ہم اس زمانے کی پیداوار ہیں، جو
کمپیوٹر کے دنیا میں متعارف ہونے کے اوائل کا زمانہ ہے، ان دنوں انٹرنیٹ
نیا نیا متعارف ہوا تھا اور ہر کسی کی دسترس میں نہ تھا اور جن کی دسترس
میں تھا ان کو اس کا مکمل استعمال نہ آتا تھا۔ کمپیوٹر کو جاننا اور لیپ
ٹاپ کمپیوٹر کا مالک ہونا ایک اسٹیٹس سمبل بن گیا۔ ابھی کمپیوٹرکی آمد کی
بازگشت ختم نہ ہوئی تھی کہ موبائل میدان میں کود پڑا۔ اس سے پہلے ہم نے
پولیس موبائل کا نام سنا تھا جو کہ ایسے لوگوں کو اٹھانے کے کام آتی تھی جن
کا کسی واردات سے دُور کا بھی کوئی تعلق نہ ہو اور فلاحی جذبے کے تحت
اٹھائے گئے ان لوگوں اور ان کے لواحقین کی جیبیں صاف کرنے کا اضافی کام
ایمانی جذبے کے تحت سر انجام دیتی ہوں۔ ابھی ہم کمپیوٹر سیکھ بھی نہ پائے
تھے کہ موبائل مارکیٹ میں آگیا۔ ابھی ہم موبائل سے پوری طرح لطف اندوز ہونے
نہ پائے تھے کہ آئی پوڈ اور ایم پی تھری پلیئر جیسی عجیب الخلقت ایجادات نے
مارکیٹ کی راہ دیکھ لی۔ آئی پوڈ کے بارے میں ہم اتنا ہی جانتے تھے جتنا
موبائل کے بارے میں اور موبائل کے بارے میں بھی اتنا ہی جانتے تھے جتنا کہ
کمپیوٹر کے بارے میں اور کمپیوٹر کے بارے میں ہم یہ جانتے تھے کہ کمپیوٹر
فارغ لوگوں کے لیے بنا ہے جو وقت کے لحاظ سے بھی فارغ ہوں اور دماغی لحاظ
سے بھی۔ جب ہم نے کمپیوٹر استعمال کرنا سیکھ لیا تو ہم نے یہ بھی تسلیم کر
لیا کہ کمپوٹر فارغ العقل لوگوں کے علاوہ کچھ ذہین لوگ بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ لیکن موبائل آج تک ہماری عاد ت نہ بن سکا۔ جب تک ہم موبائل کے استعمال
میں مہارت حاصل نہیں کر لیتے جس کا امکان کچھ کم ہی ہے، ہمارا خیال یہی رہے
گا کہ موبائل ذہین لوگوں کے استعمال کے لیے نہیں بنایا گیا۔ اس موبائل نے
ہمیں کئی بار شرمندگی سے بھی دوچار کیا حالانکہ شرمندہ ہونا ہماری طبیعیت
میں شامل نہیں ہے-
ایک بار ہم مسجد میں اتفاقاً نماز پڑھنے چلے گئے تو تمام نمازی ہمیں ایسے
گھورنے لگے، جیسے ہم نے یہاں آ کر کوئے غلطی کی ہو۔ ان کی نظریں کہہ رہی
تھی کہ آپ کا ادھر کیا کام۔ ہم جمعہ بھی اس وقت پڑھتے تھے جب سالانھ امتحان
قریب ہوتے تھے اور ہمیں پتہ ہوتا تھا کہ ہماری کی گئی مختصر پڑھائی سے کام
نہیں چلنے والا۔ اللہ تعالیٰ کو مدد کے لیے بلانا پڑے گا۔ باجماعت نماز
شروع ہوئی تو عین رکوع کی حالت میں موبائل نے "چھیاں چھیاں" گانا شروع کر
دیا۔ ہمیں نماز توڑ کر اسے چُپ کرانا پڑ گیا۔ نماز کے بعد مولوی صاحب نے
تمام نمازیوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ ایک تو لوگ مسجد میں آتے نہیں اور
اگر بھول کر آ جاتے ہیں تو مسجد کے تقدّس کا خیال نہیں رکھتے۔ براہِ کرم
مسجد میں داخل ہونے سے پہلے تمام لوگ اپنے موبائل فون آف کر دیا کریں، ابھی
وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ "بابو جی دھیرے چلنا"کی ٹون بجنا شروع ہو گئی،
سب نے اپنی جیبوں پر ہاتھ مارا مگر ٹون بند نہ ہوئی، آخر میں مولوی صاحب نے
گھبرا کر جیب میں ہاتھ ڈالا اور کھسیانے ہوتے ہوئے کہا"کھی کھی کھی، میرا
