تحریر و ترجمہ: کرن ناز
ہم یمن کے بچے ہیں ۔ آپ شایہ ہمارے نام بھی نہیں جانتے جیسے کہ ترکی کے
ساحل سے ملنے والا تین سالہ بے جان شامی بچہ ایلان کردی یا اٹھارہ ماہ کا
فلسطینی علی سعد دوابشے جو آدھی رات کے دوران اسرائیلیوں کی لگائی گئی آگ
سے اپنے گھر میں جل کر جانبحق ہوگیا تھا ۔ شاید آپ کو یہ بھی معلوم نہ ہو
کہ یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق ہم میں سے اوسط آٹھ ہر روز سعودی
جارحیت کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن پھر بھی آپ
ہمارے بارے میں میڈیا پر کوئی خبر شاذو نادر ہی دیکھتے ہوں گے ۔ حقیقت یہ
ہے کہ آپ وہاں اس وقت ہمارا خط پڑھ رہے ہیں اور یہاں ہم مر رہے ہیں ۔
یہ دنیا ہمیں کیوں بھولی ہوئی ہے ؟ ہمارے لئے کسی قسم کی سوشل میڈیا مہم
کیوں نہیں چلائی جارہی ؟ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی چپ سادھے ہوئے ہیں ۔
کوئی مارچ یا ریلی ہم سے اظہار یکجہتی کیلئے نکالی گئی، نہ ہی سفارتخانوں
کے باہر کوئی مظاہرہ کیا گیا ۔نہ لوگوں کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا
گیا جیسا کہ گزشتہ موسم گرما میں فلسطینی بچوں پر بمباری کے دوران دیکھنے
میں آیا ۔
میڈیا کوریج کی کمی کے باعث آپکو یقیناٌ یہ بھی پتا نہیں ہوگا کہ یمن میں
کیا ہورہا ہے اور ہم پر کون بمباری کررہا ہے ۔ عرب مسلم ممالک کا اتحاد
سعودی عرب کی سربراہی میں ہم کو بمباری کا نشان بنا رہا ہے جس کو اسرائیل
سمیت دیگر صیہونی طاقتوں کی معاونت بھی حاصل ہے ۔ گزشتہ کئی مہینے مختلف
ممالک کے مسلمان سعودی سفارتخانوں کے چکر کاٹتے نظر آئے لیکن ہمارے لئے
کوئی احتجاج نہیں کیا گیا ۔ لاکھوں مسلمانوں نے ان دو مہینوں میں سعودی عرب
کا سفر کیا اور اس المیے سے قطعی لاتعلق بنے رہے جو اس کے پڑوسی ملک میں ہم
پر گز رہا ہے ۔ کچھ لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی چودہ سو سال سے
زائد عرصے سے جاری روایت میں حصہ لینے میں خرچ کردی ۔ ان کے نزدیک اسلام کے
پانچویں ستون یعنی حج کی ادائیگی ہی کافی ہے ۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار
نہیں کہ حج کے باعث شاہی خاندان کے اس خزانے میں بلین ڈالرز کا اضافہ ہوگیا
ہے جو پہلے ہی اوور فلو کررہا ہے ۔ ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ یہ بلین
ڈالرز ہمارے ملک ، ہمارے اسکولوں اور اسپتالوں پر کی جانے والی بمباری کو
جاری رکھنے کیلئے ایک معاونت کے سوا کچھ نہیں ۔
ہماری ناقابل توجہ اموات اور فلسطینی بچوں کی اموات پر رد عمل کے درمیان
فرق کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟ حج؟ گزشتہ موسم گرما میں جب 495 بچے لقمہ اجل
بنے تب سب نے اسے ایک بڑا نقصان جانا کیونکہ فلسطینی بالآخر ہمارے دینی
بھائی ہیں ، لیکن ہمارے معاملے پر مسلم امہ کی کان پھاڑ دینے والی خاموشی
کہیں اس لئے تو نہیں کہ اس بار حملہ آور کوئی یہودی نہیں بلکہ اپنے مسلمان
ہیں ؟ مسلم امہ نے اسرائیلی حملے اور فلسطینیو ں کی ہلاکتوں پر بھرپور
ردعمل کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی ، #PrayforGaza اور
#GazaUnderAttack جیسے hashtagsاستعمال کرکے دنیا کی توجہ اسرائیلی مظالم
اور فلسطینیوں کی حالت زار کی جانب مبذول کرائی گئی ۔ منہدم عمارتوں ، ملبے
تلے دبے بچوں اور لاشوں کی تصویریں بڑی تعداد میں شئیر کیں جبکہ اسرائیلی
مصنوعات کا بھی بائیکاٹ کیا گیا ، مگر اب ؟
