ماہ محرم کی شرعی اور تاریخی حیثیت

محرم الحرام چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک اور اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ جہاں کئی شرعی فضیلتوں کا حامل ہے وہاں بہت سی تاریخی اہمیتیں بھی رکھتا ہے۔

کیونکہ اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات اس مہینہ میں رونما ہوئے بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ نہ صرف تاریخ اْمت محمدیہ کی چند اہم یاد گاریں اس سے وابستہ ہیں بلکہ گزشتہ اْمتوں اور جلیل القدر انبیاء کے کارہائے نمایاں اور فضلِ ربانی کی یادیں بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ لیکن شرعی اصولوں کی روشنی میں جس طرح دوسرے شہور و ایام کو بعض عظیم الشان کارناموں کی وجہ سے کوئی خاص فضیلت و امتیاز نہیں ہے۔ اسی طرح اس ماہ کی فضیلت کی وجہ بھی یہ چند اہم واقعات و سانحات نہیں ہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اشہرِ حْرْم (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب) کو ابتدائے آفرینش سے ہی اس اعزاز و اکرام سے نوازا ہے۔ جس کی وجہ سے دورِ اسلام اور دورِ جاہلیت دونوں میں ان مہینوں کی عزت و احترام کا لحاظ رکھا جاتاتھا اور بڑے بڑے سنگدل اور جفا کار بھی جنگ و جدال اور ظلم و ستم سے ہاتھ روک لیتے تھے۔ اس طرح سے کمزوروں اور ناداروں کو کچھ عرصہ کے لئے گوشہ عافیت میں پناہ مل جاتی تھی۔

اسلام نے واقعاتِ خیر و شر کو ایام کی معیارِ فضیلت قرار نہیں دیا بلکہ کسی مصیبت کی بنا پر زمانہ کی برائی سے اﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور قرآن مجید میں کفار کے اس قول کی مذمت بیان کی ہے۔ اور حدیث میں ہے:
’’زمانہ کو گالی نہ دو کیونکہ برا بھلا اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘(بخاری و مسلم) یعنی خیر و شر کی وجہ لیل و نہار نہیں ہیں بلکہ خدا کارسازِ زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اچھے یا بْرے دِن منانے کی کوئی اصل ہی تسلیم نہیں کی جیسا کہ آج کل محرم کے علاوہ بڑے بڑے لوگوں کے دن یا سالگرہ وغیرہ منائی جاتی ہیں۔

عاشوراء کا روزہ:
ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کے متعلق اگرچہ عمومی طور پر صحیح احادیث وارد ہیں، لیکن خصوصی طور پر یومِ عاشوراء یعنی دس تاریخ محرم کے بارے میں کثرت سے احادیث آئی ہیں۔

ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو کسی دن کے روزے کا دوسرے عام دنوں کے روزوں پر افضل جانتے ہوئے ارادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح ہ یومِ عاشوراء اور ماہِ رمضان کا (اہتمام کرتے ہوئے دیکھا ہے)۔

ابو قتادہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزہ کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے ایک سال گزشتہ کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

آپ چار چیزیں نہ چھوڑا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک عاشوراء کا روزہ ہے۔ الخ

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا، یہ بہت بڑا دن ہے، اس میں اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ اور اس کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا (اس پر) موسیٰ علیہ السلام نے (اس دن) شکر کا روزہ رکھا۔ پس ہم بھی ان کی اتباع میں روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب اور حق دار ہیں لہٰذا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود روزہ رکھا اور (صحابہؓ کو) اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

اس حدیث سے عاشوراء کے روزہ کا مسنون ہونا ثابت ہوا۔ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کا بھی ارادہ ظاہر فرمایا ( رواہ رزین)۔ اور مسند احمد کی ایک روایت میں گیارہ محرم کا بھی ذکر ملتا ہے یعنی 9 محرم یا 11 گیارہ۔

