قیامت خیز زلزلے نے دس سال بعد
ایک بار پھر خدا یاد کروادیا ۔ جب گھرٗدفتر اور بلندو بالا عمارتیں ریشے کے
مرض میں مبتلا مریض کی طرح لرزنے لگی تو عورتیں ننگے سر گھروں اور دفتروں
سے باہر نکل آئیں ۔ دفتر میں کام کرنے والے وہ لوگ جنہیں اذان سننے کے
باوجود نماز پڑھنے کی انہیں فرصت نہیں ملتی تھی وہ بھی کلمہ طیبہ پڑھتے
ہوئے باہر کو بھاگے ۔کسی نے کیا خوب کہاہے کہ اگر اذان سن کے ہم سب اپنا
کام کاج چھوڑ کے اتنی ہی تیزی سے مسجد کی طرف نماز پڑھنے کے لیے دوڑائیں تو
زلزلے کبھی نہ آئیں ۔لیکن ہم دنیاوی معاملات میں کچھ اس قدر الجھ چکے ہیں
کہ ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اگلے لمحے ہماری سانس بھی رک سکتی ہے ۔
میرے مشاہدے میں کتنے ہی لوگ ایسے بھی ہیں جو صبح تیار ہوکر قیمتی گاڑیوں
میں گنگناتے ہوئے دفتر پہنچے لیکن حرکت قلب بند ہونے کی بنا پر ان کی نعش
ہی گھر واپس آئی ۔ ہم قدرت کے سامنے کس قدر بے بس ہیں پھر بھی غرور اور
تکبر ہمارے دامن گیر رہتا ہے ۔ بہرکیف زلزلے کیوں آتے ہیں؟ اس کی وجوہات بے
شمار ہیں کچھ سائنس دان کہتے ہیں کہ زمین کی تہوں میں مائع گیسوں کی بہتات
سے چٹانیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں کچھ ماہرین
ارضیات کے مطابق ماحولیاتی آلودگی اس قدر بڑھتی جارہی ہے کہ وہ موسموں اور
پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کو پگھلانے کا باعث بن رہی ہے ۔جس سے کائنات کے
نظام میں تغیر و تبدل آنے لگا ہے ۔ علمائے کرام کے نزدیک زمین پر اتنے گناہ
انسانوں سے سرزد ہورہے ہیں جو تباہی کا باعث بن رہے ہیں ۔ کہیں خدا کی
نافرمانی اور اس کی واحدنیت کا کھلم کھلا انکار کیا جاتا ہے تو کہیں ہم جنس
پرستی نے فیشن کا روپ اختیارکرکے پتھروں کی بارش کا خود اہتما م کرلیا ہے
کہیں عورتیں جو کسی بھی خاندان کی بنیاد بنتی ہیں بے قابو ہوکر کلبوں کی
زینت بنتی جارہی ہیں کہیں مرد اپنی بیوی بچوں کی بجائے غیر عورتوں کے تعاقب
میں بے تاب نظر آتے ہیں ۔وہ خاندان جو مذہبی روایات کے امین تصور ہوا کرتے
تھے وہ بہت تیزی سے انتشار اور بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ
فرماتے ہیں کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور نماز ہی مسلمان اور کافر
میں فرق پیدا کرتی ہے۔ ہم اتنے خود سر اور مغرور ہوچکے ہیں کہ مساجد سے
ہمیں پانچ وقت نیکی اور فلاح کی جانب آنے کی دعوت دی جاتی ہے لیکن ہم نیکی
اور فلاح کی جانب جانے کی بجائے اپنے گھروں میں ٹی وی کے سامنے سے اٹھنے کو
تیار نہیں ۔والدین اپنے بچوں کی مسلسل نافرمانیوں سے تنگ آکر انہیں عاق
کردیتے ہیں کیا رب کو ہماری مسلسل نافرمانیوں پر غصہ نہیں آتا ہوگا ۔ سچ تو
یہ ہے کہ اگر ہمیں مستقبل میں زلزلوں جیسی آفات سے بچنا ہے تو پھر ہمیں اﷲ
