’’ عمران خان کا خیبر
پختونخواہ ورکرز ویلفیئر بورڈکے ملازمین کو مستقل کرنے کا اعلانـ‘‘ہیڈ لائن
کے نیچے لیڈ میں لکھا تھا۔کہ بھرتیوں سے متعلق نیب تحقیقات کرے گا۔یہ دونوں
باتیں عمران خان کی ۱۳ مئی کوبنی گالا میں اپنی رہائش گاہ کے سامنے ورکرز
ویلفیئر بورڈ کے ا حتجاجی ملازمین کے ساتھ معاہدے کی صورت میں طے پائی۔اور
۱۴ مئی کو روزنامہ مشرق میں شائع ہوئی۔ملازمین کے اہلِ خانہ سویرے سویرے
اخبارات پڑھتے ہی ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگیں۔ ملازمین خان صاحب کی
مستقلی کے اس مشروط اعلان سے خوش نہیں تھے۔خان صاحب کا یہ اعلان مبنی بر حق
تھا۔لیکن ملازمین کو یہ اعتماد نہیں تھا۔ کہ جب ۳۰ جون تک یہ مستقلی نیب کی
تحقیقات کے ساتھ مشروط ہو گئی۔تو صوبائی حکومت اور پی۔کے (پرویز خٹک) گروپ
اس موقع کو غنیمت سمجھ کرمسئلہ کو دوسری جانب موڑ دے گی۔اور وہی ہوا جس کا
ڈر تھا ۔ نیب کی جانب سے جب رپورٹ مثبت اور صحیح آئی۔تو ورکرز ویلفیئر بورڈ
نے نیب کی اس رپورٹ کو چھُپا کراپنی طرف سے ملازمین کی ’اہل‘ اور ’نااہل‘
لسٹیں بنواکر ورکرز ویلفیئرفنڈکو بھجوائیں۔اب تک وہی ٹال مٹول کا سلسلہ
جاری تھااور ۳۰ جون کی ڈیڈلائن کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچے بغیر گُزر
گیا۔مسئلہ پھر الجھتے دکھائی دے رہاتھا۔کہ عیدالاضحی سے دو ہفتے قبل قریباََ
۵۰۰ ملازمین نے یونس مروت کی قیادت میں پھر بنی گالا جانے اور قائد پاکستان
تحریک ِانصاف کو اپنا معاہدہ یاد دلانے کیلئے خیمہ زن ہونے کا فیصلہ کر
لیا۔دھرنے کا اختتام بورڈ اور ملازمین کے مابین ایک اندھے نوٹیفیکیشن سے
ہُوا۔جس میں چیئرمین ویلفیئربورڈ نے اپنی طرف سے کلیئر ہونے اور ورکرز
ویلفیئرفنڈ کو ملازمین کا سارا ڈیٹابھیجنے پر رضامندی ظاہر کردی۔
نوٹیفیکیشن میں ملازمین کی ریشنلائزیشن فارمولہ کی بات بھی درج تھی۔ساتھ ہی
معاہدے میں شریک ملازمین کے نمائندوں کے نام بھی شامل تھے۔اب سوال یہ بھی
ہے کہ اگر اس معاہدے میں ریشنلائزیشن پالیسی کا ذکر تھا تو اس پر ملازمین
کے نمائندوں نے رضامندی ظاہرکیوں کی؟
اب ریشنلائزیشن پالیسی کیا ہے؟ یہ کئی صفحات پر مشتمل ایک لمبی پالیسی مرتب
کی گئی ہے۔ دو نقاط اس میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ طلباء اور
طالبات کے حساب سے اساتذہ کا تناسب ۱:۴۰ دیا گیا ہے یعنی کہ چالیس طلباء پر
ایک ٹیچر ہوگا۔دوسرا اہم نقطہ یہ کہ ورکرزویلفیئر فنڈ سے غیرمنظورشدہ
سکولوں کا خاتمہ۔ لیکن اس پالیسی یا فارمولے کو لاگو کرنے سے نہ صرف اور
