حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا المیہ صحیح روایات کی روشنی میں

از عثمان احمد
19 Nov 2014

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے آپ کو ناراض کردیا ہے ؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلکہ میرے پاس ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل (شہید) کیا جائے گا۔

(مسند احمد ۸۵/۱ ح ۶۴۸ و سندہ حسن ، عبداللہ بن نجی و ابوہ صدوقان و ثقہما الجمہور ولا ینزل حدیثہما عن درجۃ الحسن ، انظر نیل المقصود فی تحقیق سنن ابی داود: ۲۲۷)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں۔

مسند احمد ۲۴۲/۱و سندہ حسن ،دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: ۱۰ ص ۱۴ تا ۱۶ اور شمارہ : ۲۰ ص ۱۸ تا ۲۳

اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی۔

(مشخیۃ ابراہیم بن طہمان : ۳ و سندہ حسن و من طریق ابن طہمان رواہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق ۱۹۲/۱۴، ولہ طریق آخر عندالحاکم ۳۹۸/۴ ح ۵۲۰۲ و صححہ علیٰ شرط الشیخین و وافقہ الذہبی)

شہر بن حوشب (صدوق حسن الحدیث ، و ثقہ الجمہور) سے روایت ہے کہ جب (سیدنا) حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو ام سلمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے فرمایا: عراقیوں پر لعنت ہو، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے ،اللہ انہیں قتل کرے، انہوں نے آپ سے دھوکا کیا اور آپ کو ذلیل کیا، اللہ انہیں ذلیل کرے ۔

(فضائل الصحابۃ، زوائد القطیعی ۷۸۲/۲ح ۱۳۹۲ و سندہ حسن، و مسند احمد ۲۹۸/۶ ح ۶۵۵۰ و سندہ حسن)

ہلال بن اساف (ثقہ تابعی) سے روایت ہے کہ (سیدنا) حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) شام کی طرف یزید (بن معاویہ بن ابی سفیان) کی طرف جارہے تھے، کربلا کے مقام پر انہیں عمر بن سعد ، شمر بن ذی الجوشن اور حصین بن نمیر وغیرہم کے لشکر ملے۔ (امام) حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے یزید کے پاس جانے دو تاکہ میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں (بیعت کرلوں) انہوں نے کہا : ابن زیاد کے فیصلے پر اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو ۔

(کتاب جمل من انساب الاشراف للبلا ذری ۱۳۴۹/۳ و سندہ صحیح)

:تنبیہ

شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔

انساب الاشرف کے مطبوعہ نسخے کی اصل سند نامعلوم ہے۔
بلازری سے اس کتاب کے راوی کا نام معلوم نہیں
انساب الاشرف کی کئی روایات صحیحین و صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے منکر و مردود ہیں۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جب شہید کیا گیا تو آپ کا سر مبارک عبیداللہ بن زیاد (ابن مرجانہ ، ظالم مبغوض ) کے سامنے لایا گیا تو وہ ہاتھ میں چھڑی کے ساتھ آپ کے سر کو کریدنے لگا ۔ یہ دیکھ کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔

دیکھئے صحیح بخاری: ۳۷۴۸))

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی (عراقی) نےمچھر (یا مکھی) کے (حالتِ احرام میں) خون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اسے دیکھو، یہ (عراقی) مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے (نواسے) کو قتل (شہید) کیا ہے۔

(صحیح بخاری: ۵۹۹۴، ۳۷۵۳)

سعد بن عبیدہ (ثقہ تابعی) بیان کرتے ہیں کہ میں نے (سیدنا )حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھا، آپ ایک کپڑے (برود) کا جبہ (چوغہ) پہنے ہوتے تھے۔ عمرو بن خالد الطہوی نامی ایک شخص نے آپ کو تیر مارا جو آپ کے چوغے سے لٹک رہا تھا۔

(تاریخ دمشق لابن عساکر ۲۱۴/۱۴ و سندہ صحیح)

شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے پاس موجود تھا۔ میں نے (سیدنا) حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شہادت کی خبر سنی تو ام سلمہ کو بتایا ۔(کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں)انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے یہ کام کردیاہے، اللہ ان کے گھروں یا قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ اور وہ (غم کی شدت سے ) بیہوش ہوگئیں۔

تاریخ دمشق ۲۲۹/۱۴ و سندحسن))