اور اﷲ کے رسول َﷺ کو راضی کرنا ہوگا ۔ رہی بات ماحولیات آلودگی سے بچنے گی
۔ دنیا بھر میں سپرطاقتوں نے اپنے مفادات کی تکمیل اور اسلحے کی فروخت کے
لیے بطور خاص مسلمان ملکوں میں خانہ جنگی جیسے حالات پیدا کررکھے ہیں جہاں
روزانہ ہزاروں بم پھٹتے ہیں میزائل چلتے ہیں گیسی اورکیمیکل بموں کا بے
دریغ استعمال ہوتا ہے ۔ عراق شام اور افغانستان میں امریکہ نے لیزر
ٹیکنالوجی کو بطور ہتھیار انسانوں کے خلاف استعمال کرکے اپنی درندگی کا
ثبوت دیا۔ امریکہ ہی نے جاپان پر ایٹم بم پھینک کر اپنی بربریت کامظاہرہ
کیا ۔سوویت یونین نے افغانستان میں دس سال سے زیادہ عرصے تک خطرناک سے
خطرناک ترین اسلحہ استعمال کیا ۔رہی سہی کسر امریکہ اور طالبا ن خود پوری
کررہے ہیں ۔اب پاکستان کی بات کرتے ہیں دنیا میں کوئلے سے بجلی بنانے کا
عمل صرف ماحولیاتی آلودگی کی بنا پر ختم کردیاگیا ہے لیکن ہمارے حکمران
ببانگ دہل کوئلے سے بجلی گھرتعمیر کررہے ہیں ۔اینٹیں بنانے والے بھٹے اور
فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھواں آسمان کو سیاہ کررہا ہے ۔ لاہور
جیسے بڑے شہروں کی فضا ٹریفک کی بہتات اور جام کی وجہ سے فضائی آلودگی کا
شکار ہے بلکہ صبح سے شام تک دھویں اور زہریلی گیسیوں کی ایک چادر تنی نظر
آتی ہے جو ہماری سانسوں میں جاکر پھیپھڑوں ٗ سانس ٗ دمے اور گلے کی
بیماریوں کا باعث بن رہی ہے لیکن میاں شہباز شریف ٹریفک کو رواں رکھنے کے
لیے ایکسپریس وے بنانے کی بجائے ایک بس کو بلارکاوٹ گزارنے کے لیے میٹرو
سسٹم کو پسند کرتے ہیں۔ پھر ہمارا طرز تعمیر بھی اس قدر سست اور بدنظمی کا
شکار ہے جو پراجیکٹ ایک دو ہفتے میں پایہ تکمیل تک پہنچ جانا چاہیئے وہی
کام عدم دلچسپی اور سست روی کی بنا پر مہینوں میں بھی مکمل نہیں ہوتا ۔اس
سے ایک جانب فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری جانب تعمیراتی بجٹ
دوگناہوجاتاہے ۔ پاکستانی حکمران اور انتظامی ادارے اخبارات میں تو بہت
متحرک اور قوم دوست نظر آتے ہیں لیکن ان کی تمام پھرتیاں چند دنوں بعد جاگ
کی طرح ختم ہوجاتی ہیں۔ابھی 2005ء کے زلزلے کی تباہ کاریاں ختم نہیں ہوئی
تھیں کہ تازہ ترین زلزلے زندگی اجیرن کردی ہے ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ
سخت ترین سردی اور برفباری جیسے شدید موسم میں متاثرین کو اب تک نہ تو خیمے
دیئے جاسکے ہیں اور نہ ہی خوراک ۔ قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے عہدہ برآ
ہونے کے لیے ہمارے پاس کوئی متحرک نٹ ورک نہیں ہے جس پر بھروسہ کیا جاسکے ۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر زلزلوں سے بچنا ہے تو ہمیں اپنے اعمال کے ساتھ ساتھ
فضائی آلودگی اور بار بار فوجی آپریشنوں سے بھی نجات حاصل کرنا پڑے گی ۔ |