ایک اور ہولناک زلزلہ....ایک اور امتحان!
(عابد محمود عزام, Karachi)
پیر کے روز ملک بھر میں ہولناک
زلزلہ آیا۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت
7.7 تھی، جبکہ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کی شدت 8.1 تھی۔
زلزلے کی گہرائی 193 کلو میٹر تھی جس کا مرکز کوہ ہندوکش کا علاقہ تھا۔
ماہرین ارضیات کے مطابق زلزلے کی گہرائی زیادہ ہونے کے باعث ملک بڑی تباہی
سے محفوظ رہا۔ خدانخواستہ اگر گہرائی کم ہوتی تو تباہی کئی گنا زیادہ
ہوسکتی تھی اور سب کچھ الٹ پلٹ ہوسکتا تھا۔ زلزلے کے جھٹکے پاکستان،
افغانستان اور بھارت میں محسوس کیے گئے، افغانستان میں زلزلے سے سو سے زاید
افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ زلزلے سے سب سے زیادہ نقصان خیبرپختونخوا کو
پہنچا اور پنجاب اور بلوچستان کے علاقے بھی شدید متاثر ہوئے۔ بالخصوص
خیبرپختونخوا میں سوات، صوابی، مانسہرہ، جمرود،باجوڑ ایجنسی، لوئر دیر اور
دیگر قبائلی علاقے شدید متاثر ہوئے۔ خیبرپختونخوا، چترال، میرپور آزاد
کشمیر، راولپنڈی، ملتان، سرگودھا، وادی ہنزہ سمیت ملک بھر میں سیکڑوں
عمارات گرنے سے سیکڑوں افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔ ملک کے مختلف
حصوں میں زلزلے کے دوران دور دراز کے علاقوں میں مواصلاتی نظام بھی متاثر
ہوا اور موبائل فون سروس میں بھی خلل پیدا ہوگیا۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب
میں زلزلے سے تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں اور آفٹر شاکس کے باعث
ہری پور، چترال اور دیامر میں منگل کے روز تعلیمی ادارے بند رہے ، جبکہ
زلزلے کے ضمنی جھٹکوں کے پیش نظر مانسہرہ، اسلام آباد اور راولپنڈی کے نجی
اسکول بھی بند رہے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق زلزلے سے جاں بحق ہونے والے
افراد کی تعداد ساڑھے تین سو سے زاید ہوگئی ہے، جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔
زلزلے کے بعد وزیراعظم محمد نوازشریف نے متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر
امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کی ہدایت کی، جبکہ آرمی چیف نے فوجی جوانوں کو
ہدایت کی کہ وہ احکامات کاانتظارکیے بغیرامدادی کارروائیاں شروع کردیں۔ پاک
فضائیہ نے زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے طیاروں کی پیشکش کی۔ حکومتی ترجمان
کے مطابق وزیراعظم نے تمام وفاقی اور سول اداروں کو ہدایت کرتے ہوئے کہاہے
کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے لیے تمام وسائل بروئے
کارلائے جائیں۔ دوسری جانب آئی ایس پی آرکے مطابق آرمی چیف نے زلزلے کے
فوری بعد جی ایچ کیو میں اہم اجلاس طلب کیا، جس میں تمام کورکمانڈروں
کومتاثرہ علاقوں میں امدادی ٹیمیں روانہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ پاک فوج کی
جانب سے تمام ملٹری ہسپتالوں کوہائی الرٹ کیا گیا، جبکہ فوجی ہیلی کاپٹربھی
امدادی کاموں کے لیے روانہ کیے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے
زلزلے سے نقصان کے فوری تخمینے کی بھی ہدایت کی اور آرمی چیف جنرل راحیل
شریف نے امدادی کاموں کی نگرانی خود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل
راحیل شریف پیر کے روز ہی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے متاثرہ
علاقوں میں پہنچ گئے تھے۔ خیبر پختونخوا میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے
دورے کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف کاکہنا تھاکہ متاثرین کو طبی امداد،
راشن اور خیموں کی فراہمی یقینی بنایا جائے، جہاں نقصان کی اطلاع ملے فوراً
