حقیقت میلاد النبی - چونسٹھواں حصہ

2۔ تاریخی پہلو (Historical aspect):-

سلاطینِ اسلام بھی سرکاری سطح پر جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔ اس میں سب سے نمایاں نام ابو سعید المظفر (م 630ھ) کا ہے جو سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ) کے بہنوئی تھے۔ ان کے تفصیلی اَحوال شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ) نے اپنی کتاب ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ میں رقم کیے ہیں۔ مزید برآں شیخ ابو مظفر یوسف (م 654ھ)۔ جو سبطِ ابن جوزی کے نام سے معروف ہیں۔ نے اپنی کتاب ’’مرآۃ الزمان فی تاریخ الاعیان‘‘ میں سلطان کے حوالہ سے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاہی اِہتمام کی تفصیلات و جزئیات نقل کی ہیں۔

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو نعمتوں پر شکر بجا لانے کا حکم صرف اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو نہیں بلکہ سابقہ اُمتوں کو بھی دیا جاتا رہا۔ قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کی طرف رُوئے خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا :

يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَO

’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دیo‘‘

البقرة، 2 : 47

اس امر کی مزید تائید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دعا سے ہوتی ہے جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں تفصیل سے ہو چکا ہے۔

2۔ قرآن حکیم میں حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی بشارت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے :

يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلاَمٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّاO

’’(ارشاد ہوا : ) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ (علیہ السلام) ہوگا ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایاo‘‘

مريم، 19 : 7

3۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے :

إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَO

’’جب فرشتوں نے کہا : اے مریم! بے شک اﷲ تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمہ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا، وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہوگا اور اﷲ کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہو گاo‘‘

آل عمران، 3 : 45

تاریخ کے آئینے میں سابقہ اور موجودہ اَقوام کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ایک ناقابلِ تردید حقیقت نظر آتی ہے کہ ہر دور کے لوگ اپنے مشاہیر کے اَیام بڑی دھوم دھام سے ایک جشن کی صورت میں مناتے چلے آئے ہیں۔ آج بھی اقوامِ عالم اپنے قومی و روحانی پیشواؤں اور بانیانِ مملکت کا یومِ ولادت سرکاری سطح پر مناتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر سال 23 مارچ، 14 اگست، 9 نومبر اور 25 دسمبر کے دن بالترتیب یومِ جمہوریہ پاکستان، یومِ آزادی، یومِ اِقبال اور یوم قائد اعظم کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ علیٰ ھذا القیاس عرب اور دیگر اَقوامِ عالم اپنے بادشاہوں اور قومی سطح کے رہنماؤں کی یاد ہر سال باقاعدگی سے مناتی ہیں، بلکہ عرب ممالک میں تو حکمرانوں کی تاج پوشی کا دن العید الوطنی کے نام سے معروف ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت بھی ایک ایسا ہی عظیم دن ہے جس پر اِظہارِ تشکر اور اِظہارِ مسرت ہوتا آرہا ہے اور اسے یوم عید کے طور پر منانے کی روایت قائم ہے، اور اس کی اصل قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اس پر اعتراض کی وجوہات کا تعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس کے حوالہ سے بعض لوگوں کی مخصوص قلبی کیفیت سے ہے، ورنہ ان خوشیوں کی تقریبات پر کوئی اِعتراض سراسر بلاجواز ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری دنیائے انسانیت کے لیے ایک ایسا انقلاب لے کر آئے جس کی عالم گیریت اور آفاقیت پر کبھی دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکاروں نے اپنے عظیم ہادی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیر فانی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انسانی تہذیب و تمدن کے ایسے مینار روشن کیے اور ہمہ گیر معاشی و معاشرتی ترقی کی وہ مثالیں قائم کیں جس کی نظیر پوری تاریخِ عالم پیش نہیں کر سکتی۔ اِس لیے اُمتِ مسلمہ پر بہ درجۂ اَولیٰ لازم ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مبارک منانے میں اَقوامِ عالم میں کسی سے پیچھے نہ رہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا عظیم ترین دن اس طرح منائیں کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کی تفسیر عملی طور پر نظر آنے لگے :

