حقائق تو یہ ہیں: زید حامد اور یوسف کذاب کی حقیقت

جب ہم زید زمان کے بارے میں بات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کے پیر و مرشد، جھوٹے نبی ابوالحسنین یوسف علی کذاب کے بارے میں کچھ آگاہی حاصل کریں کیوں کہ اس کے بغیر زید حامد کا کردار کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گا اور عام لوگوں کی تو بات ہی کیا ہے بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے، دین دار اور عاشق رسول اس کو نیک اور دیندار مسلمان سمجھتے ہیں بہر حال ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی کے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے اور ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم اگر کسی فتنے کو پہچانتے ہیں تو اس سے عوام کو جس حد ہوسکے آگاہ کریں۔ واضح رہے کہ ہم نے کبھی کسی عام فرد کے بارے میں کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ یہ فرد ملعون ہے یا لادین ہے بلکہ جو علماء کرام کی رائے تھی ہم نے اسی رائے کو اختیار کیا اور اسی کے مطابق بات کی ہے۔

یوسف علی فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں پیدا ہوا اس کے باپ کا نام وزیر علی تھا۔ یوسف علی پاک فوج کا کمیشنڈ آفیسر تھا کپتان کے عہدے پر اس فوج سے نکال دیا گیا تھا، فوج سے نکلنے کے بعد اس شخص نے ایم اے اسلامیات کیا اور ایران سے بھی دینی تعلیم حاصل کی۔ یوسف علی کی شادی طیبہ نامی خاتون سے ہوئی جو کہ گلبرگ گرلز کالج لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی۔ یوسف علی کئی سال تک جدہ میں مقیم رہا اور بظاہر کوئی کام نہ کرتا تھا لیکن اس کو ایک ادارے سے تنخواہ مل جاتی تھی۔ سعودیہ میں یہ معروف اسکالر ڈاکٹر ملک غلام مرتضٰی مرحوم کے گھر میں ان کے ساتھ رہتا تھا لیکن اس کی حرکتوں کے باعث ڈاکٹر صاحب نے اس کو اپنے گھر سے نکال دیا تھا۔١٩٨٨ میں یوسف علی پاکستان آگیا یہاں آکر اس نے مختلف اخبارات و رسائل کو مختلف دینی موضوعات پر مضمون لکھ کر دینا شروع کئے۔ آغاز میں یہ یوسف علی کے نام سے لکھتا تھا بعد ازاں اس نے ابوالحسنین کے نام سے لکھنا شروع کیا۔

١٩٩٢ مں اس نے روزنامہ پاکستان میں مضامین لکھنا شروع کئے اور اس میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر اس طرح مضامین لکھتا کہ پڑھنے والے کو کچھ تشنگی محسوس ہوتی اور قاری اس سے رابطہ کرتا، جس کے بعد یہ قاری کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا کہ وہاں آئیں اور دین سیکھیں جب لوگ وہاں آتے تو یہ فرد وہاں تمام ہی مکتبہ فکر کے علماء پر تنقید کرتا اور ان کو جاہل قرار دیتا اور اس کا یہ دعویٰ تھا کہ پاکستان میں کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو کہ قرآن مجید کو سمجھ سکا ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وآنہ وسلم کی تعلیمات کو جان چکا ہو( واضح رہے کہ اس دور میں مولانا شاہ احمد نورانی رحمت اللہ علیہ، مولانا یوسف لدھیانوی اور ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ جیسی شخصیات نہ صرف حیات تھیں بلکہ پاکستان میں موجود تھیں ) اس دوران یوسف علی نے شادمان لاہور کی ایک مسجد میں خطبہ جمعہ دینا شروع کیا لیکن اس میں بھی یہ ذومعنی اور قابل اعتراض جملے ادا کرتا جس کے باعث اس کو مسجد سے ہٹا دیا گیا
اس نے ملتان روڈ پر مسجد بیت الرضا کا انتخاب کیا اور ڈیفنس میں کوٹھی خرید کر شفٹ ہوگیا۔ مسجد بیت الرضا کے ساتھ ملحقہ دربار میں اس نے نماز جمعہ کے بعد محفلیں منعقد کرنا شروع کیں، جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے اور ان کے اہل خانہ بھی، یہاں لوگوں کی محفلوں میں اس نے یہ کہنا شروع کیا کہ جب تک آپ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نہیں کرلیں گے اس وقت تک آپ کو موت نہیں آئے گی۔ یہ سن کر لوگ جذباتی ہوجاتے اور اس پر خوب نذرانے نچھاور کرتے، جب یہ دیکھتا کہ کوئی فرد زیادہ ہی بے تاب ہے تو یہ اس سے خوب نذرانے اینٹھتا اور کسی سے گاڑی مانگ لیتا، کسی سے رقم اور کسی سے گھر کے کاغذات، حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار پروانے جب اس کی ہر بات مانتے اور یہ دیکھتا کہ اب لوہا گرم ہے تو یہ اپنے مطلوبہ فرد کو ایک الگ کمرے میں لیجاتا اور کہتا کہ اب آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہوگا اور کہتا کہ آنکھیں بند کرلو، تھوڑی دیر کے بعد کہتا آنکھیں کھولو اور پھر پوچھتا کہ دیدار ہوا، جب وہ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتا نہیں ہوا تو یہ مردود اس کو کہتا (نقل کفر کفر نہ باشد ) انا محمد، میں ہی محمد ہوں آنکھیں نہیں ہیں کیا (نعوذ باللہ ، استغفراللہ،استغفراللہ،استغفراللہ) سننے والا ہکا بکا رہ جاتا، کوئی خاموشی سے واپس آجاتا اور کوئی علماء کرام سے فتویٰ لینا شروع کردیتا۔ اس طرح ملاقات کرنے والے آہستہ آہستہ کم ہوتے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف باتیں بھی ہونے لگیں۔