پہنچا جائے، فوجی جوان زلزلہ متاثرین کی مدد کریں اور ہر گھرانے اور ہر شخص
تک پہنچا جائے، دور دراز متاثرہ علاقے کے ایک، ایک انچ تک پہنچیں، اجازت
لینے کی ضرورت نہیں۔ وزیر اعظم پیر کے روز لندن میں تھے، اس لیے انہوں نے
منگل کے روز زلزلہ سے متاثرہ علاقے شانگلہ کا دورہ کیا، جہاں بریفنگ کے
دوران انہیں بتایا گیا کہ شانگلہ میں زلزلے سے ہلاکتوں اور دور دراز علاقے
ہونے کی وجہ سے نقصانات کے حوالے سے اطلاعات جمع کرنے میں مشکلات ہیں۔ وزیر
اعظم نواز شریف نے کہا کہ زلزلے سے متاثرہ افراد کو خوراک کی فراہمی یقینی
بنائے جائے اور مکمل طور پر تباہ ہونے والے گھر کے مالک کو ایک لاکھ، جبکہ
جزوی تباہ ہونے والے گھر کے مالک کو 50 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ اس سے پہلے
وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت ملک بھر میں ہولناک زلزلے کے بعد کی
صورتحال پر اہم اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان،
وزیرخزانہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید، گورنر خیبرپختونخوا
سردار مہتاب، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی ملٹری آپریشن میجر جنرل ساحر
شمشاد، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ شریک تھے۔ اجلاس کے
دوران چیئرمین این ڈی ایم اے اور ڈی جی ملٹری آپریشنز نے شرکا کو زلزلے سے
ہونے والی تباہ کاریوں اور امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ دی جب کہ این ڈی ایم
اے کے میجر جنرل نے زلزلے کے بعد کی صورتحال پر رپورٹ پیش کی، جس میں کہا
گیا کہ زلزلے سے ملک بھر میں اب تک 250 افراد جاں بحق اور 1700 سے زاید
زخمی ہوئے ہیں، جب کہ زلزلے کے باعث 2500 سے زاید گھروں کو نقصان پہنچا ہے
جن میں 2100 گھر خیبرپختونخوا میں منہدم ہوئے ہیں۔ اجلاس میں امریکا اور
اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر سے آنے والی امداد کی پیشکشوں کا بھی جائزہ لیا
گیا۔ واضح رہے کہ پیر کے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے
زلزلے سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا
کہ اگر درخواست کی گئی تو پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ زلزلے کے بعد
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو فون
کر کے زلزلے میں ہونے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ جبکہ امریکی حکام
نے بھی پاکستان کو پیش کی پیشکش کی۔
زلزلہ متاثرین کے لیے پاک فوج کی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اورسب سے زیادہ
متاثر ہونے والے علاقوں میں گزشتہ روز ہیلی کاپٹرز کے ذریعے امدادی سامان
روانہ کردیا گیا تھا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے
مطابق سی 130 طیارے کے ذریعے چترال کے لیے 7 ٹن راشن روانہ کردیا گیا ، جس
میں 2500 کھانے پینے کی اشیا شامل ہیں اور ساتھ ہی ڈاکٹروں کی اضافی ٹیمیں،
ایک ہزار خیمے اور کمبل روانہ کیے گئے ہیں۔ زلزلے سے متاثرہ علاقے دیر کے
لیے 20 ٹن راشن جس میں 10 ہزار کھانے پینے کی تیار اشیا اور 500 کمبل روانہ
کیے گئے ہیں۔ زلزلے کے بعد فاٹا اور چترال میں اب تک ایک ہزار سے زاید
متاثرہ خاندانوں کو تیار خوراک پہنچا دی گئی ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات
عامہ کے مطابق امدادی سرگرمیوں میں5 ہیلی کاپٹرحصہ لے رہے ہیں۔ آئی ایس پی
آر کے مطابق زلزلہ متاثرین کے لیے 1250 ٹینٹ بھی بھجوا ئے گئے ہیں، جبکہ
متاثرہ علاقوں میں راشن کی تقسیم کے 26 پوائنٹ قائم کردیے گئے ہیں۔ پی ڈی
ایم اے کے مطابق خیبر پختونخوا کی حکومت نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے
لوگوں کے لیے خوراک کے 1000 پیکجز اور 2000 خیمے، کمبل اور بستر روانہ کیے
ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ زلزلے کے باعث قیمتی انسانی
جانوں کے ضیاع پر افسوس ہے، ان کی حکومت مشکل کی اس گھڑی میں خیبرپختونخوا
کے متاثرہ لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ پنجاب حکومت نے خیبر پختونخوا کے زلزلہ
متاثرین کے لیے امدادی اشیا کے 50 ٹرک روانہ کیے۔ پنجاب حکومت کے امدادی
سامان میں 10 ہزار خیمے، 10 ہزار کمبل، ایک موبائل ہسپتال، تین میڈیکل
ٹیمیں شامل ہیں اور 150 امدادی کارکن زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امداد
سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے روانہ کیے ہیں۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر سی ڈی
اے نے 5 سراغ رساں کتے بھی خیبر پختونخوا بھیجے ہیں، تاکہ ملبے تلے زندہ
افراد کی تلاش میں مدد دی جا سکے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی آفات پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انسان
قدرتی آفات کے سامنے بالکل بے بس ہے۔ قدرتی آفات سے دنیا میں ہمیشہ ہولناک
تباہی آتی رہی ہے، جس سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنتے رہے ہیں۔ شاید ہی دنیا
کا کوئی خطہ اس تباہی سے متاثر ہوئے بغیر رہا ہوگا۔ پاکستان میں اس سے پہلے
بھی زلزلے بدترین تباہی مچاتے رہے ہیں، جن میں سے چند بڑے زلزلے مندرجہ ذیل
ہیں۔ 24 ستمبر، 2013 کو بلوچستان میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 328
افراد جاں بحق اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے، جبکہ زلزلے کے نتیجے میں بے
گھر ہونے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔ کوئٹہ میں 16 اپریل 2013
کو ریکٹر اسکیل پر 7.9 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے جھٹکے پاکستان، ایران،
بھارت اور چند خلیجی ملکوں میں بھی محسوس کیے گئے تھے۔ اس زلزلے کے نتیجے
میں 34 افراد کی ہلاکت اور 80 کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں، جبکہ ایک لاکھ
کے قریب مکانات زلزلے کے نتیجے میں تباہ ہوئے تھے۔ 20 جنوری، 2011 کو 7.4
کی شدت سے آنے والے زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ میں محسوس کیے گئے جس کے نتیجے
میں 200 سے زاید مکانات تباہ ہوئے تھے۔ 18 جنوری، 2011 کے زلزلے کے نتیجے
میں پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں کئی افراد جاں بحق، جبکہ 200
سے زاید عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں، اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.2
ریکارڈ کی گئی تھی۔ 28 اکتوبر، 2008 کو ریکٹر اسکیل پر 6.4 کی شدت سے آنے
والے زلزلے کے نتیجے میں کوئٹہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں 160 افراد جاں
بحق، جبکہ 370 افراد زخمی ہوئے تھے اور کئی عمارتیں بھی تباہ ہوئی تھیں۔ 8
اکتوبر، 2005 کو ریکٹر اسکیل پر 7.6 کی شدت سے آنے والے زلزلے نے کشمیر اور
شمالی علاقوں میں تباہی پھیلا دی تھی۔ زلزلے کے نتیجے میں 80 ہزار سے زیادہ
افراد جاں بحق، 2 لاکھ سے زاید افراد زخمی اور ڈھائی لاکھ سے زاید افراد بے
گھر ہو گئے تھے۔ زلزلے کے بعد آنے والے 978 آفٹرشاکس کا سلسلہ 27 اکتوبر تک
جاری رہا تھا۔ 14 فروری، 2004 کو ریکٹر اسکیل پر 5.7 اور 5.5 کی شدت سے آنے
والے دو زلزلوں کے نتیجے میں خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں 24
افراد جاں بحق جبکہ 40 زخمی ہو گئے تھے۔ 3 اکتوبر، 2002 کو ریکٹر اسکیل پر
5.1 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں 30
افراد جاں بحق، جبکہ ڈیڑھ ہزار کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ 26 جنوری، 2001 کو
