موت کو کون روک پایا ہے؟
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
فل ہیوز کی موت میں بانسر اور
ہیلمٹ کا کتنا قصور ہے؟؟ نوجوان آسٹریلوی بلے باز کی ناگہانی موت پر 2014
میںعالمی کرکٹ سوگ میں مبتلا رہی ہے ،عالمی کرکٹ میں بانسر کے خاتمے پر زور
دیا جاتا رہا، نئے ہلمٹ متعارف کرانے پر غور ہوتا رہا ۔ مگر کیا بانسر کا
خاتمہ اور اچھا ہلمٹ کسی انسان کا سفر آخرت روک سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں روک
سکتاہیلمٹ موت کو۔، ہیلمٹ پہنے ہوئے فل ہیوز کے سر کے بجائے گردن کی طرف
کرکٹ کی گیند بڑھی تو اسکی زندگی کے خاتمہ کا باعث بن گی۔جسم و روح کی
سلامتی ایسے امور میںشامل ہے جسے انسان ہمیشہ چاہتا ہے۔ دیکھ دیکھ کر قدم
ڈالتا ہے ، دائیں بائیں اور سامنے دیکھ کر موٹر سائیکل چلاتا ہے مگر پھر
بھی حادثہ ہوجاتا ہے ، قصور بجری اور موٹر سائیکل کا نہیں مقدر کا ہے ، موت
انسان کے مقدر میں لکھی ہے جسے حفاظتی اقدامات سے ٹالا نہیں جاسکتا، موت کو
کون روک پایا ہے جو عزیز احمد رضوی نہیں روک سکا۔ تو پھر بھری محفل چھوڑ کر
یوں چلے جانے پر عزیز احمد رضوی سے کیوں شکوہ ؟ اس نے جانا ہی تھا، ہر ایک
کا یہی مقدر ہے ، کاروبار زندگی انسان کا ایسا کھیل ہے جو وہ ہمیشہ جاری
رکھناچاھتا ہے ، ہمیشہ بھری محفل کی زینت بنا رہنا چاہتا ہے مگر بھری محفل
سے کوئی رخصت نہ ہو ایسا کبھی ممکن نہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی نے پہلے
اور کسی نے بعد میں رخصت ہونا ہوتا ہے ، ۔کئی بار ایسا ہوا اسلام آباد
میںادارتی امور میں مصروفیت کے دوران میرے کانوں میں آواز گونجی ، آپ عزیز
احمد رضوی کو کیسے جانتے ہیں ؟وہ آپ کے کیا لگتے ہیں؟ طلبا تنظیم کے نوجوان
رہنما کلیم اعوان کے ان سوالوں کا میرے پاس ایک ہی جواب ہوتا تھا، عزیز
احمد رضوی میرا بھائی ہے ، کلیم اعوان میرے جواب سے اعتماد پا کر کہتا،
مجھے عزیز احمد رضوی نے آپ کے پاس بھیجا ہے ۔ راولاکوٹ کے نواح میں دریک کا
نالہ نما ڈیم پل کے زریعے عبور کرتے ہوئے میں جب بھی دریک بازار پہنچتا
عزیز احمد رضوی سے ضرور ملاقات ہوتی ، مجھے چائے پلاتے ، مختلف امور پر
تبادلہ خیال کرتے ، میں نے انہیں ایک ہمدرد، خوش گفتار ، نیک سیرت نو جوان
پایا، دو ستوں کا دوست اور بے لوث خدمت گار تھا عزیز احمد رضوی، یہی وجہ ہے
کہ آج اسے یاد کرنے والوں کا کوئی شمار نہیں ۔عزیز احمد
رضوی2نومبرکوپاسپورٹ آفس راولاکوٹ کے نزدیک موٹر سائیکل کے حادثے میں شدید
زخمی ہوگئے تھے ۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زیر علاج رہے،
کئی دنوں بعد ہوش میں آئے تو عزیز واقارب کو تسلی ہوئی کہ اب خطرہ ٹل گیا
ہے ، انفکشن کے باعث انہیں دوبارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں
داخل کرایا گیا۔14 نومبر سے 5 دسمبر 2014 تک قومہ میں تھے ، جمعہ کی شام کو
اطلاع ملی کہ ان کی حالت خراب ہے ،خطرہ ٹلا نہیں، اور پھر جمعہ اور ہفتے کی
رات عزیزاحمدرضوی جان کی بازی ہارگیا۔ عزیزاحمدرضوی 34روزتک زندگی اورموت
کی کشمکش میں مبتلار ہا۔ عزیزم کاشف میر نے بتا یا کہ عزیز احمد رضوی اپنے
والدین کا بہترین بیٹا تھا بہن بھائیوں کا شاندار بھائی بھی تھا۔۔ 37 سال
عمر کو جا پہنچا تھا،پھر بھی اپنا گھر بسانے کے لیے آمادہ نہ تھا۔ مشن اپنے
خاندان کی سپورٹ کا تھا۔عزیز احمد رضوی کہتے تھے پہلے اپنے چھوٹے بہن
بھائیوں کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو جاوں تو اپنی سوچوں گا۔ گڈو کا بار بار
ذکر کرتے کہتے گڈو کی تعلیم مکمل ہوجائے کہیں سیٹ ہوجائے تو میں بھی اپنے