آخرکار یہ باتیں اخبارات میں آنا شروع ہوئیں اور جب میڈیا پر اس کا ذکر آیا اور اس کا فتنہ منظر عام پر آیا تو علماء کرام نے اس کے خلاف کام کرنا شروع کیا، علماء کرام نے اس کی تحریریں پڑھنے، ویڈیو دیکھنے اور آڈیو سننے کے بعد متفقہ فیصلہ دیا کہ یہ شخص مردود، ملعون اور قابل گردن زدنی ہے۔ اس حوالے سے جب مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ “یوسف علی نے جو کچھ کہا، آڈیو کیسٹ میں جس طرح صحابہ کرام کو پیش کیا اور جس طرح اس کے گواہان بتاتے ہیں وہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور واجب القتل ہے۔ اس کے لئے کسی فتوے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس فتویٰ ١٤٠٠ سال پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دیدیا تھا اور اندرونی و بیرونی طور پر مملکت کے حالات خراب ہونے کے باوجود بڑے بڑے سپہ سالاروں کو واپس بلا لیا تھا اور سب سے پہلے مسیلمہ کذاب کے فتنے کا خاتمہ کیا تھا۔ جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ مآلہ وسلم کے پاس مسیلمہ کے دو آدمی پیغام لیکر آئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تھا کہ کیا آپ بھی ان کے ماننے والوں میں سے ہیں پیغام لانے والوں نے اثبات میں سر ہلایا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر پیغام لانے والوں کو قتل کرنے کی اجازت ہوتی تو میں تمہاری گردنیں کاٹ دیتا۔ یوسف کذاب خود ہی نہیں بلکہ اس کے ماننے والے بھی واجب القتل ہیں، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے بعد اب کسی فتوے کی گنجائش نہیں، یہ جتنا عرصہ زندہ رہا حکمرانوں پر عذاب آتا رہے گا۔ “ قارئین یہ رائے میری یا کسی عام آدمی کی نہیں تھی بلکہ نہایت بلند پایہ عالم دین اور ہمارے محترم بزرگ مولانا شاہ احمد نورانی کی تھی۔

جماعت اہلسنت کراچی کے صدر شاہ تراب الحق صاحب کا اس بارے میں کہنا تھا “انہوں نے کذاب یوسف کی آڈیو اور ویڈیو کیسٹ سنی، اس کا کفر واضح ہے، وہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کرتا ہے اور توہین اللہ بھی، وہ قرآنی آیات کو غلط پڑھتا ہے اور ان کا ترجمہ بھی غلط کرتا ہے۔ وہ اپنی زبان سے کہتا ہے کہ الصلٰوت والسلام علیک یا انسان کامل ،اب دیکھیں الصلوٰت والسلام علیک تو عربی کے لفظ ہوگئے اور انسان کامل فارسی کا لفظ ہے اس سے وہ اپنی ذات مراد لیتا ہے اور یہاں بھی اس کی گستاخی واضح ہوجاتی ہے اگر حکومت نے اس کو مہلت دی یا کسی عدالت نے اسے ضمانت پر رہا کیا تو اس فتنے کا مقابلہ کرنا فتنہ قادیانیت سے زیادہ مشکل ہوجائے گا۔ “ قارئین یہ اہلسنت و الجماعت کے ایک جید عالم کی رائے ہے ہماری نہیں اور ان کی بات بلکل درست ثابت ہورہی ہے کہ اس فتنے کا مقابلہ کرنا فتنہ قادیانیت سے بھی زیادہ مشکل ہوجائے گا، آج اچھے خاصے لوگ اس کے خلیفہ ( زید زمان یا زید حامد ) کے حلقہ اثر میں ہیں اور اس کے سحر میں گرفتار ہیں۔