سعودی اتحادیوں کے حملے میں ہزاروں یمنی شہری جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں ہم
بچوں کی تعداد ہزار سے بھی زائد ہے ۔صرف اپنے حوثی دشمنوں کو نقصان پہنچانے
اور مقبوضہ علاقوں کی بازیابی کیلئے انہوں نے ہمارا انفرا اسٹرکچر تباہ
کرکے امداد پہنچنے کے سارے راستے بھی مسدود کردئیے ہیں ۔ امدادی سامان کی
ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے صنعاء میں ہمارا اسپتال جو این جی او 'سیو دا
چلڈرن' کے تعاون سے چل رہا ہے ، بند ہونے کے قریب ہے ، وہ بھی ایسے وقت میں
جب ہمیں اس کی اشد ضرورت ہے ۔ اگرآپ سعودی عرب کے ظلم و ستم پر اس کا
بائیکاٹ نہیں کرسکتے تو کم از کم گزشتہ موسم گرما کی طرح بیداری کی ایک
تحریک ہی چلادیں اور فریقین پر زور دیں کہ اس جنگ کو جلد از جلد کسی فیصلہ
کن انجام تک لایا جائے اور عام شہریوں اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بنایا
جائے ۔
صنعاء میں سعودی فضائی حملوں میں تباہ شدہ گھروں کی ایک تصویر #PrayforGaza
کے hashtag کے ساتھ انٹرنیٹ پر شئیر کی گئی جو دو گھنٹوں میں پوری دنیا میں
پھیل گئی ، جبکہ اسی تصویر کو اصل حقیقت کے ساتھ نظر انداز کیا گیا ۔ یہ
تصویر نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون میں بھی شائع کی گئی تھی ۔ یمن و فلسطین
کے معاملے پر اس دوہرے معیار کی وجہ کیا ہے اور مسلم امہ کیوں آپس میں دست
و گریباں ہے ؟ شاید اس منافقانہ روئیے کی وجہ یہ ہے کہ ہم یمنی، مسلمانوں
کے اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اکثریت میں نہیں ہے ۔ اسلام کا مطلب تو
امن اور سلامتی ہے ، یہ بڑے لوگ آخر کیوں نہیں سمجھتے ؟
ہمیں یقین ہے کہ عالم اسلام ہمارے لئے کچھ نہیں بولے گا اور نہ ہی ہماری
مسخ لاشوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر جاری کی جائیں گی کیونکہ یمن پر سعودی
جارحیت کو تسلیم کرنے کا مطلب اس فرقہ وارانہ رنجش کو تسلیم کرنا ہے جو کہ
مسلمانوں کے درمیان اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود حج کی روایت ۔۔ ایرانی حمایت
یافتہ حوثیوں اور سنی عرب ممالک کے درمیان یہ تنازعہ کیوں جاری ہے ، ہمیں
اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ جب بھی سعودی اتحادیوں
کے جیٹ طیارے ہم پر بمباری کرتے ہوئے گزرتے ہیں تو ہمارے ننھے ننھے دل
سینوں میں دہل جاتے ہیں ، ہم ڈر کے مارے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر اِدھر
سے ادھر بھاگتے ہیں اور ہم میں سے کئی ان میزائل حملوں کا نشانہ بن کر اس
خوف سے ہمیشہ کیلئے نجات پا جاتے ہیں ۔ ہمیں اس دن کا انتظار ہے جب یہ دنیا
بالخصوص مسلم امہ ہمیں اپنا سمجھ کر ہمارے لئے آوازٹھائے گی ۔ سعودی عرب کی
جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ہر مصلحت سے آزاد ہو کر بات کرے
گی ، ہم منتظر ہیں اس دن کے جب یہ امت مسلک کے چکروں سے نکل کر صرف انسانیت
کے لئے سوچے گی اور #prayforYemen اور #YemenUnderAttack کے ہیش ٹیگ کے
ساتھ ہمارے تحفظ کیلئے بھی مہم چلائے گی ۔ یاد رکھیے ظلم پر خاموش رہنا ،
ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے ۔
یہ ایک انگریزی آرٹیکل تھا جسے میں نے اپنے انداز میں تحریر کیا ہے ۔ امید
ہے اس سوئی ہوئی قوم کو جگانے کیلئے میری چھوٹی سی کاوش کارگر ثابت ہوگی
کیونکہ گھٹا ٹوپ اندھیرے کو شکست دینے کیلئے معمولی سی روشنی بھی کافی ہے ۔
|