گھمبیر مسائل جنم لیں گے۔ بلکہ خدانخواستہ آدھی تعداد سے زیادہ ملازمین کے
بے روزگار ہونے کا خدشہ یقینی نظر آرہاہے۔اگر یہ کام ہو گیا تو اس سسٹم کی
تباہی یقینی ہو جائے گی۔
ملازمین بے روزگار ہو ، طلباء اور طالبات کیلئے ٹرانسپورٹ کے مسائل، کتابوں
کی عدم فراہمی،تنخواہوں کے لئے ۲ یا ۳ ماہ تک انتظار کرتے رہنا۔ ان سارے
مسائل کا ذمہ دار صوبائی حکومت ہے۔وزیراعلیٰ پی۔کے(پرویز خٹک) خود ان مسائل
کو تخلیق کر رہے ہیں ۔کیونکہ جو سیکرٹری سسٹم کو ٹھیک کرنے کا تہیہ کرجاتے
ہے۔ اس کو او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے۔سسٹم کی تباہی سے مراد یا تو ان
اداروں میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کی تباہی ہے۔ یا پھر دوسرے الفاظ میں
اُن اساتذہ کی تباہی ہے جنہوں نے اپنا قیمتی کیرئیر اس سسٹم کے نام کر دیا
ہو۔ شاہ فرمان صاحب تو خود ایک رسمی مہرہ ہے۔گذشتہ سال بھی پورا سال کلاسز
بائیکاٹ اور اساتذہ کی معطلی و بحالی میں گُزر گیا۔ اب طلباء و طالبات کا
یہ سال بھی ضائع ہو رہا ہے۔اِن کے والدین تو اپنے بچوں کی قیمتی وقت کی
تباہی پر رو رہے ہیں ۔دوسری طرف اساتذہ اور دوسرے ملازمین کی معطلی اور
پریشان کُن صورتحال پر اُن کے بال بچے اور باقی خاندان والے بھی پریشان
ہیں۔اساتذہ کو پریشانی ورکرز ویلفیئر بورڈ سے اور شکایت پی۔ کے سے
ہے۔کیونکہ پانچ سال کی ملازمت کے بعد کوئی بھی ریشنلائزیشن فارمولے کا
متحمل نہیں ہو سکتا۔واضح رہے کہ چیئرمین ورکرز ویلفیئر بورڈ کی اس
نوٹیفیکیشن پر دیگر ایسوسی ایشنز والے سخت برہم ہیں۔ نوٹیفیکیشن کے واپس نہ
ہونے کی صورت میں دیگر ایمپلائز ایسوسی ایشنز کسی بھی صورت میں احتجاج
کرسکتے ہیں۔
پہلے تو دونوں متاثرہ طبقے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک سے اس مسئلہ کو مزید حل
کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔کیونکہ اس سے طلباء اور اساتذہ کے وقت کا ضیاع اور
بے روزگاری بہت بڑا نقصان جنم لے رہا ہے۔
اپنے اس کالم کی توسط سے وزیراعلیٰ اور وہ تمام لوگ جو ملازمین کے خلاف اس
مہم کا حصہ رہ چکے ہیں۔سب کے سامنے اپنی دامن سوال دراز ہوں۔کہ برائے
مہربانی اساتذہ کو نہ چھیڑنا ان کے سایے تلے پوری پوری نسلیں پَل رہی
ہیں۔آپ کی یہ مہم پوری نسلوں کی تباہی ہے۔اور نسلوں کی تباہی سے کوئی زیادہ
عرصہ سلامت نہیں رہتا۔اپنی سلامتی اور پارٹی و قوم کی ترقی چاہتے ہو۔تو اس
طبقے کو وہ پیغمبرانہ پیشے کا مقام دو۔جو ان کو اپنے پیشرو نے عنایت کی ہے۔
|