تبدیل کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لئے حل کر لیا جائے۔یوں بھارت مقبوضہ کشمیر میں فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کی منصوبہ بندی پر کام کر رہا ہے جس میں مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور مقبوضہ کشمیر میں ’ڈیموگرافک‘ تبدیلی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کی صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کے کے اقدامات کر رہا ہے۔

یہ بات طے ہے کہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ جابرابہ ہے ،اور اس قبضے کو بھارت کشمیر سے فرار ہونے والے مہاراجہ سے الحاق کی بنیاد پر بھارتی آئین کی کشمیر سے متعلق دفعات وغیرہ کے ذریعے کشمیر پر اپنے جابرانہ قبضے کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔بھارت نے مہاراجہ کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر سے کئے گئے نام نہاد الحاق کو بنیاد بنایا ،اس میں بھی ریاستی عوام کی مرضی کی بات کی گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی ایک نام نہاد اسمبلی کے ذریعے اس الحاق کی توثیق کرائی گئی اور بھارتی آئین میں دفعہ 370کے ذریعے ریاست کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتے ہوئے ریاستی اسمبلی کے فیصلے کو مدنظر رکھنے کی بات کی گئی ہے لیکن عملی طور پر ریاستی اسمبلی بھارت نواز نمائندوں کے باوجود تمام اہم معاملات میں بے اختیار ہے۔اسی تناظر میں1986کے الیکشن میں مسلم متحدہ محاذ نے الیکشن لڑا کہ وہ اسمبلی میں آ کر بھارت سے نام نہاد الحاق کو ختم کر دیں گے۔اقوام متحدہ نے یہ قرار دیا ہے کہ کشمیر اسمبلی کے الیکشن رائے شماری کا نعم البدل نہیں ہو سکتے،اور رائے شماری تک دونوں ملکوں سے ریاست میں عوام کے حق میں اچھے نظم و نسق کی بات کی گئی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہر معاملے میں یہ بات نمایاں ہے کہ رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کی آزادانہ رائے معلوم کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا حل بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تسلیم کیا ہے اور کشمیریوں سے بھی بھارت کا یہی دعدہ چلا آ رہا ہے لیکن عملی طور پر بھارت کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو جائز قرار دینے کے لئے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتا نظر آتا ہے۔ بھارتی عدالتیں بھی بھارت کے اس نظام کا حصہ ہے جو آزادی ،حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کو مسلسل طور پر ظلم و جبر کی بنیاد پر دبانے میں مصروف ہے۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ایک سرگرم کارکن خرم پرویز نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق نو سو سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ’’ Structures of Voilence‘‘ کی اسلام آباد میں تقریب رونمائی میں بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں عدالتیں بھی انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔انہوں نے کہا کہ وکلاء نے مقبوضہ کشمیر میں قائم بھارتی عدالتوں سے انصاف کے لئے بہت کوششیں کیں لیکن ہر بار،ہر معاملے میں انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔خرم پرویز نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی عدالتیں کشمیریوں کے خلاف بھارتی فورسز کی جابرانہ اور ظالمانہ کاروائیوں کو ’’ کور‘‘ فراہم کر رہی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے لندن میں مقیم معروف کشمیری شخصیت سید نزیر گیلانی ،جو جموں و کشمیرکونسل فار ہیومن رائٹس کے سیکرٹری جنرل اور ایک ماہر قانون بھی ہیں ،نے کشمیر ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے حوالے سے کہا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا پنا آئین ہے،اپنا جھنڈا ہے اور دفاع، مواصلات اور خارجہ امور بھارت کے پاس ہیں۔کشمیر اسمبلی کے دونوں ایوان میں بھی یہ قرار داد منظور ہوئی ہے کہ ریاست کشمیر بھارت میں ضم نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مارچ 1953 میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے دو ججز جانکی ناتھ اور شامیری کی طرف سے مگرسنگھ بمقابلہ پرنسپل سیکرٹری جموں وکشمیر حکومت کے مقدمے میں اور اب 10اکتوبر 2015ء کو کشمیر ہائی کورٹ کے دو رکنی ڈویژن بنچ نے ریاست جموں و کشمیر کی اندونی خود مختاری کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اپنے ایک نمائندہ کردار کو محفوظ بنانے، ریاست کشمیر کی اندرونی خود مختاری اور جموں و کشمیر کی حکومت کے لئے یہ دفعہ تخلیق کی تھی ۔کشمیر ہائیکورٹ کے اس فیصلے سے مسئلہ کشمیر کو خود بھارت کی طرف سے ہی مدد ملی ہے۔سید نزیر گیلانی نے کہا کہ ہندوستان نے کہا تھا کہ ریاستی حکومت با اختیار ہے کیونکہ اسی حکومت نے رائے شماری کرانی ہے اور اقوام متحدہ میں بھی یہ بات تسلیم شدہ ہے ۔کشمیر کے بھارت سے الحاق پر بھی اقوام متحدہ نے قرار دیا کہ سرینگر اسمبلی کو الحاق کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ اس لحاظ سے بھی نامکمل ہے کہ اس کو تما م ریاست پر اختیار حاصل نہیں ہے۔اقوام متحدہ نے کہا کہ ریاستی اسمبلی کو ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