موبائل ہے"۔
نیا موبائل لینے کے دو طریقے ہیں ایک تو سیدھا سادھا طریقہ یہ ہے کہ آپ
بازار جائیں اور خرید لیں، دوسرا طریقہ جو اس سے بھی زیادہ سیدھا ہے وہ یہ
ہے کہ آپ پستول دکھا کر کسی سے بھی اس کا موبائل لے سکتے ہیں بلکہ انسانی
ہمدردی کے جذبے کے تحت جو کچھ بھی اس کی جیب میں ہے آپ پر ُلٹا دے گا، اس
پرانے گانے کی طرح"جو بچا تھا ُلٹانے کے لیے آئے ہیں"موبائل کی خوبی یہ ہے
ہر وہ کام کر سکتا ہے جو آپ کرنا نہیں چاہتے، مثلاً آپ مزے سے سوئے ہوئے
ہوں اور سوئے رہنا چاہتے ہیں، یہ آپ کو جگا دے گا، آپ کا دوست آپ سے ملنے
آیا ہے آپ ملنا نہیں چاہتے، آپ کا بچہ آپ کے دوست سے کہتا ہے، ابو کہہ رہے
ہیں میں گھر پر نہیں ہوں، اتنے میں آپ کے فون سے ٹون بجنی شروع ہو جاتی ہے
آپ کا دوست ٹون پہچان کر کہتا ہے، باہر آؤ نہیں تو میں اندر آ رہا ہوں۔ آپ
کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے باہر آتے ہوئے کہتے ہیں۔"میں باہر ہی آ رہا تھا"۔
ہم نے ایک انتہائی حسین لڑکی کو دیکھا جو بڑے پیار سے موبائل کو ہاتھ میں
پکڑ کر گلابی لبوں کے قریب لا کر کسی سے نجانے کب سے محو گفتگو تھی۔ اس کے
احمریں لبوں کو موبائل سے چُھوتے دیکھا تو دل میں جلن سی محسوس ہوئی اور دل
میں ایک ہوک سی اٹھی "کاش ہم موبائل ہوتے، ہم سے تو یہ موبائل ہی اچھا
ہے"دل سے بے اختیار دعا نکلی"یااللہ اگلے جنم میں ہمیں موبائل کیجیو"ناگاہ
ہماری نظر سڑک پر ایک جھاڑو مارنے والی کالی بھجنگ ہٹی کٹی عورت پر پڑی جو
جھاڑو مارنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں موبائل پکڑے کسی سے خوش گپیوں میں مصروف
تھی، ہمیں اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر موبائل بننے کے بعد اس جیسی عورت کے ہاتھ
لگ گئے تو۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے آگے سوچنے کی ہم میں ہمت نہ تھی فوراً دل سے آواز
نکلی" یا اللہ پچھلی دعا کینسل"اگلے جنم موبائل بالکل نہ کیجیو، اور ہوا
میں اچھلنے لگے۔ دوست نے پوچھا کیا ہوا، ہوا میں کیا ہاتھ مار رہے ہو، ہم
جو دعا کو اوپر جانے سے پہلے جھپٹنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے جھینپتے
ہوئے کہا کچھ نہیں کچھ نہیں۔
میں ایک دن ڈاکٹر کے پاس گیا وہاں ہماری طرح کا ایک فالتو صحت کا مالک سیٹھ
ٹائپ شخص ویٹنگ روم میں صوفے پر بیٹھا تھا، اچانک نجانے اسے کیا ہوا، اس نے
ہنسنا اور اُچھلنا شروع کر دیا، زور زور سے قہقہے لگاتا اور کہتا"سالا ُگد
ُگدی کرتا ہے"پھر اپنی جگہ سے پُھدکتا، ہنستا اور کہتا"سالا ُگد ُگدی کرتا
ہے"اور ہنسے چلا جاتا، ہم نے دائیں بائیں دیکھا کوئی شخص نظر نہ آیا، خدا
جانے جن بُھوت ہیں جو انہیں ُگد ُگدی کر رہے ہیں یا پھر یہ ذہنی بیمار کوئی
شخص ہے۔ اس شخص نے ہنستے ہنستے جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل نکالا، اور ہنسی
سے بے حال ہوتے ہوئے ہمارے ہاتھ میں پکڑایا اور بولا"سالے کو بند کرو ُگد
ُگدی کرتا ہے"پتا چلا کہ وہ وائبریشن پر لگا تھا اور کال آنے کی وجہ سے