قارئین یہ مختصر ہسٹری ہے زید حامد کے پیر و مرشد یوسف علی کذاب کی اور اس کے بارے میں علماء کی رائے، اب ان ساری باتوں کو سامنے رکھیں اس کے بعد یہ دیکھیں کہ زید حامد نے اس ملعون کا کیس لڑا، اس کے لئے تگ ودو کی، ملعون یوسف کذاب کی حفاظت کے لئے گارڈ مہیا کئے، ملعون یوسف کذاب کے خلاف مقدمہ کرنے والے علماء اور گواہوں کو ڈرایا دھمکایا اور کیس سے دستبردار کرنے کی کوشش کی، اور جب یوسف کذاب کے قتل کے کافی عرصے بعد یہ منظر عام پر آیا تو اس نے کبھی بھی یوسف کذاب کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی اس کے بارے میں پوچھے گئے کسی سوال کا واضح جواب دیا بلکہ آخر میں منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو میں اس مکار شخص نے انتہائی چالاکی سے یوسف کذاب کے فتنے کو دیوبندی بریلوی فسادات میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔

اب ہم یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ کیا ایسے شخص کو صاحب ایمان کہا جاسکتا ہے، جو فرد گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کرے،اس کی دل و جان سے مدد کرے کیا اس کو مسلمان کہا جائے گا، جبکہ مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم نے واضح طور پر کہا کہ اس کے ماننے والے بھی واجب القتل ہیں۔ پھر یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ آج تک زید حامد نے کسی بھی میڈیا کے سامنے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ وہ اپنے ماٰضی پر شرمندہ ہے، وہ یوسف کذاب کی حمایت کرنے پر توبہ کرتا ہے۔ دوسری بات کہ کلمہ تو قادیانی بھی پڑھتے ہیں وہ بھی نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی مانتے لیکن آخری نبی نہیں مانتے، پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام فرد اور ایک مرتد میں فرق ہوتا ہے عام فرد اگر صرف یہ کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں تو اس کی بات پر اعتبار کیا جائے گا لیکن جس کا کفر اور ارتداد واضح ہو اس کے لئے صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کو سب سے پہلے اعلانیہ توبہ کرنی ہوگی اس کے بعد تجدید ایمان کرنا ہوگا اور پھر اس کے بعد اس کو مسلمان مانا جائے گا۔ کیا زید حامد نے یہ سب کیا؟؟ جواب ہے کہ نہیں اس نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔

مفتی سعید جلال پوری کی شہادت کے بعد زید حامد نے ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں جامعہ نعیمیہ کے مہتمم مفتی نعیم صاحب سے ایک جھوٹ منسوب کیا کہ وہ بھی میرے خلاف کاٹی گئے ایف آئی آر کے خلاف ہیں اس پر جب مفتی نعیم صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے واضح طور پر اس کی تردید کی جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے اس میں دیکھا جاسکتا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=3deJ4IfOmyc&feature=related

مفتی نعیم صاحب تو اہلسنت والجماعت حنفی دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اس نے مفتی غلام سرور قادری صاحب جو کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے جج رہ چکے ہیں اور ان کے سامنے یوسف کذاب کا مقدمہ پیش کیا گیا تھا، زید حامد نے یہاں بھی جھوٹ بولا اور مفتی غلام سرور قادری صاحب سے یہ جھوٹ منسوب کیا کہ مفتی صاحب نے اس کیس کو کبھی جھوٹی نبوت کا کیس نہیں سمجھا بلکہ وہ اس کو دیوبندی بریلوی کا جھگڑا کہتے رہے۔ اس کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد جب مفتی غلام سرور صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس کی تردید کی اور اس کو واجب القتل، گمراہ۔ اور ملعون قرار دیا۔ واضح رہے کہ مفتی غلام سرور صاحب اہل سنت والجماعت حنفی بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں اس ویڈیو کا بھی لنک دیا جارہا ہے۔ اس کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ زید حامد کی کیا حیثیت ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=0_d-PPedI0U&feature=related

قارئین کرام ہم نے کوشش کی ہے کہ یہاں زید حامد کے بارے میں دونوں مکاتب فکر کے علما کی رائے کو آپ کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ یہ واضح رہے کہ زید حامد کا مسئلہ دیوبندی بریلوی کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ دراصل اس فتنے نے بڑی چالاکی سے بھولے بھالے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ساری باتیں دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی فرد یہ سمجھتا ہے کہ زید حامد ایک سچا مسلمان ہے اور اس کے بارے میں جھوٹا پروپگینڈا کیا جارہا ہے تو اس کے لئے ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520608 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More