آنے والے زلزلے کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں 15 افراد جاں بحق، جبکہ 108
زخمی ہوئے تھے۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 6.5 نوٹ کی گئی تھی۔20 مارچ،
1997 کو ریکٹر اسکیل پر 4.5 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں باجوڑ
کے قبائلی علاقے کے گاو ¿ں سلارزئی میں 10 افرا جاں بحق ہو گئے تھے۔ 28
فروری، 1997 کو ریکٹر اسکیل پر 7.2 کی شدت کا زلزلہ پورے پاکستان میں محسوس
کیا گیا،اس زلزلے کے نتیجے میں 100 سے زاید افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ 31
مئی، 1995 کو نصیر آباد ڈویڑن کے بگٹی پہاڑوں کے دامنی علاقوں میں آنے والے
5.2 شدت کے زلزلے کے نتیجے میں ایک درجن مکانات تباہ اور 5 افراد زخمی ہو
گئے تھے۔28 دسمبر، 1974 کو ریکٹر اسکیل پر 7.4 کی شدت کے زلزلے سے ہزارہ،
ہنزہ، سوات اور خیبر پختونخواہ میں5003 ہلاکتیں ہوئی تھیں ،جبکہ 17 ہزار
افراد زخمی اور 4 ہزار چار سو مکانات بھی تباہ ہو گئے تھے۔ 10 ستمبر 1971
کو گلگت کے کچھ علاقوں میں شدید زلزلہ آیا تھا جس کے نتیجے میں 100 سے زاید
افراد جاں بحق، جبکہ ایک ہزار سے زاید مکانات تباہ ہو گئے تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ زلزلے سے ملک کے متعدد علاقوں میں کافی نقصان
پہنچا ہے، اگرچہ حکومت اور فوج کی جانب سے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن
ایسے مواقع پر اکثر دوردراز کے علاقے امداد سے محروم رہ جاتے ہیں، کیونکہ
ان تک نہ تو میڈیا کی رسائی ہوتی ہے اور نہ ہی جلدی امدادی سرگرمیاں شروع
کی جاتی ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ متاثرین
زلزلہ کی فوری بحالی کی کوشش کریں۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ
2005ءمیں آزاد کشمیر میں ہونے والی تباہی کے سیکڑوں متاثرہ افراد ابھی تک
حکومتی امداد کے منتظر ہیں، یہ نہ ہو کہ کشمیر زلزلے کے متاثرین کی طرح
حالیہ زلزلہ کے متاثرین بھی امداد سے محروم رہ جائیں۔ نہ صرف حکومتی اداروں
بلکہ تمام سیاسی جماعتوں اور فلاحی اداروں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ حالیہ آنے والے زلزلہ سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے پوری جانفشانی سے
کام کریں، تاکہ ان کی بحالی کا کام جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جا
سکے۔ دوسری جانب علمائے کرام نے کہا ہے کہ اس قسم کی آفات قدرت کی جانب سے
انسانوں کے لیے امتحان ہوتا ہے۔ زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے، جس کا مقابلہ کرنا
کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ زلزلے کے ظاہری اسباب اپنی جگہ، لیکن قدرتی
آفات کا سبب انسانوں کے اعمال ہی ہوتے ہیں۔ جب معاشرے میں گناہوں کی کثرت
ہوجاتی ہے تو زلزلے اورقدرتی آفات آتی ہیں۔زلزلہ قدرتی آفت ہے ۔ ناانصافی
،بے راہ روی اور بے حیائی و فحاشی قدرتی آفات کا سبب بنتی ہیں۔ پوری قوم کو
توبہ واستغفار کی ضرورت ہے۔ علمائے کرام نے زلزلے کو خدائی تنبیہ قرار دیتے
ہوئے قوم سے اللہ کی طرف رجوع اور اجتماعی استغفار کرنے کی اپیل کی ہے اور
کہا ہے کہ کسی بڑے نقصان سے ملک و قوم کے محفوظ رہنے پر اللہ رب العزت کی
بارگاہ میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعائے
مغفرت اور زخمیوں کے لیے شفایابی کی دعائیں کی جائیں، قوم متاثرین زلزلہ کی
امداد میں اسلامی ایثار کا بھرپور مظاہرہ کرے۔اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف
رجوع اور اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام وقت کا تقاضا ہے۔ ہر فرد اپنا
محاسبہ کرکے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی کا اہتمام کرے۔ |
|