حرکت کرتے ہوئے بھُوں بُھوں کر رہا تھا۔ ہمارے موبائل کی حالت پرانا ہونے
کی وجہ سے اتنی خستہ ہو چکی تھی ہم موبائل بیچنے جس شاپ پر جاتے، دکاندار
موبائل ہاتھ میں پکڑتے ہی ایسے ہنسنے لگتا جیسے موبائل پر کوئی لطیفہ لکھا
ہے یا موبائل گدگدی کرنے کی فطری صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ دکاندار موبائل
ہاتھ میں پکڑ کر پوچھتا۔"یہ موبائل بیچیں گے"ہم کہتے۔ جی بالکل وہ حضرت
فرماتے۔"کیا کریں گے بیچ کر، کون خریدے گا اتنا پرانا ماڈل" اتنا پرانا بھی
نہیں ہے۔ ہم نے برا مناتے ہوئے کہا۔ دکاندار نے موبائل واپس تھماتے ہوئے
کہا۔ یہ تو موبائل کا سب سے پرانا ماڈل آیا تھا اس سے بھی پرانا ماڈل لگتا
ہے۔ موبائل پر کیز پر لکھے تمام حروف مٹ چکے تھے۔ دس دفعہ دبانے پر بھی آن
نہیں ہو رہا تھا، اور جب ہم تھک ہار کر بیٹھ جاتے، تھوڑی دیر بعد خود ہی آن
ہو جاتا تھا۔ نماز کے لیے صبح کا الارم لگاؤ تو شام کے پانچ بجے بجنے لگتا
تھا اور اگر موبائل کو ڈاج کرنے کیلئے شام کے پانچ بجے کا الارم لگا دو، تو
شام کے پانچ بجے ہی بجتا تھا۔ شاید ہماری نماز پڑھنے کی نیت کو تاڑ گیا
تھا- کہ ہم کو نماز تو پڑھنی نہیں ہوتی، اسے خواہ مخواہ تنگ کیا جاتا ہے۔
موبائل کی خستہ حالت کی وجہ سے ہم اسے دوسروں کے سامنے نکالنے سے کتراتے
تھے۔ اگر ہمارے کسی دوست کا موڈ خراب ہو رہا ہوتا تو وہ ملتے ہی موبائل
دکھانے کو کہتا، ہم دکھانے سے کتراتے تو وہ زبردستی ہماری جیب سے نکال لیتا
اور موبائل ہاتھ میں پکڑتے ہی قہقہے لگانے لگتا اور کہتا موبائل میں بس یہی
ایک کام کی بات ہے کہ ہزار دفعہ دیکھ لو پھر بھی ہنسی آ ہی جاتی ہے۔
اس پرانے موبائل کے ہمیں کئی فائدے بھی تھے، اگر کوئی موبائل چھیننے کی نیت
سے جارحانہ انداز سے ہماری طرف بڑھتا تو ہم اپنا موبائل سامنے کر دیتے،
موبائل پر نظر پڑتے ہی وہ شحص فوراً یوٹرن لے لیتا۔ اگر ہم کسی شاپ پر
موبائل مرمت کے لیے لے جاتے تو دوکاندار جو کہ عام طور پر نئے موبائلوں سے
پرزے تبدیل کرنے کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور اسی نیت سے موبائل فوری
ٹھیک نہیں کر کے دیتے اور اگلے دن آنے کا کہہ دیتے ہیں۔ ہمارا موبائل ہاتھ
میں پکڑتے ہی کہتے"جائیے گا نہیں ابھی ٹھیک کیے دیتا ہوں"۔ ہم اصرار کرتے
کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں، کل دے دیجئے گا، لیکن وہ نہیں مانتے، ہم چاہتے تھے
کہ وہ موبائل رکھیں اور اس کے کچھ پرزے تبدیل کر دیں تاکہ تبدیل ہونے والے
پرزے تو کچھ صحیح چلیں۔ اور ان کو دیکھ کر پرانے پُرزے بھی کچھ شرم پکڑیں۔
لیکن موبائل والے ہماری نیت تاڑ جاتے اور فوراً ٹھیک کر دیتے-
ایک دن ہم موٹر سائیکل پر موبائل کو کانوں اور کندھوں کے درمیان دبائے ہوئے
دوست سے باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے کھ اچانک سامنے کھلا ہوا مین ہول آگیا
– بچانے کی کوشش میں موٹر سائیکل تو بچ گئی۔ لیکن ہم مین ہول کے اندر تھے۔