حاصل یہ ہے کہ اﷲ ارحم الراحمین اور نبی رحمۃ للعالمین (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے امتِ مسلمہ کو ماہِ محرم کی برکات و فیوض سے مطلع کر دیا ہے اور بعض ایام میں مخصوص اعمال کی فضیلت سے بھی آگاہ کر دیا ہے تاکہ ہم شریعت کے ہدایات کے مطابق عمل کر کے سعادتِ دارین حاصل کر سکیں۔

اﷲ تعالیٰ کا فضل و کرم دیکھیے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد وہ ہمیں کتنے عظیم الشان مواقع مہیا کرتا ہے جن سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے ہم فیضانِ رحمت سے دامن بھر سکیں ۔

ماہِ محرم کی بدعات:
ہم نے ماہِ محرم سے بہت سے غلط رواج وابستہ کر لیے ہیں، اسے دکھ اور مصیبت کا مہینہ قرار دے لیا ہے جس کے اظہار کے لئے سیاہ لباس پہنا جاتا ہے۔ رونا پیٹنا، تعزیہ کا جلوس نکالنا اور مجالس عزاء وغیرہ منعقد کرنا یہ سب کچھ کارِ ثواب سمجھ کر اور امام حسین رضی اﷲ عنہ سے محبت کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔

حالانکہ یہ سب چیزیں نہ صرف نبیصلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمودات کے خلاف ہیں بلکہ نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس مشن کے بھی خلاف ہیں جس کے لئے انہوں نے اپنی جان قربان کر دی۔ شیعہ حضرات کی دیکھا دیکھی خود کو سنی کہلانے والے بھی بہت سی بدعات میں مبتلا ہو گئے ہیں مثلاً اس ماہ میں نکاح شادی کو بے برکتی اور مصائب و آلام کے دور کی ابتداء کا باعث سمجھ کر اس سے احتراز کیا جاتا ہے اور لوگ اعمالِ مسنونہ کو چھوڑ کر بہت سی من گھڑت اور موضوع احادیث پر عمل کرتے ہیں۔
مثلاً بعض لوگ خصوصیت سے عاشوراء کے روز بعض مساجد و مقابر کی زیارتیں کرتے اور خوب صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اس دن اہل و عیال پر فراخی کرنے کو سارے سال کے لئے موجبِ برکت سمجھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

کیا ماہِ محرم صرف غم کی یادگار ہے؟
شہادت حسینؓ اگرچہ اسلامی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں جس کی یاد محرم سے وابستہ ہے بلکہ محرم میں کئی دیگر تاریخی واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن میں سے اگر چند ایک افسوسناک ہیں تو کئی موقعے ایسے بھی ہیں جن پر خوش ہونا اور خدا کا شکر بجا لانا چاہئے۔

جیسا کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کی اقتداء میں عاشورے کے دن شکر کا روزہ رکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دن موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات دی تھی۔ نیز اگر اتفاق سے شہادتِ حسینؓ کا المیہ بھی اسی ماہ میں واقع ہو گیا تو بعض دیگر جلیل القدر صحابہؓ کی شہادت بھی تو اسی ماہ میں ہوئی ہے۔ مثلاً سطوتِ اسلامی کے عظیم علمبردار خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ اسی ماہ کی یکم تاریخ کو ابو لؤلؤ فیروز نامی ایک غلام کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

اس لئے شہادتِ حسینؓ کا دن منانے والوں کو ان کا بھی دن منانا چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام اسی طرح دن منانے کی اجازت دے دے تو سال کا کوئی ہی ایسا دن باقی رہ جائے ا جس میں کوئی تاریخی واقعہ یا حادثہ رونما نہ ہوا ہو اور اس طرح مسلمان سارا سال انہی تقریبات اور سوگوار ایام منانے اور ان کے انتظام میں لگیے رہیں گے۔

یہ دنیا دار البلاء اور امتحان گاہ ہے۔ اس دنیا میں ہر نبی اور امت پر کٹھن وقت آئے ہیں صرف بنی اسرائیل ہی کو لیجئے۔ ان پر کس قدر آزمائشیں آئیں؟ کس قدر انبیاء کرام بے دریغ قتل کئے گئے؟ کتنے معصوم بچے ذبح ہوئے؟ جس کا اعتراف قرآن کریم نے بھی کیا ہے۔

ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم فداہ ابی و امی، اہل بیت، صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین اور سلف و خلف میں ائمہ دین رحمہ اﷲ علیہم اجمعین پر ایسی ایسی مشکل گھڑیاں آئیں کہ ان کے سننے سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

بعثت سے لے کر واقعہ کربلا اور پھر کربلا سے لے کر اب تک اسلامی تاریخ کا کونسا ایسا ورق ہے جو اس قسم کے دِل ہلا دینے والے واقعات سے خالی ہو؟ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکی زندگی اور اسلام قبول کرنے والوں کے دل دوز حالات اور پھر مدنی زندگی اور حق و باطل کے معرکے کس قدر جگر سوز ہیں۔ کیا شہادت حمزہؓ، شہادتِ عمرؓ، شہادتِ عثمانؓ، شہادتِ علیؓ، شہادت عبد اﷲ بن زبیرؓ اور شہادت جگر گوشہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حسینِ کے لرزہ خیز حالات سننے کی تاب کسی کو ہے؟ لیکن یہی آزمائشں تو انہیں امامت کے منصب پر فائز کرتی ہیں اور حیات جاودانی بخشتی ہیں۔

قرآن مجید میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہیں دنیا کی امامت آزمائشوں میں کامرانی کے بعد ہی ملی تھی۔ ارشاد ہے: ہم نے اپنے بندے ابراہیم کو چند آزمائشوں سے گزارا، وہ ان میں پورے اترے تو ہم نے کہا (اے ابراہیم) ہم آپ کو دنیا کا امام بنا رہے ہیں۔ (البقرہ: ۴۲۱)
ترمذی میں ہے:
’’ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف ظالم نے لوگ باندھ کر قتل کیے وہ ایک لاکھ بیس ہزار تھے (جن میں سے بیشتر صحابہ، جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین تھے) ‘‘

اسی طرح اپنوں ہی نے حضرت عثمانؓ خلیفہ ثالث اور نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت امام حسینؓ کو میدانِ کربلا میں جس طرح تختہ مشق بنایا اور بے جگری سے شہید کیا، سن کر پتا پانی ہوتا ہے۔

غرضیکہ دنیا آزمائشوں کا گھر اور حق و باطل کا میدان کار زار ہے۔ اس میں خدا پرستوں پر اﷲ کے دین کی خاطر اسی طرح کے مصائب و آلام کی بارش ہوا کرتی ہے جس سے وہ ہمیشہ سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ دکھ اور الم کی لہروں کے سامنے وہ چٹان بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ ان کے دل ڈرتے ہیں، نہ پاؤں ڈگمگاتے ہیں بلکہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر سب کچھ خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے اعتبار سے ہمیشہ کامیاب و کامران لوٹا کرتے ہیں۔

نوحہ اور ماتم بزرگانِ ملّت کی تعلیم کے خلاف اور ان کے مشن کی توہین ہے:
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پاکباز ہستیاں کس طرح صبر و استقلال کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔ ان کے خلفاء اور ورثاء بھی ان کے نقش قدم پر چلے۔ نہ کسی نے آہ و فغاں کیا، نہ کسی نے ان کی برسی منائی نہ چہلم، نہ روئے نہ پیٹے، نہ کپڑے پھاڑے، نہ ماتم کیا اور نہ تعزیہ کا جلوس نکال کر گلی کوچوں کا دورہ کیا بلکہ یہ خرافات سات آٹھ سو سال بعد تیمور لنگ بادشاہ کے دور میں شروع ہوئیں لیکن یہ سب حرکتیں اور رسوم و رواج نہ صرف روح اسلام اور ان پاکباز ہستیوں کی تلقین و ارشاد کے خلاف ہیں بلکہ ان بزرگوں کی توہین اور غیر مسلمانوں کے لئے استہزاء کا ساماں ہیں۔ اسلام تو ہمیں صبر و استقامت کی تعلیم دیتا ہے اور ’’بَشِّرِ الصَّابِرِینَ‘‘ (صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو) کا مڑدہ سناتا ہے۔

