زلزلے نے کئی واقعات یاد کرا دیئے!

میں اپنے دفتر میں کام کر رہا تھا کہ اچانک زلزلے کے تیز اور مسلسل جھٹکے شروع ہو گئے۔مسلسل تیز جھٹکو ں کے بعد میرے دفتر کا کمرہ مشرق اور مغرب کی جانب ڈولنے لگا۔بچپن سے راولپنڈی میں کئی بار زلزلے آتے دیکھے لیکن اس زلزلے کے جھٹکے2005ء کے تباہ کن زلزلے سے بھی زیادہ شدت سے محسوس ہوئے،شدید جھٹکوں کے بعد گھر پینڈولیم کی طرح جھولنے لگا تو ذہن میں بجلی سی چمکی،کیا سب ختم؟ دوران زندگی بس اتنا ہی تھا؟امریکی جیولاجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا نیا مرکز القادریہ کیران و مرجان ہے جہاں اس کی شدت سات اعشاریہ پانچ تھے جبکہ پاکستان کے زلزلہ پیما مرکز کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد میں زلزلے کی شدت 8.1تھی۔حکام کے مطابق زلزلے سے مجموعی طور پر ملک بھر میں260 سے زیادہ افراد ہلاک اور 1800 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔اس زلزلے کا مرکز رواں برس اپریل میں نیپال میں آنے والے زلزلے کے مرکز کے مقابلے میں زیادہ گہرا تھا۔ نیپال کے زلزلے کی شدت 7.8 تھی اور اس کی گہرائی آٹھ کلومیٹر کی تھی اور دوبارہ آنے والے جھٹکوں کی شدت 7.3 تھی۔اسی طرح 2005 میں کشمیر کے تباہ کن زلزلے کی شدت 7.6 تھی اور اس کی گہرائی 26 کلو میٹر تھی۔اس کے مقابلے میں اس زلزلے کے مرکز کی گہرائی دو سو کلو میٹر بتائی جا رہی ہے۔زلزلے کے شدید جھٹکے پاکستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھی شدت سے محسوس کئے گئے ۔

قدرتی آفات، حادثات اوربڑے واقعات انسان کو ہمیشہ یاد رہتے ہیں اور اس کی یادیں انسان پر گہر ے اثرات بھی مرتب کرتی ہیں۔میری زندگی کا پہلا غیر معمولی واقعہ،جو میری یاداشت میں محفوظ ہے،وہ سقوط ڈھاکہ کا المناک واقعہ تھا۔اس وقت میری عمر تقریبا چھ سال تھی جب ہمارے گھر بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی وژن پر ڈھاکہ میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تقریب براہ راست دکھائی جا رہی تھی۔اس دن ہمارے گھر گہری خاموشی چھائی تھی اور مجھے یاد ہے کہ اس دن گھر میں کھانا بھی نہیں پکا۔میرے والد کمرے کے دروازے کے قریب زمین پر بیٹھ کر یوں ٹی وی پر ہتھیار ڈالنے کی تقریب دیکھ رہے تھے کہ جیسے وہ اٹھ کر کمرے سے نکل جانا چاہتے ہیں۔اس دن میں نے اپنی زندگی میں پہلی اور آخری بار اپنے والد کی اآنکھوں میں آنسو دیکھے۔اس سے پہلے کا ،تین چار سال عمرکا ایک واقعہ یہ بھی یاد ہے کہ جنرل ایوب خان کے خلاف طلبہ کی تحریک میں میرے ماموں (بشیر احمد وانی) کے دوست ان کو لینے کے لئے میرے نانا کے گھر(چھوٹا احاطہ صدر راولپنڈی) میں آئے ،اور مجھے گود میں لیکر مجھے ایوب کے خلاف نعرہ لگانے کو کہا،میں نے فورا اپنی توتلی زبیان میں اس وقت کا مقبول نعرہ دہرا دیا،’’ ایوب کتا ہائے ہائے‘‘، اس پر وہ سب بہت خوش ہوئے اور مجھے ہاتھوں ہاتھ لینے لگے۔ماموں کے دوست مجھے گود سے اتار کرجانے لگے تو میں ساتھ جانے کو مچل گیا،دیکھا کہ وہ مجھے ساتھ نہیں لے جا رہے تو میں نے ان کے جذبات سمجھتے ہوئے پورے جذبے اور شدت سے نعرے لگانے شروع کر دیئے’’ ایوب خان زندہ باد ‘‘ ۔ماموں کے دوست فورا واپس پلٹ آئے اور مجھے گود میں اٹھا کر جلوس کی شکل میں احاطے کے باہر سڑک تک لائے۔

