ابھی یہ خبر ٹی وی سکرین پر زیر
گردش تھی کہ کاغان ناران میں شدید برف باری کی وجہ سے سیاح پھنسے ہوے
ہیں۔سڑکوں پر آمدو رفت معطل ہو چکی ہے جبکہ سیاح اس صورتحال پر پریشان اور
متفکر ہیں کہ اچانک پورا پاکستان ہولناک زلزلے کے جھٹکوں سے لرز اٹھا
۔لوگوں کے لبوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہو گیا اور ہر فرد گھر سے باہر
نکل آیا ۔ملک کے کونے کونے میں اذانوں کی صدا گونجنے لگی۔ اک قیامت صغریٰ
تھی جو برپا ہو چکی تھی۔ہر چہرہ متفکر تھا۔اپنے اپنے پیاروں کو فون ملائے
جا رہے تھے لیکن بعض جگہوں پر نیٹ ورک کی خرابی رابطے میں خلل کا باعث بن
رہی تھی جس سے مذید تشویش جنم لے رہی تھی۔اور انسان اس قدرتی آفت کے سامنے
کس قدر بے بس تھا۔ لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز آزمائش کی اس
گھڑی سے محفوظ رہنے کی دعا کر رہے تھے۔ اس قیامت خیز منظر کی تصویر کشی
الفاظ کے جامہ میں ممکن نہیں۔اس لرزہ خیز صورتحال کے باوجود یہ حقیقت بھی
مد نظر رکھنی چاہیے کہ حوصلہ مند اقوام ایسے حالات و واقعات سے سبق سیکھتی
ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوے اک نئے حوصلے،ولولے
اور ہمت سے نوامیدی کے جذبے کے سنگ مستقل محنت کو شعار بنا کر ترقی کے نئے
امکانات کی جستجو میں مگن ہو جاتی ہیں۔ اسی جذبے کے تناظر میں پاکستان کی
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پاکستانیوں پر سیلاب یا زلزلہ کی صورت ابتلا کا
آغاز ہوا تو پوری قوم سیلاب زدگان اور زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے اٹھ
کھڑی ہوئی اور اس قدر بھاری سازو سامان اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے
روانہ کیا کہ چشم فلک بھی حیرت میں مبتلا ہو گئی کہ ایک غیور قوم کس قدر
جذبہ ایمانی سے منور ہے اور احساس جیسے بلند وصف پر فائز ہے۔اب اگر بات کی
جائے حالیہ زلزلہ کی تو یہ اپنی نوعیت کے اعتبا ر سے بہت شدید تھا لیکن خدا
ئے بزرگ و برتر کا شکر ہے کہ جانی و مالی نقصان خدشات کے برعکس رہا جو کسی
حد تک زلزلہ کی شدت کو مد نظر رکھتے ہوے حوصلہ افزا ہے۔رب کریم کا لاکھ
لاکھ شکر ہے کہ اس ہولناک زلزلہ کے باوجود وطن عزیز بہت بڑے نقصان سے محفوظ
رہا ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان اکثر و بیشتر سیلاب اور زلزلہ کی زد میں رہتا
ہے اور ہماری حکومت وقتی طور پر تو صورتحال سے نمٹنے کے لیے بظاہر بڑی
متحرک اور فعال نظر آتی ہے اور عوامی خدمت کی بجا آوری کے بھی بلند و بانگ
دعوے کرتی نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصیبت کی یہ گھڑی ٹل جانے کے بعد
نہ تو سیلاب کی روک تھام کے ضمن میں ہنگامی بنیادوں پر کوئی انقلابی اقدام
نظر آتے ہیں اور نہ ہی زلزلہ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کے لیے
جامع،موثر اور مربوط نظام وضع کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔حکومت ان
درپیش حالات میں ڈنگ ٹپاو پالیسی پر عمل پیرا ہو کر کام چلا لیتی ہے اور
پھر جب سال دو سال بعد اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وسائل
کی عدم دستیابی اور سہولتوں کے ناکافی ہونے کا جواز گھڑ کر ایک مرتبہ پھر
بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ غفلت کا یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور نہ جانے کب
تک جاری رہے گا ۔یہ مشق کسی بھی غیور قوم کے لیے نامناسب ہے۔حکومت کا فرض
ہے کہ اب ہنگامی بنیادوں پر سیلاب اور زلزلہ کے سانحات کے پس منظر میں کوئی
غیر معمولی اور قابل قدر لائحہ عمل وضع کرے جس سے متاثرہ علاقوں اور متاثرہ
افراد کی بروقت امداد کو یقینی بنایا جا سکے اور وہ واقعات جو غفلت اور
لاپرواہی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں کم از کم ان سے بچا جا سکے۔اور ساتھ ہی
ذمہ داران اہلکاروں کی مجرمانہ غفلت پر پردہ ڈال کر سب کچھ مشیت الٰہی کے
کھاتے میں ڈالنے کی روش کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کر دینا چاہیے۔ اب
تک جو ہو چکا سو ہو چکا ۔ اب مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوے سیلاب اور زلزلہ
کی تباہی و بربادی سے محفوظ رہنے کے لیے جہاں تک ممکن ہو سکے احتیاطی
تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
اگرچہ قدرتی آفات کا مقابلہ تو بڑے بڑے ملک بھی نہیں کر پائے ۔ایسے ایسے
سمندری طوفان برپا ہوے جنہوں نے ترقی یافتہ ممالک کے بیشتر علاقوں کو اپنی
لپیٹ میں لے کر نیست و نابود کر دیا اور طاقت کی علامت وہ ممالک قدرت کے
سامنے بے بسی کی تصویر بن گئے اور ارضی و سماوی آفت کے سامنے لاچار و مجبور
دکھائی دیے ۔ ان سب حقیقتوں کے باوجود حکومتی سطح پر ایسے اقدامات تو نظر
آنے چاہئیں جو عوام کے لیے باعث اطمینان ہو ں کہ حکومت ان آفتوں سے نمٹنے
کے لیے سنجیدگی سے عملی قدم اٹھا رہی ہے لیکن حقیقت حال کچھ یوں ہے کہ
حکومت وقتی طور پر تو بادل نخواستہ اقدامات کرتی ہے لیکن مصیبت کی یہ گھڑی
گزر جانے کے بعد سب کچھ بھول جاتی ہے اور پھر دوبارہ اسی نوع کے کسی سانحہ
کے رونما ہونے پر بیدار ہوتی ہے۔پے در پے سیلابوں اور زلزلوں کی ہولناکی سے
سبق سیکھتے ہوے اب حکومت کو دور رس نتائج کے حامل اقدامات کے علاوہ آسمانی
آفات کی بدولت ہونے والے نقصان کے پیش نظر ایک بھر پور فعال محکمے کا قیام
عمل میں لانا چاہیے جو براہ راست وزیر اعظم کے کنٹرول میں ہو جو گزشتہ
سانحات کا جائزہ لے کر ایسی مربوط پالیسی مرتب کرے جس کے اطلاق سے خاطر
خواہ فائدہ ہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی فرض ہے کہ مصیبت کی اس
گھڑی میں آفت کا شکار بھائیوں کی دل کھول کر مدد کریں۔جو بچے یتیم ہو چکے
ان پر دست شفقت رکھیں۔جن کے گھر اجڑ گئے۔جو چھت کے سائے سے محروم ہو گئے۔
جن کے پیارے ابدی نیند سو گئے ان کو تسلی،تشفی اور دلاسہ دینے کے علاوہ
عملی طور پر بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ان کو
احساس نہ ہو کہ وہ تنہا ہیں۔ |