جمہوریت کا میک اپ زدہ حسن
(shafqat nazir, Stoke-on-trent)
پتہ نہیں شائید ہمارے ہاں جمہوریت کا یہ میک اپ زدہ حسن بہتر ہے یا پھر کسی میک اپ کے بغیر آمریت کی بدصورتی۔۔۔!۔ |
|
حسن دو طرح کے ہوتے ہیں ایک حسن
باطنی ہوتا ہے اور ایک ظاہری۔ ظاہری حسن کے لئے میک اپ کا سہارا لیا جاتا
ہےاور اس سے کسی بھی واجبی صورت کو حسین و جمیل بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن جب
یہ میک اپ اترتا ہے تو پھر وہی اصل چہرہ سامنے آجاتا ہے آج کا موضوع
چونکہ جمہوریت اور اس کا حسن ہے اس لئے زیادہ تمہید کی بجائے اسی طرف
آجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس وقت جمہوریت ہی ایک ایسا نظام ہے جسے ملکی اور
عوامی فلاح و بہبود کے لئے سب سے بہتر گردانا جاتا ہے اور اگر بغور جائزہ
لیا جائےتو بعض ممالک میں جمہوریت صحیح طور پر پروان چڑھ رہی ہے۔ وہاں کے
لوگ اور ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں برطانیہ جیسی فلاحی ریاست بھی
اسی جمہوریت کے مرہون منت ہے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کے راستے اکثر
آمریت نے روکے تاہم اس کے باوجود اسے جتنا بھی وقت ملا ہے خود اس کے چاہنے
والوں اور اس پر سوار ہوکر آنے والوں نے بھی اس کے ساتھ کوئی بہتر برتائو
نہیں کیا ہے۔ جمہوریت کے حقیقی حسن کی بجائے اس کےظاہری حسن پر زیادہ توجہ
دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں تو کچھ سیاستدان صرف اس کے میک اپ پر ہی یقین رکھتے
ہیں اور شاید عوام بھی ظاہری حسن کو ہی پسند کرتی ہے۔ جمہوریت کا باطنی حسن
اقتدار کے ایوانوں کے مکینوں کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں ہے لوگوں کے اصل
مسائل سال ہا سال سے حل طلب ہیں ان کی بنیادی ضروریات، صحت، تعلیم، روزگار،
توانائی اور مہنگائی جیسے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ ان پر بات تو ہوتی
ہے لیکن صرف انتخابی مہم کے دوران،محض نعروں کی حد تک پھر اس کے بعد شاید
چراغوں میں روشنی ہی نہیں رہتی۔ آج بھی جمہوریت کا حسن تو ہمیں نظر آرہا
ہے لیکن یہ حسن میک اپ زدہ ہےبڑے بڑے پل، شاہراہیں اور میٹروبس کی شکل میں
۔مواصلات کی ترقی سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ تب ہی اچھی لگتی ہے جب آپ
کے ہسپتال صاف ستھرے ہوں، وہاں صحت کی تمام سہولیات میسر ہوں، ادویات جعلی
نہ ہوں، ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد سب سے پہلے رکھی جاتی ہے اس کے بعد
دوسرے چیزیں آتی ہیں۔ تعلیم و تربیت کے وسائل موجود ہوں،تعلیم کا معیار
بہتر ہو، لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں، توانائی کے بحران نہ ہوں،
مہنگائی کے جن کو کنٹرول کرنے کا میکزم موجود ہو، اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو
پھر مواصلات کی ترقی بے معنی ہوجاتی ہے۔ اسے کاسمیٹک ترقی تو کہا جاسکتاہے
اورعام فہم زبان میں شائید اسےمیک اپ زدہ جمہوریت کا حسن ہی کہا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری عوام اس میک اپ زدہ حسن سے متاثر ہوکر
اگلے الیکشن میں پھرانہیں آزمودہ سیاستدانوں کے نعرے لگا رہی ہوگی مگر کیا
یہ واقعی پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل ہے۔
اکتوبر 2005ء میں ہمیں ایک خوفناک زلزلے کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہونا پڑا
تھا اس وقت بھی ناگہانی آفات سے نبٹنے کے لئے ہمارے پاس کوئی خاطر خواہ
انتظامات موجود نہیں تھے۔ آج 10 سال بعد پھر ایک خوفناک زلزلے نے ہمیں
آلیا ہے اس بار اگرچہ جانی و مالی نقصان 8اکتوبر 2005ء کے زلزلے سے بہت کم
ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس بار بھی ہمارے پاس اس ناگہانی آفت سے
نبٹنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔کیونکہ ہم جعلی قسم کے کاسمیٹیک اقدامات کرنے کے
عادی ہیں۔ ہم نے 2005ء کے بعد بڑے بڑے سیل بنائے، لیکن دیکھنے میں یہ آیا
کہ پھر ایک بار فوج ہی ہمارے کام آئی جیسا کہ 2005ء کے زلزلے کے وقت یہی
فوج ہی ایک واحد ادارہ تھا جس کے پاس انتظامات موجود تھے۔ حکومتی سطح پر
آج بھی ہم خالی تھے۔ ہماری جمہوریت کا اصل حسن شاید یہی ہے کہ ہم کبھی بھی
کسی بھی واقعہ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ بلڈنگز کوڈ تک کا تو ہم اطلاق نہیں
کروا سکے باقی اور کیا کریں گے۔افسوس کہ ہماری گھٹی میں بد عنوانی اور
کرپشن کا زہر اب حیات کے دھوکے میں ٹپکایا گیا ہے جو ہر جگہ اپنا اثر
دکھاتا ہے۔
جب بھی یہ خبر آتی ہے کہ آج فلاں پل کا افتتاح کیا گیا آج فلاں فلائی
اوور کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور آج فلاں میٹرو کا ٹریک مکمل ہوگیا تو
سوچتاہوں کہ ایسی خبر کب آئے گی کہ آج پاکستان میں دنیا کی بہترین
یونیورسٹی کا افتتاح کیا گیا۔ آج پاکستان کے تمام ہسپتالوں کو جدید
سہولیات اور خطوط سے آراستہ کرنے کے پروگرام کا اعلان کیاگیا۔ آج ایک
ایسے قومی ادارے کے قیام کا اعلان کیاگیا جو قدرتی آفات سے نبٹنے کی
صلاحیت اور سہولیات سے مکمل طور پر آراستہ ہوگا۔ اور آج رشوت، کک بیکس،
بدعنوانی، دھاندلی سے توبہ کا اعلان کیا گیا۔ آخر ایسی خبر کب آئے گی کہ
صحیح معنوں میں جمہوریت کے باطنی حسن کی طرف جب توجہ دی جائے گی۔ محض میک
اپ سے جمہوریت کے حسن کو داغدار نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ کسی بھی واجبی
صورت کو میک اپ کا سہارا لے کر وقتی طور پر تو حسین و جمیل بنایا جاسکتا ہے
لیکن جب یہ میک اپ اترتا ہے تو پھر وہی اصل چہرہ سامنے آجاتا ہے پتہ نہیں
شاید ہمارے ہاں جمہوریت کا یہ میک اپ زدہ حسن بہتر ہے یا پھر کسی میک اپ کے
بغیر آمریت کی بدصورتی؟
|
|