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اِسمِ محمد سے اُجالا کر دے

اِقبال، کليات (اُردو)، بالِ جبريل : 207

3۔ ثقافتی پہلو (Cultural aspect):-

زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک حیاتِ انسانی کے تمام شعبوں میں طرزِ بود و باش، معاشرتی میل جول اور خوشی و غم کے جذبات و اِحساسات کے پیرایۂ اِظہار کے اَطوار بدلتے چلے آرہے ہیں۔ ہر قوم کی اپنی ثقافت ہوتی ہے جو اس قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ ہر قوم خوشی کا اظہار زمانے کے تقاضوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی ثقافت کے مطابق کرتی چلی آئی ہے اور مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ہر قوم کے رسوم و رواج اور ثقافت میں تغیر آتا رہا ہے۔ یہی صورتِ حال فرزندانِ اِسلام کی رہی ہے۔ قرونِ اُولیٰ میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق رسوم و رواج مزاجاً سادہ تھے، لہٰذا ان کے خوشی منانے کے طریقے بھی سادہ ہوتے تھے۔ مگر جیسے جیسے زمانے میں تبدیلیاں رُونما ہوتی چلی گئیں اسی طرح ان کی ثقافت بھی تبدیل ہوتی رہی۔ پہلے سادگی کا عنصر نمایاں تھا اور ثقافتی اظہار خاموشی سے کیا جاتا تھا مگر موجودہ دور میں اِظہارِ ثقافت کی شکلیں زیادہ سے زیادہ نمود و نمائش کا رُخ اختیار کر گئی ہیں۔ اگر ہم اس تغیر کی وجوہات کا تجزیہ کریں تو شہری آبادیوں میں بے پناہ اِضافہ، تفریحی تقریبات کی اَشد ضرورت، انسانی زندگی میں الیکٹرانک میڈیا کا مرکزی کردار، جدید ایجادات، وسائل اور زندگی کی ہر طرح کی تقریبات کے عمومی حجم میں بے پناہ اضافہ کا رُجحان عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی بھرپور تقریبات کی magnificence اور large scale celebrations کے نمایاں اَسباب ہیں۔

اِن حقائق کے ہماری عملی زندگی پر بھرپور اِطلاق کی ایک مثال ہر سال منائی جانے والی ’’بسنت‘‘ ہے جسے حکومتی سطح پر منعقد ہونے والے ’’جشنِ بہاراں‘‘ کی تقریبات کا حصہ بنا دیا گیا ہے، اور اِس بابت عدالتِ عالیہ و عدالتِ عظمیٰ کے اَحکامات بھی نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ اس کی تیاریاں ہفتوں پہلے شروع ہو جاتی ہیں، اربوں روپے کی پتنگیں اور ڈور بکتی ہے۔ کروڑوں روپے روشنیوں اور طرح طرح کے کھانوں کے انتظامات پر صرف کیے جاتے ہیں۔ صرف بسنت منانے کے لیے دنیا کے ہر کونے سے لوگ ہر سال لاہور آتے ہیں؛ کسی ایئر لائن پر سیٹ ملتی ہے، نہ ٹرین یا فلائنگ کوچز پر بکنگ ہوتی ہے۔ ’’بسنت‘‘ کی تقریبات کا جتنا پھیلاؤ ہے اتنے ہی اس کے اندر عیوب و خبائث پنہاں ہیں۔ سب سے نمایاں معصوم جانوں کا وہ نقصان ہے جو دھاتی ڈور یا چھتوں سے گر کر مرنے سے ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ اَربوں روپے کا ضیاع ہوتا ہے اور مرد و زن کی مخلوط محافل میں بے حیائی، فحاشی اور لچر پن کا طوفانِ بدتمیزی الگ بپا کیا جاتا ہے۔ اور اِن تمام خرافات و لغویات کو کلچر و ثقافت کا نام دیا جاتا ہے۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