کیچڑ میں لت پت موبائل ڈھونڈنے کی کوشش میں کیچڑ میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے
کہ ٹون بجنی شروع ہو گئی۔ "گھر آیا میرا پردیسی پیاس بُجھی میری اکھین
کی"ہمیں لگا کہ مین ہول ہمارے لیے استقبالیہ گیت گا رہا ہے۔ اس لعنتی
موبائل نے ہمیں شرمندہ کرنے کا کبھی کوئی موقع ہاتھ سے خالی جانے نہیں دیا۔
ہمارے دل میں کبھی کبھی خواہش ابھرتی کہ کاش موبائل بھی جوتوں کی طرح ہوتا
تو اب تک نیا ہوتا۔ کیونکہ ہمارے ایک دوست ہمیشہ جوتوں کا نیا جوڑا پہنتے
تھے۔ اور وہ جمعہ صرف ُاسی وقت پڑھنے جاتے، جب ان کے جوتے پرانے ہوجاتے اور
انہیں نئے جوڑے سے تبدیل کرنا ہوتا۔ ایک دن ہم نے پکا ارادہ کرلیا کہ اس
موبائل کو بیچا جائے اور اس موبائل کو بیچ کر جو رقم حاصل ہوگی اس میں کچھ
اور رقم ملا کر نیا موبائل خریدا جائے۔ ہم نے محلے کی موبائل شاپ پر اپنا
موبائل دکھایا اور پوچھا یہ کتنے میں بک جائے گا- شاپ والے نے ُبرا سا منہ
بناتے ہوئے کہا۔"میں یہ موبائل تین مرتبہ مرمت کر چکا ہوں، اگر مجھے بیچیں
گے تو میں موبائل کے ساتھ ایک ہزار روپیہ بھی لُونگا۔ البتہ انجان بندہ اگر
آپ کی طرح موبائل کے استعمال سے بہت ہی انجان ثابت ہوا تو اس موبائل کے
ہزار روپیہ دے بھی سکتا ہے۔ اگر بیچنا ہے تو صدر موبائل کی بڑی مارکیٹ ہے
وہاں لے جائیں۔ شاید وہاں کوئی موبائل خریدنے آنے والا بیوقوف بن جائے۔
دکاندار کی باتوں سے ہمارے دل کو ٹھیس لگی اور ہم نے سوچ لیا آئندہ اس سے
موبائل مرمت نہیں کرائیں گے۔
اگلے دن ہم نے صدر کا رخ کیا، راستے میں دوست کی کال آگئی۔ ہم گاڑی چلانے
کے ساتھ ساتھ دوست سے باتیں بھی کر رہے تھے۔ زینب مارکیٹ کے قریب ٹریفک
پولیس نے ہاتھ دے کر روک لیا۔ پتہ چلا کہ یہ ون وے ہے۔ ہمیں پانچ سو کا
چالان ہو گیا۔ تھوڑا آگے گئے تو پھر کال آگئی، پچھلے تجربے کو ذہن میں
رکھتے ہوئے ہم نے گاڑی سائڈ پر کھڑی کی اور موبائل پر دوست سے محو گفتگو ہو
گئے۔ اتنے میں ایک میلی سی شلوار قمیض میں ملبوس شخص نے زور زور سے دروازے
کے شیشے کو کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔ یہ مانگنے والے کہیں آرام سے بات نہیں
کرنے دیتے۔ ہم نے شیشہ نیچے کیا اور اس شخص کے ہاتھ میں دو روپے کا سکہ
پکڑا کر شیشہ فوراً اوُپر کرلیا۔ اس شخص نے سکہ پرے پھینک کر دوبارہ شیشہ
کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔ ہم نے سوچا بڑا بد تہذیب انسان ہے۔ مانگنے والوں کے
بھی نخرے بڑھ گئے ہیں۔ ہمارے توجہ نہ دینے پر اس نے ہاتھوں کو آسمان کی طرف
اُٹھاتے ہوئے کسی کو عجیب اشارہ کیا۔ یک لخت ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارے اِرد
گرد کی بلڈنگیں نیچے زمین میں دھنستی چلی جا رہی ہیں۔ ہم گبھرا گئے کہ
انجانے میں کسی اﷲ والے کو چھیڑ بیٹھے ہیں۔ تھوڑا غور کرنے پر احساس ہوا
بلڈنگیں نیچے زمین میں نہیں دھنس رہیں بلکہ ہم اُوپر آسمان کی جانب کُوچ کر
رہے ہیں۔ ہم نے جانا کہ شاید عمر کی نقدی ختم کر بیٹھے ہیں اور کلمہ پڑھنے
کا وقت آ گیا ہے۔ معلوم ہوا ہمیں ُگاڑی سمیت کار لفٹر نے اٹھا رکھا ہے اور