میں 13سال کا تھا جب1977ء میں بھٹو کے دور حکومت میں الیکشن ہوئے۔میں ’’9ستارے‘‘ والے قومی اتحاد کی انتخابی مہم کے جلسوں ،جلوسوں میں پورے جوش و جذبے سے شامل ہوتا رہا۔لیاقت باغ میں ایک بہت بڑے جلسے میں بھی شرکت کی جس میں قومی اتحاد کے تمام مرکزی رہنما موجود تھے۔اس جلسے کی دوباتیں مجھے یاد ہیں کہ بیگم نسیم ولی خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ قومی اتحاد کی حکومت آئی تو وہ عورتوں کو برقعے پہنا دیں گے، دیکھو،کیا میں نے برقع پہنا ہوا ہے؟‘‘ اس پر پرجوش تالیاں بجائی گئیں۔بیگم نسیم ولی خان چادر میں ملبوس تھیں۔اس جلسے کی دوسری بات جو یاد ہے وہ ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی تقریر کا وہ جملہ ہے کہ جس میں انہوں نے بھٹو کو کوہالہ پل پر پھانسی دینے کی بات کی تھی۔اس الیکشن میں دو نعرے بہت مقبول تھے’’بھٹو کے مے خانوں میں ہل چلا دو ہل چلا دو‘‘۔ہل قومی اتحاد کا انتخابی نشان تھا۔دوسرا نعرہ’’ سات مارچ دس مارچ ،پیپلز پارٹی کوئک مارچ‘‘۔سات مارچ کو قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے ،میں نے سائیکل پر سوار ہو کر راولپنڈی شہر کے کئی پولنگ سٹیشنوں کا دورہ کیا،ہر جگہ قومی اتحاد کے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن نتائج میں قومی اتحاد ہار گئی اور پیپلز پارٹی جیت گئی۔اس پر قومی اتحاد نے دس مارچ کو ہونے والے صوبائی الیکشن کا بائیکاٹ کر کے بھٹو کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔قومی اتحاد کے کارکن گرفتاریاں دیتے اور اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد وہاں جمع ہو کر مظاہرہ کرتی۔پھر ایک دن صبح صبح والدہ نے مجھے نیند سے بیدار کر کے کہا،’’ بھٹو کی حکومت ختم ہو گئی ہے‘‘ ،میں فورا نیند سے اٹھ بیٹھا لیکن میرا ذہن یہ تسلیم کرنے سے قاصر تھا کہ بھٹو کی مضبوط حکومت کس طر ح ختم ہو سکتی ہے ؟ میری بے یقینی دیکھ کر والدہ نے بتایا کہ ملک میں فوج نے مارشل لاء لگا دیا ہے اور بھٹو گرفتار ہو گیا ہے۔

ایک دن سکول میں اچانک چھٹی کر دی گئی اور کہا گیا کہ ہم کہیں اور جانے کے بجائے فوری طور پر اپنے گھروں کو پہنچیں۔حیرانگی کے عالم میں گھر پہنچے تو ٹی وی کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک مسلح گروپ نے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر وہاں قبضہ کر لیا ہے۔خانہ کعبہ میں لڑائی ہوئی او ر اس مسلح گروپ کا قبضہ ختم کر ادیا گیا۔شاید1984ء تھا ،کہ اچانک کسی نے آ کر بتایا کہ اندارا گاندھی کو اسی کے سکھ محافظوں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔اس اطلاع پر اس وقت میں نے خوشی محسوس کی ۔اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے اندارا گاندھی کی حکومت میں ہی بھارتی فوج نے سکھوں کے مقدس مقام امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا تھا۔اس حملے میں بڑی تعداد میں سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان کی جدوجہد کرنے والے سکھ ہلاک کئے گئے تھے۔

