بحیثیت ِ مسلمان ہمیں اپنے
مذہب کی تلقین پر مکمل کاربند رہنا چاہیے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم ایسا
نہیں کرتے اور صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اطاعت وانقیاد سے بے حد دور
ہوگئے ہیں۔ سورۃالانعام ،آیت ۶۵ کا ترجمہ ہے:اے پیغمبر ﷺ ان کو بتلادو کہ
وہ اﷲ اس پر قادر ہے کہ تم پر اوپر سے عذاب بھیج دے یا تمہارے پیروں تلے سے
کوئی عذاب برپا کر دے یا ایسا کرے کہ تم کو (متحارب) گروہوں اور پارٹیوں
میں تقسیم کردت اور آپس میں ٹکرا دے پھرایک دوسرے کو اپنی مار کا مزہ
چکھادے۔۔۔۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آسکنے والے تین قسم کے عذابوں سے ڈرایا گیا
ہے جن میں آخری یہ ہے کہ کوئی قوم گروہوں اور پارٹیوں میں منقسم ہوجائے اور
پھر آپس میں ٹکرائیں اور ایک دوسرے کا خون بہائیں۔فرقے تشکیل ہونا موثر تھا
لیکن المیہ ہے کہ ایک دوسرے کے عقائدکا احترام نہیں کیا گیا اور فرقہ ورانہ
فسادات نے جنم لیا۔طہارت سے لبریز سیرت والی ہستیوں کی تعظیم سب پر لازم ہے
لیکن انتشارانہ بیان بازی نے سب کی عقلوں پر پردے ڈال دیے ،جو کچھ بھی ہوا
اس کا ذمہ دار کوئی ایک مخصوص فرقہ نہیں بلکہ ہم سب ہیں اسلام تمام
مسلمانوں کا سانجھا ہے لیکن ہم نے نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور اس
فتنے کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ ہماری اس حماقت سے بھرے ٹکراؤ نے دشمن کو
ہمیں کھوکلا کرنے کے مواقع مہیاء کئے ہیں ۔اہلِ تشیع ،سنی یا وہابی جیسی
تنگدست سوچ چھوڑ کر ہم پہلے مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟ اہلِ بیت کی قربانی
تو اسلام کی سربلندی کے لیے ہے لیکن ہم کیوں مختلف اجتماعات کے جدا جدا
عقائد معتقد ہیں؟ جب حضرت سیدنا علی ؓ کی شہادت کے بعد انتشار شدت کو جا
پہنچا تھا تو حضر ت امام حسن ؓ نے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروئی
تاکہ خون خرابے سے بچا جاسکے۔۔۔ اُس وقت امام حسن ؓ اگر مسلمانوں میں اتحاد
کا فروغ نہ کرتے تو بیرونی سلطنتیں مسلمانوں کی من وعن خانہ جنگی کا فائدہ
اٹھا سکتی تھیں ۔آج کے دور میں ہمارا کوئی بڑا اختلاف بھی نہیں مگر محض غلط
فہمیوں نے ہمیں ایک دوسرے کہ بارے میں حقارت آموز جذبات رکھنے کی طرف دھکیل
دیا ہے۔گذ شتہ برس مُحرم الحرام کے مہینے میں بھارتی خفیہ ایجنسی راء نے
سینکڑوں افراد کو سنی اور اہلِ تشیع کا روپ دھار کر پاکستان منتقل کرنے کا
پلان بنا یا تھا جس کی خبر موصول ہوتے ہی بروقت کاروائی سے اس میلی کوشش کو
ناکام بنا دیا گیا۔یہ انکشاف سینئر تجزیہ کارو اینکر پرسن فیصل ادریس بٹ نے
اپنے پروگرام فاسٹ ٹریک میں کیا تھا او ر پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت نے
اس خبر پرجوانوں کو مزید چاک و چوبند کیا اور بھارت کی اس مذموم کاروائی
کرنے کی سوچ کو خاک میں ملا دیا۔ عرش بھی واقعہ کربلا کہ وقت رو پڑا تھا تو
کیسے کوئی مسلمان اس سب کا ملال اوررنج نہ کرے یہ صرف سازشی عناصر اور غیر
جید نام نہاد علماء کرام کا پھیلایا ہوا ہیجان ہے۔ ہم سب مانتے ہیں پنجتن
پاک کو، خلفائے راشدین کو،صحابہ کرام کو،تابعین کو اور بزرگانِ دین کو تو
پھر مسئلہ کیا ہے ؟ جب نبی کریم ﷺ نے ان کی تعظیم کرنے کا کہہ دیا تو نقطہ
اختلاف سمجھ سے بالاتر ہے ؟َ وحدت ِ بین المسلمین کا نعرہ کافی نہیں بلکہ
ملک میں رہنے والے ہر مسلمان کو اس کی آبیاری میں کردار ادا کرنا
ہوگا۔مذہبی منافرت کی روک تھام موجودہ وقت کی مانگ ہے اور اس کے لیے تگ ودہ
ضروری ہے ، اقبال کا ایک شعر ارض ہے : فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف۔ جو قوم اپنے ہادیٔ برحق کی تعلیمات
سے روگردانی کرے ایسے لوگوں پر فرقہ واریت کا ناسور آنا ظاہری ہے تو آئیں
ہم اس کسمپرسی کی فضاء سے چھٹکارا پائیں آپس میں مل بیٹھیں ایک مذہب کے
قائل ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہیں علیحدہ نہ رکھیں اور بھائی چارے کو
فروغ دیں کسی پاک طینت شخصیت کی توہین کے مرتکب نہ ہوں اور مستند عالمِ دین
کی بات پر کان دھریں ۔نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: بے شک میرے بعد پے درپے
برائیاں آئیں گی،پس جس شخص کو تم دیکھو کہ وہ جماعت بین المسلمیں میں تفریق
ڈال رہا ہے۔۔۔۔ اﷲ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور شیطان جماعت سے
علیحدگی کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے (صحیح مسلم)۔ فرقہ واریت کو ترک کر کے
اسلام کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی مسجد شہید نہ کردی جائے کسی مدرسے
پر بلاوجہ دھاوا نہ بولا جائے ،کسی مجلس پر شدت پسندانہ کاروائی نہ کی جائے
۔الفاظ کا چناؤ موزوں ہو کیونکہ بے مطلب اشتعال انگیزی وطن کے لیے انتہائی
خطرناک ہے ۔ |