بارے میںسوچوں گا۔ مجھے بتا یا گیا ہے عزیز احمد رضوی نے اپنے چھوٹے بھائی
کے لیے الگ سے مکان بھی بنوانا شروع کر رکھا تھا، اپنے بہن بھائیوں کی
شادی، تعلیم ، روزگار کو اپنی خواہشات پر ترجیع دینے والا انسان آج کے دور
میں کہاں ملتا ہے ؟ ایسے لوگوں کا تذکرہ تو ہم نے کتابوں اور اخباروں میں
ہی پڑھا ہے ۔،انجمن طلبا اسلام کے پلیٹ فارم سے طلبا سیاست سے اپنی شناخت
بنانے والے عزیزاحمدرضوی نے ماسٹرکرنے کے بعد اپنے خاندان کی خدمت کے جذبے
کو اپنا لیا، اچھے روزگار کے لیے راولاکوٹ نہیں چھوڑا، اسی دوران راولاکوٹ
سے شروع ہونے والے پہلے ایف ایم ریڈیومیں ٹاک شو کے میزبان رہے ۔رضوی کی
زندگی میں یہی وہ دور تھا جب لوگ جان پائے کہ رضوی کون ہے؟،عزیزاحمدرضوی
راولاکوٹ سے ہفتہ واراخبارالنوراورمیگزین خوشبوبھی شائع کررہے تھے۔وہ غیر
سرکاری تنظیم مسلم ہینڈزانٹرنیشنل راولاکوٹ کے ساتھ بطورسوشل موبلائزربھی
کام کررہے تھے،موٹرسائیکل الٹنے کے حادثے میںشدیدزخمی رضوی کواسلام
آبادپمزمنتقل کردیا گیا تھا۔ جہاں انہیں آپریشن کے بعدنجی رہائش گاہ منتقل
کیاگیاتھا۔لیکن چندروزبعدوہ ایک مرتبہ پھرقومے میں چلے گے جہاں ایک مرتبہ
اوران کاآپریشن کیاگیاجس کے بعد موت ان کوشکست دینے کامیاب ہوگئی،ہفتہ کے
روزعزیزاحمدرضوی کوآبائی قبرستان دریک میں اپنے والدمرحوم اسحاق خان قادری
کے پہلومیں سپردخاک کیاگیا۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف سائنسز (پمز)اسلام آباد
میں ان کا پہلا آپریشن کامیاب رہا تھا ان کی صحت بہتر ہونا شروع ہو گئی تھی
چنانچہ انہیں پمز سے نجی رہائش گاہ منتقل کر دیا گیا تاہم کچھ دنوں بعد
انفکشن نے صورتحال کو پھر سے خراب کر دیا پمز میں انہیں دوبارہ لایا گیا
تھادوسری بار آپریشن کامیاب نہ ہو سکا اور 5 دسمبر رات 11 بجے ڈاکٹروں نے
اعلان کر دیا عزیز احمد رضوی اب نہیں رہے۔ڈاکٹروں کا یہ اعلان عزیز احمد
رضوی کے چا ہنے والے بے شمار دوستوں،احباب اور رشتہ داروں کو سوگ وار کر
گیا۔عزیز احمد رضوی صرف 37 سال تک جی سکا۔ اس دوران اس نے اپنی اہلیت
،صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر اپنی ایک نئی پہچان بنائی ، یہ پہچان ایک
منفرد نوعیت کی تھی۔اس ملک میں پہلے لوگوں پر امریکہ نواز یا روس نواز کا
لیبل لگایا جاتا تھا۔اب پاکستان نواز اور بھارت نواز کے لیبل بھی چسپائے جا
رہے ہیں۔عزیز احمد رضوی امریکہ نواز تھا نہ روس نواز وہ بھارت نواز تھا اور
نہ پاکستان دشمن بلکہ وہ ایک شاندار انسان دوست شخص تھا اس کی خوبی یہ تھی
کہ وہ ہر ایک کے لیے بے ضرر تھا ۔ اسے اپنا تعلق دار ظاہر کرنے میں کوئی
شخص کسی پریشانی کا شکار نہیں تھا۔27 نومبر کو جب ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ
فل ہیوزاب نہیں رہا تو دنیا بھر میں بانسر اورہیلمٹ کی بحث شروع ہو گئی
۔عزیز احمد رضوی کے دوست بھی موٹر سائیکل اوربجری کی بحث میں ہیں۔ قدرت کے
کارخانے میں کوئی بھی کام بے وقت نہیں ہوتا۔اسی طرح عزیز احمد رضوی کے سفر
کا اختتام بھی ہونا تھا۔شاید رب کائنات نے ان کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی
تاہم یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ اگر سڑکوں پر بکھرا تعمیراتی سامان شہریوں
کی جانوں سے کھیل رہا ہے تو اس صورت حال کا سدباب کیوں نہیں ہوتا سڑکوں پر
تعمیراتی سا مان تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے۔ سڑکوں کی دیکھ بھال کے ساتھ
ساتھ تجاوزات کا خاتمہ بھی محکمہ شاہرات کی ذمہ داری ہے . |
|