اِسی کلچر کی دوسری مثال کی تفصیلات ہر سال یکم جنوری کے موقع پر اَخبارات میں چھپنے والی باتصویر رپورٹس سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ نیا عیسوی سال آنے پر Happy New Year کا تہوار قہر اِلٰہی کو دعوت دیتے ہوئے منایا جاتا ہے۔ تیسری مثال 14 فروری کو منایا جانے والا Valentine Day ہے، جسے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ’’یومِ عشق‘‘ کا نام دے کر نسلِ نو کو مغربی تہذیب کی پیروی کی طرف راغب کرتے ہوئے ہماری اِسلامی و مشرقی اَقدار کی پامالی کا سامان بہم پہنچایا جاتا ہے، اُنہیں بے حیائی کی تعلیم دی جاتی ہے اور مخلوط محافل کا اِہتمام کیا جاتا ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کی حکومت، قانون نافذ کرنے والے اِدارے اِس سیل بلا کا کیا سدباب کرتے ہیں؟

اِن دگرگوں حالات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد کے موقع پر رُوحانی محافل کا اہتمام ایک ایسا عمل ہے جو ہمارے قومی دھارے کو فروغِ ہدایت کی راہ پر ڈھالنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے، اور ان تقریبات کی تعلیمات اور برکات کی وجہ سے ہم ’’بسنت کلچر، ‘‘ ’’Happy New Year کلچر‘‘ اور ’’Valentine Day کلچر‘‘ جیسی لعنتوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اَفسوس اِس بات کا ہے کہ اگر حق پر مبنی ایک عقیدے کو مذہبی علوم سے بے خبر عوام کے سامنے مطعون کر کے پیش کیا جائے گا تو عامۃ الناس دین کے بارے میں واضح نظریات کے سرمائے سے محروم ہو جائیں گے، جس کا نتیجہ بے راہ روی اور بسنت کلچر ہی ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر پہلو سے اِسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے حکمت و ضرورت کے پیشِ نظر اُس کی تعلیمات کا اِطلاق و اِنطباق درست سمت میں کریں۔ تاریخِ اِسلام کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ ہجرتِ مدینہ، میثاقِ مدینہ، یومِ غزوہء بدر، یومِ فتحِ مکہ اور یومِ نزول قرآن اپنی جگہ بڑی اَہمیت کے حامل ہیں۔ ان اَیام نے تاریخ کے دھاروں کا رخ بدل ڈالا لیکن اس کے باوجود قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے ان مہتم بالشان واقعات اور عظیم ایام کو منانے کا کوئی اہتمام نہ فرمایا۔ وجہ یہ تھی کہ اُس دور کا یہ رواج اور کلچر نہیں تھا مگر موجودہ دور اپنے جلو میں نئے ثقافتی اور تہذیبی تقاضے لے کر آیا ہے۔ موجودہ عصری تہذیبی و ثقافتی پس منظر میں ہم نہ صرف ان ایام کو شان و شوکت سے مناتے ہیں بلکہ ان کے علاوہ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اور بہت سے تہواروں کو منانے کا اہتمام بھی پُرمسرت اَنداز سے کیا جاتا ہے، جیسے یومِ پاکستان، یومِ آزادی، یومِ دفاع، یومِ بانیء پاکستان، مزدوروں کا عالمی دن، خواتین کا عالمی دن وغیرہ۔

خلافتِ عثمانیہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن اِکیس (21) توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ اِسی طرح مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بلادِ یمن و شام میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی تزک و احتشام سے منایا جاتا تھا، آج حالات کے تقاضے یکسر بدل چکے ہیں، یوم آزادی اور دیگر اہم ایام کا منایا جانا ہماری ثقافتی زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہے؛ لہٰذا اسلامی ثقافت کی سب سے بڑی علامت (symbol) یعنی یومِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اصلِ ایمان ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات و اُسوہ پر عمل کے ساتھ ساتھ اِس محبت کا مؤثر ترین اِظہار جشنِ میلاد منا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ بڑی ستم ظریفی اور نا انصافی ہوگی کہ آج کے مسلمان حکمران اپنی تخت نشینی کا دن پورے جوش و خروش سے منائیں اور اس پر کسی حلقے کی طرف سے بدعت و شرک کا فتویٰ نہ لگے اور اسے ثقافت کے نام پر جائز سمجھا جائے، لیکن جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا دن منایا جائے تو فتویٰ فروشوں کی زبانیں اور قلم حرکت میں آ کر بدعت و شرک کے فتوے اگلنا شروع کر دیں۔

جاری ہے----
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103397 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.