سیدہ اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (توفیت سنۃ ۶۵/ھ) نے فرمایا : میں نےجنوں کو (امام) حسین(رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ) پر روتے ہوئے سنا ہے ۔

(المعجم الکبیر للطبرانی ۱۲۱/۳ ح ۲۸۶۲، ۱۲۲/۳ ح ۲۸۶۷ ، فضائل الصحابہ لا حمد ۷۷۶/۲ح ۱۳۷۳ و سندہ حسن)

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ (۱۰) محرم (عاشوراء کے دن) اکسٹھ (۶۱) ہجری میں شہید ہوئے ۔

دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر ۲۳۷/۱۴ وھو قول اکثر اہل التاریخ))

یہ ہفتے (سبت) کا دن تھا۔ (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: ۲۴۳ بسند صحیح عن ابی نعیم الفضل بن دکین الکوفی رحمہ اللہ) بعض کہتے ہیں کہ سوموار کا دن تھا۔

دیکھئے تاریخ دمشق ۲۳۶/۱۴))

مشہور جلیل القدر ثقہ تابعی ابورجاء عمران بن ملحان العطاردی رحمہ اللہ نے جاہلیت کا زمانہ پایا ہے مگر صحابیت کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔ وہ ایک سو بیس (۱۲۰) سال کی عمر میں، ایک سو پانچ (۱۰۵/ھ) میں فوت ہوئے ۔

ابو رجاء العطاردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:علی اور اہل بیت کو برا نہ کہو، ہمارے بلہجیم کے ایک پڑوسی نے (سیدنا) حسین رضی اللہ عنہ کو برا کہا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اندھا کر دیا۔

المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱۲/۳ ح ۲۸۳۰ ملخصاً و سندہ صحیح))

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں بہت سی ضعیف و مردود اور عجیب و غریب روایات مروی ہیں جنہیں میں نے جان بوجھ کر یہاں ذکر نہیں کیا۔ دین کا دارومدار صحیح وثابت روایات پر ہے ، ضعیف و مردود روایات پر نہیں۔
صد افسوس ے ان لوگوں پر جو غیر ثابت اور مردود تاریخی روایات پر اپنے عقائد و عمل کی بنیاد رکھتے ہیں بلکہ ببانگ دہل ان مردود روایات کو “مسلم تاریخی حقائق” کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

تابعیِ صغیر ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا:اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنہوں نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو قتل (شہید) کیا، پھر میری مغفرت کردی جاتی ، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزرنے سے شرم کرتا کہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں۔

المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱۲/۳ ح ۲۸۲۹ و سندہ حسن))

آخر میں ان لوگوں پر لعنت ہے جنہوں نے سیدنا و محبوبنا و امامنا الحسین بن علی رضی اللہ عنہ کوشہید کیا یا شہید کرایا یا اس کے لئے کسی قسم کی معاونت کی ۔ اے اللہ ! ہمارے دلوں کو سیدنا الامام المظلوم الشہید حسین بن علی، تمام اہل بیت اور تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے ۔آمین

سیدنا علی رضی اللہ عنہ ،سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہ سے نواصب حضرات بُغض رکھتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات ان کے دعویِ محبت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتے ہیں، اہل بیت رضی اللہ عنہ کی محبت میں غلو کرتے اور ضروریاتِ دین کا انکار کرتے ہیں۔ یہ دونوں فریق افراط و تفریط والے راستوں پر گامزن ہیں۔ اہل سنت کا راستہ اعتدال اور انصاف والا راستہ ہے ۔ والحمدللہ

اہل سنت کے ایک جلیل القدر امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمہ اللہ نے شہادتِ حسین وغیرہ تاریخی واقعات کو ابو مخنف وغیرہ کذابین و متروکین کی سند سے اپنی تاریخ طبری میں نقل کر رکھا ہے ۔ یہ واقعات و تفاصیل موضوع اور من گھڑت وغیرہ ہونے کی وجہ سے مردود ہیں لیکن امام طبری رحمہ اللہ بری ہیں کیونکہ انہوں نے یہ سندیں بیان کردی ہیں۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ حدیث کی ہر کتاب سے صرف وہی روایت پیش کرنی چاہئے جس کی سند اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کی روشنی میں صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہو ورنہ پھر خاموشی ہی بہتر ہے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مسند متصل مرفوع تمام احادیث صحیح ہیں۔ وما علینا إلا البلاغ

manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.