سید نزیر گیلانی نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے بھارت کو چار نکاتی تجویز میں ایک اہم قدم طور پر ڈی ملٹرائزیشن کی تجویز دی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی ’ڈی ملٹرائزیشن ‘کی تجویز ایک خوش آئندا قدام ہے۔بھارت اور پاکستان کی ذمہ داری ہے کشمیر کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق ’رائے شماری‘ کے لئے ریاست سے فوجوں کو نکالا جائے۔کشمیر سے ڈی ملٹرائزیشن کی ایک قراردادسلامتی کونسل کے 611ویں اجلاس میں منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ بھارت اور پاکستان فوجیں نکالنے کی مدت سے آگاہ کریں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 70th اجلاس میں’ ڈی ملٹرائزیشن‘ کی پاکستانی تجویز پر پیش رفت کے لئے کشمیر کی حریت اور غیر حریت سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ انڈیا اور پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست سے فوجوں کو نکالیں اور عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں ۔ انہوں نے کہا کہ’ڈی ملٹرائزیشن‘ کے اس تجویز پرحریت نے ہمیشہ کی طرح اپنا کردار سیاسی بیان تک محدود رکھا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر کی حریت اور ’نان ‘حریت سیاسی جماعتیں معمول کی بیانات سے ہٹ کر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کریں ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری قیادت کو جماعتوں کی توڑ پھوڑ ، ایک سے کئی پارٹیاں بننے اور اختلاف رائے کے سلسلے کو ختم اور اتفاق قائم کرنا ہوگا ۔کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں ، عدالت عالیہ کے دونوں فیصلوں اور جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم پاکستان کی کشمیر سے فوجی انخلا کی تجویز کے بعد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے ۔ ابتدا ء میں لوگوں کی نارمل زندگی بحال کرنی چاہئے۔ انڈین آرمی کا احتساب اور پوچھ گچھ کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ مطالبہ اور مسئلہ ہونا چاہئے ۔کشمیر کی تمام جماعتوں کو اس بات پر اتفاق رائے قائم کرنا چاہئے کہ کشمیر کا ادغام انڈیا میں نہیں ہوا اور کشمیر کا آخری فیصلہ کشمیریوں کی رائے دہی تک اقوام متحدہ میں معلق ہے ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر سے ’ڈی ملٹرائزیشن ‘کے لئے مختلف ملکوں کی حمایت حاصل کرنے پرتوجہ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے مسئلہ کشمیر کے حل میں دو طرفہ مصروفیت کی حدود کی وضاحت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ نے5 دسمبر1952ء کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ ہم فریقین کے درمیان مسئلہ کے حل کے کسی بھی سمجھوتے کا خیر مقدم کریں گے اگر وہ اقوام متحدہ کے بنیادی چارٹر کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ اس لئے انڈیا کی اقوام متحدہ کی توجہ مسئلہ کشمیر ہٹانے کی تمام کوششیں بیکار ہیں ۔ کسی بھی دوطرفہ حل کی تجویز کا اقوام متحدہ کے چارٹر سے مطابقت کھنا ضروری ہے ۔ سید نزیر گیلانی نے کہا کہ اب وقت ہے کہ کشمیری پاکستان کو’’انوالو‘‘کریں،مسئلہ کشمیر میں چین کی دلچسپی کے دوبارہ احیاء کی کوشش کریں جو اس نے 18مارچ 1948ء کو آرٹیکل آف سیٹلمنٹ میں اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا تھا۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن ڈاکٹر آفتاب حسین کا کہنا ہے کہ بھارت کے لئے الحاق دفعہ370کا موجب بنا اور آج نوبت عدلیہ میں جا کر اس سے چھیڑ خانی تک پہنچی ہے ۔مہاراجہ کی طرف سے 26 اکتوبر 1947کو بھارت سے غیر مشروط الحاق کرنے کی پوری کوشش کی گئی ۔ لیکن بھارت (ڈومینین)کے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے اسے ریاست کشمیر کے عوام کی رائے سے مشروط کر دیا کہ ریاست کے مستقبل کا حتمی فیصلہ عوام کریں گے۔بیٹن کی جانب سے اس کو مشروط کرنے کی دو بڑی وجوہات تھیں،ایک یہ کہ،قانون آزادی ہند جو برطانیہ کا بنایا ہوا تھا اور بیٹن اپنے ہی ملک کے قانون کے خلاف ہر گز نہیں جاسکتا تھا اوریہ کہ 1947کی انقلابی حکومت جس نے جمہوریہ کشمیر قائم کرکے مہاراجہ ہری سنگھ کو معزول کردیا تھا ۔اور اس کا پرچار دنیا بھر کے اخبارات میں ہوچکا تھا اب مہاراجہ چونکہ الحاق کرنے کا قانونی مجاز ہی نہ تھا اس لئے اسے عوام کی رائے سے مشروط ہوناقبول کیا گیا ۔
 
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 615843 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More