اپریل1988ء میں صبح تقریبا دس بجے شدید دھماکے سے خوف و ہراس پھیل گیا۔ابھی معلوم کرنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ دل کو دہلا دینے والے دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔باہر نکل کر دیکھا تو مشرق کی جانب دور کہیں یوں دھواں اٹھتا نظر آیا کہ جیسے ایٹم بم پھٹتے وقت دھواں ٹی وی پر دیکھا تھا۔گھر کے سامنے میدان میں جمع ہوئے تو آسمان میں جنگی طیاروں کی آوازیں آ رہی تھیں لیکن کوئی جہاز نظر نہیں آ رہا تھا۔آسمان پر بہت بلندی پر میزائیل کی طرح کی کوئی چیزیں اڑتی نظر آئیں۔ پہلا خیال یہی آیا کہ کہوٹہ کے ایٹمی پلانٹ پر کسی نے حملہ کر دیا ہے،مجھے غصہ آ رہا تھا کہ طیاروں کی آوازیں یوں آ رہی تھیں کہ جیسے دشمن کے طیارے بار بار آ کر حملے کر رہے ہیں،میں سے سوچا کہ ان ڈنڈیوں جیسے میزائلوں سے جہازوں کا کیا بگڑے گا۔کچھ دیر بعد معلوم ہو اکہ فیض آباد میں واقع فوج کے اوجڑی کیمپ میں اسلحے کا ڈپو پھٹ گیا ہے۔ہم بھاگ رہے تھے اور میزائل ہمارے دائیں ،بائیں گر رہے تھے،ایسے میں کئی ہلاکتیں بھی دیکھیں۔ان دھماکوں میں ایک سو افراد کے ہلاک ہونے کی بات کی گئی لیکن میرا خیال ہے کہ ہلاکتیں بہت کم ظاہر کی گئی تھیں۔وزیر اعظم نواز شریف نے فوجی اسلحہ ڈپو کی تباہی کی تحقیقات او ار اعلی فوجی افسران کے لئے ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں کے استعمال کی پابندی لگائی تو جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کی حکومت کو ختم کر دیا۔اسی سال جنرل ضیاء الحق بہاولپور میں فوجی مشقیں دیکھنے کے بعد کئی اعلی فوجی افسران اور امریکی سفیر سمیت سی ون تھرٹی طیارہ گرنے سے ہلاک ہو گئے۔یہ طیارہ کیسے تباہ ہوا، یہ معمہ لیاقت علی خان کے قتل کی طر ح عوام کے لئے آج تک حل نہیں ہو سکا۔1988ء میں ہی مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے آزادی کی مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا ،جو اب تک مختلف انداز میں اب تک سرگرمی سے جاری ہے۔

1992میں سیلاب آیا تو میں مظفر آباد میں تھا،دریائے جہلم اور نیلم میں اتنا زیادہ پانی آیا کہ دریاؤں کا پانی پلوں کی سڑک کو چھونے لگا،اکثر چھوٹے بڑے پل تباہ ہو گئے،دریا میں اتنے درخت بہتے دیکھے کہ یقین نہیں آتا تھا۔آزاد کشمیر اس سیلاب سے شدید متاثر ہوا اوراس سیلاب نے پورے پاکستان میں تباہی پھیلائی۔1998ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور بھارت نے پاکستان سے مزید ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی درخواست کی،یہ ایک بڑی خوشی کا دن تھا۔31دسمبر2001 ء کو میرے والد خواجہ عبدالصمد وانی مظفر آباد میں ناگہانی طور پر ’ہارٹ اٹیک‘ سے فوت ہو گئے۔جنرل پرویز مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کاتختہ الٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پھر مشرف دور حکومت اور اس کا خاتمہ تو ماضی قریب کی بات ہے۔8اکتوبر2005ء کوتباہ کن زلزلہ جس سے ایک لاکھ کے قریب انسان لقمہ اجل بنے۔میں زلزلے کے دوسرے دن مظفر آباد پہنچا۔ مکانات ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل،جا بجا بکھری لاشیں،پرانا شہر ملبے کا ڈھیر،جہاں داخل ہوتے خوف محسوس ہوتا تھا۔ہر سو پھیلی انسانی لاشوں کی عجیب سے بدبو۔بیٹے،بیٹی،ماں ،باپ ،بہن بھائی،قریبی رشتہ داروں کا اپنے پیاروں کو اپنی اآنکھوں کے سامنے مرتے دیکھنا،راستے پہ چلتے ہوئے خاموش زبان میں محض انگلیوں کے اشاروں سے بتانا کہ ان کے کتنے پیارے زلزلے کا نشانہ بن گئے ہیں۔یہ چند ایک واقعات ہیں جو26اکتوبر 2015ء کے 8.1شدت کے زلزلے سے ذہن میں دوڑ گئے،ذہن میں اور بھی کئی واقعات ہیں جو لکھنا چاہتا تھا۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698794 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More