ماہِ محرم کے چند تاریخی واقعات:
اب آخر میں وہ چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں جو ماہِ محرم میں وقوع پذیر ہوئے لیکن آج عوام میں امام حسینؓ کی شہادت کے علاوہ ان کی یادیں طاق نسیاں میں رکھی رہتی ہیںَ اگرچہ ان کے ذِکر سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ
شہادتِ حسینؓ کی طرح ان کی بھی یادیں منائی جائیں کیونکہ جیسا کہ میں پہلے ذِکر کر چکا ہوں کہ اگرچہ اسلام ان واقعات کی اہمیت اپنی جگہ تسلیم کرتا ہے اور ان کی عظمت کی یاد دہانی بھی ضروری سمجھتا ہے تاکہ ان کا کردار ہمیں جذبہ قربانی اور شوق شہادت دے اور جن موقعوں پر مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی یا ظلم و ستم سے نجات حاصل کی ان کے ذِکر سے ہماری تثبیتِ قلبی ہو اور ہم اﷲ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر سکیں لیکن وہ اس عظمت میں لیل و نہار کا کسی طرح کا دخل تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی عظمت میں انہیں شریک کار بناتا ہے۔

بلکہ میرا مقصد تاریخی یاد داشتوں کی حیثیت سے ان کا ذِکر ہے۔

دو جلیل القدر صحابیوں، بطل جلیل امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ اور گوشہ جگر رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سید شباب المسلمین حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا ذکر تو پہلے ہو چکا ہے جو بالترتیب یکم محرم اور دس محرم الحرام کو واصل بحق ہوئے اور ابتدائے آفرینش سے لے کر بعثت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تک چیدہ چیدہ واقعات درج ذیل ہیں:
نمبر1: آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے ان کی قوم کے ہتھکنڈوں سے اسی ماہ میں نجات ملی اور طوفانِ نوح میں مجرم کیفرِ کردار کو پہنچے۔
نمبر2: ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نارِ نمرود اسی ماہ میں گلزار بنی اور نمرود اور اس کے ایجنٹوں کی کوششیں اکارت گئیں۔
نمبر3: موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے دس محرم (عاشوراء ) کو نجات ملی اور فرعون اور اس کی فوج غرقاب ہوئی۔

اس قسم کے بہت سے دیگر معرکہ ہائے حق و باطل تھے جن میں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حق کو کامیابی نصیب ہوئی اور باطل خائب و خاسر ہوا۔ اگر ان شخصیتوں سے ہمارا بھی کوئی دینی اور روحانی تعلق ہے اور اسی حق میں ہم پیروکار ہیں جس کی خاطر انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور جابر و ظالم بادشاہوں سے ٹکر لی تو ہمیں جہاں امام حسین رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر بن الخطاب کی شہادت کا غم ہے وہاں ان چند واقعات پر خوش بھی ہونا چاہئے اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے حق کی مدد فرما کر اسلامی تاریخ کو ایسا تابناک بنایا اور ہمارے اسلاف کو اسی حق کی خاطر ثابت قدم فرما کر دین کا بول بالا کیا۔

ہمیں چاہئے کہ ان واقعات سے اچھا سبق لیں اور ان بزرگوں کی زندگیوں سے دینِ الٰہی کی خاطر ہر قسم کی جدوجہد کا نمونہ حاصل کریں۔ حتیٰ کہ اگر اس راہ میں اپنے جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں۔ ان واقعات کی یہی روح اور یہی ان بزرگوں کا مشن تھا۔ یہی راستہ دارین کی فوز و فلاح کا ضامن ہے اور یہی ان سے اظہارِ محبت کا طریقہ ہے۔

اﷲ تعالیٰ سب مسلمانوں کو صحیح رستہ پر چلائے اور بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
 
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76077 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.