یہ زندگی یہ اپسرا

ادیب سہیل روایتوں کے امین ضرور ہیں، مگر ترقّی پر قدغن اُن کا شیوہ نہیں، وہ ہر نئی تخلیق کو خوش آمدید کہتے ہیں، اُس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
نام کتاب: یہ زندگی یہ اپسرا
مصنف: ادیب سہیل
ناشر: رباب۔ B-414 ، بلاک B ، روفی ہیون،13-D، گلشن اقبال، کراچی۔۵۷۳۰۰
قیمت: ۳۰۰ روپے
صفحات: ۴۹۶

مبصر: صابر عدنانی
زیرِنظر کتاب ’’یہ زندگی، یہ اپسرا‘‘ ادیب سہیل کا شعری مجموعہ ہے۔ اِس مجموعے میں ادیب سہیل نے اپنی زندگی کے تقریبًا تمام اہم تجربات سمیٹ لیے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی زندگی کے حقیقی کرداروں کے جذبات و احساسات محسوس کرتے ہوئے اُنھیں منظوم کیا۔ ادیب سہیل صوفی منش انسان ہیں، اُن کی شخصیت میں کسی بھی طرح کی بناوٹ یا تصنّع کا نام تک نہیں، اُنھوں نے ادب کے کاموں میں غیرضروری شہرت اور مالی منفعت کو اپنے پاس تک نہ پھٹکنے دیا۔وہ ادب کی گروپ بندیوں سے بالاتر سب کے ادیب سہیل رہے۔ جس کسی سے ملتے، اُسے اپنا بنالیتے؛ اُن کی یہ خوبی اُن کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔

’’یہ زندگی، یہ اپسرا‘‘ ادیب سہیل کی مشہورنظم ہے اِسی نظم پر کتاب کا نام رکھا گیا ہے۔ اِس نظم میں وہ زندگی کو ایک پری سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ اِس پری کی کھوج میں بادلوں کی سیرکرکے جب زندگی کی طرف لوٹتے ہیں تواُنھیں ایک کچھ میلی، کچھ اجلی تصویر نظر آتی ہے جو آم کی کسی چوسی ہوئی گٹھلی کی طرح ایک طرف پڑی ہے۔

نظم ’’سب سے بڑا غم‘‘ میں ادیب سہیل نے ہجرتوں کے وہ دکھ اور حالات پیش کیے ہیں ، جنھیں اُنھوں نے اپنی دو مرتبہ کی ہجرت میں محسوس کیا۔ لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کا غم،بھوک، افلاس، انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کا قتل،یہ سب مل کر ایک ایسا المیہ تخلیق کرتے ہیں جس کا اثرانسانی زندگی پر ہمیشہ رہتا ہے۔ یہی المیہ ادیب سہیل نے اپنی زندگی میں شدّت سے محسوس کیااور اپنے جذبات کو ایک نظم کی صورت میں پیش کرکے قاری کو اِس المیے میں شریک کرلیا۔
اُن کی نظم ’’آدمی‘‘ملاحظہ ہو:
عظمتِ آدم اِسی میں ہے کہ کچھ
خوبیوں کے ساتھ کمیاں بھی رہیں
جو بھی اِن جملہ محاسن سے ہے لیس
وہ مری دانست میں ہے اک مکمّل آدمی

وہ آدمی کی عظمت اسی میں سمجھتے ہیں کہ تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ایک آدمی مکمّل ہوتا ہے۔

ادیب سہیل روایتوں کے امین ضرور ہیں، مگر ترقّی پر قدغن اُن کا شیوہ نہیں، وہ ہر نئی تخلیق کو خوش آمدید کہتے ہیں، اُس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ نظم ’’خیرمقدم‘‘ میں اُنھوں نے آنے والے دور کو کھلے ذہن سے تسلیم کرنے کی ترغیب دی ہے، وہ تفکّر اور تعقّل کے قائل ہیں۔ نئی سمت کی طرف رغبت اور نئے فکر کی حوصلہ افزائی کو وہ روشن خیالی سمجھتے ہیں۔ اُن کے خیال میں کسی بھی نئی تخلیق کی مخالفت کرنا بدترین فعل ہے۔اُن کے نزدیک کسی نئی لہر، کسی نئی تخلیق کو کبھی کوئی نہیں روک سکا، یہ دریا رواں دواں رہتا ہے، اسے سفر کرنے دیا جائے تاکہ تازہ شگوفوں کی بہاریں آسکیں۔

ادیب سہیل اپنے پسندیدہ شاعروں میر، غالب، اقبال، یگانہ، فیض، امیرخسرو، بیدل، لورکا، پابلو نیرودا، ناظم حکمت،اوکتایوپاز، ایرن کریمر، گریگوریکورسو، رابندر ناتھ ٹیگور،نذرالاسلام، کوی جسیم الدّین، لوہسوں، نجیب محفوظ اور امرتاپریتم کی تحریریں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں تو پھر اُن کا وژن کیوں نہ وسیع ہو۔وہ عام لوگوں سے مختلف سوچتے ہیں اور اپنی سوچ کو حقیقی کرداروں کے حوالے سے شاعری کے پیرائے میں ڈھال دیتے ہیں۔

ادیب سہیل نے شاعری کا آغاز ۱۹۴۸ء میں کیا اور اردو کے مؤقّرجرائدآئندہ، ادبیات، افکار، تحریر، تسطیر، روشنائی، سفیرِاردو، سیپ، علامت، فنون، قند، کہکشاں، لفظ لوگ، ماہِ نو اور مکالمہ وغیرہ میں اُن کا کلام شائع ہوتا اور اہلِ نظر سے خراجِ تحسین وصول کرتا رہا ہے۔

فنِّ شاعری ہو، موسیقی ہو یا رقص، ادیب سہیل نے فنونِ لطیفہ کی اِن سب اصناف پر اظہارِ خیال کیا ہے اور شاعری کو تو اظہارِ خیال کا ذریعہ بھی بنایا۔شاعری سے شغف رکھنے والا ہر شخص اُن کی تحریروں سے اُسی طرح استفادہ کرسکتا ہے جس طرح اُن کے نثری مضامین سے کرسکتاہے۔ ادیب سہیل دنیاے شاعری کے جانے مانے لوگوں میں ہراول دستے میں نظر آتے ہیں اور شاعری پر اُن کی دست رس سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا۔

ادیب سہیل شاعر، ادیب، ڈراما نگار،تبصرہ نگار، موسیقار اور صحافی ہیں اور اِن سب حیثیتوں میں ہر جگہ منفرد مقام کے حامل بھی۔اُن کا شمار ہمارے عہد کے بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ادیب سہیل نے اپنا کام انتہائی دیانت داری سے مکمّل کیا ہے۔ اُن کے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے،جنھیں یک جاکرنے کی اشدضرورت ہے۔ اگر یہ کام کوئی ادارہ یا کوئی صاحبِ ذوق شخص کردے تو آنے والوں کے لیے سنگِ میل کی حیثیت اختیارکرجائے گا۔
 
صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 86760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.