چونکہ ہم نے گاڑی سے اترنے سے انکار کر دیا تھا اس لئے گاڑی سمیت تھانے کی
جانب رواں دواں ہیں۔ مزید پانچ سو کا چالان کرا کر فارغ ہوئے تو نیا موبائل
خریدنے کا جذبہ سرد پڑ چکا تھا۔ موبائل بیچ کر جو ہزار روپیہ کمانا تھا وہ
ہم کمانے سے پہلے ہی خرچ کر چکے تھے۔ دل پر بھاری پتھر رکھ کر واپس آگئے۔
ایک بار ہمیں ایک محترمہ کا میسج آیا، "دل ہے بیقرار، کیوپڈ کا تیر جگر کے
آر پار، تیری مسکراہٹ پہ جان نثار، نازو کو ہے تیرا انتظار، اور اب نہ کرو
مجھے خوار، پلیز لکھے ہوئے نمبر پہ میسج کرو بار بار" ابھی ہم نے بیتاب
ہوتے ہوئے دیے ہوئے نمبر پر ایک بار ہی رنگ کیا تھا کہ میسج آ گیا۔"آپ کا
بیلنس دیے گئے نمبر پر کامیابی سے ٹرانسفر ہوگیا ہے، کال کرنے کا شکریہ"
اگر آپ مزید اکاؤنٹ ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں تو ایک دبائیے۔ اگر آپ اس سروس
سے مزید استفادہ کرنا چاہتے ہیں تو دو دبائیے۔
ہمارا دل تو اس وقت محترمہ کا گلا دبانے کو چاہ رہا تھا۔ چکمہ دینے والی
محترمہ کا اتہ پتہ تو ہمیں معلوم نہیں تھا ۔غصّے میں اپنا گلا پکڑ لیا۔ کہ
ہم اتنی آسانی سے کیسے بیوقوف بن گئے۔ پھر چھوڑ دیا کہ درد بہت ہا رہا تھا۔
یہ پہلا موقعہ نہیں تھا، اس سے پہلے بھی ہم کئی بار صنف نازک کی نزاکتوں کا
شکار ہو چکے تھے اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ صنف نازک کو ایزی نہیں لینا
چاہیے۔ لیکن کیا کریں کہ "دل ہے کہ مانتا نہیں" ایک دن ہم ڈیپارٹمنٹ کی
لائبریری میں بیٹھے تھے کہ ایک دلکش لڑکی لائبریری میں داخل ہوئی۔ وہ بیگ
ابھی کپ بورڈ میں رکھ ہی رہی تھی کہ اس کے ہاتھوں سے موبائل چُھوٹ کر فرش
پر گر پڑا اس نے جس بے تابی سے جھک کر موبائل فرش سے اٹھایا اور یہ جانچنے
کے لیے کہ کہیں موبائل کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا اس کو جس طرح اپنے نازک
ہاتھوں میں اُلٹ ُپلٹ کر دیکھا کہ ہمارے دل پر چُھریاں چل گئیں۔ اور ہمیں
خیال آیا اگر ہم اس موبائل کی جگہ ہوتے اور اس طرح چیک کئے جاتے تو ہم سارا
دن گرتے رہنے کو تیار تھے۔ ہمارے تخّیل نے مزید پرواز کی تو ہمیں خیال آیا
کہ اگر ہم موبائل ہوتے تو اس حسینہ کی خلوتوں اور جلوؤں کے عینی شاہد ہوتے۔
اور اگر وہ ایس ایم ایس پڑھ کر شرما جاتی تو ہم اس کے گالوں کی سُرخی چُرا
لیتے۔ اور اگر کسی رقیب رُو سیاہ کی کال آتی تو ہم فوراً سائیلنٹ موڈ پر ہو
جاتے اور اسے کال کا پتہ ہی نہ چلنے دیتے، خود ہی کال کر کر کے تھک جاتا۔
اور وہ جب رات کو تکیے کے نیچے رکھ کر سو جاتی تو ہم چوری چوری چُپکے چُپکے
تکیے کے نیچے سے جھانک کر اس کے معصوم چہرے کو بے خود ہو کر دیکھتےاور پھر
وش کرتے کہ" کاش میں اس وقت موبائل نہ ہوتا " اب تو اس قدر قریب رہ کر بھی
کسی کام کے نہیں بقول غالب
بٹھا کر پہلو میں یار کو رات بھر غالب
جو کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
بابر ندیم
ایم اے پریویس
ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ
کراچی یونیورسٹی –ایوننگ سیشن |