ترکی انتخابات - سیکولرز م سے اسلام کی طرف مراجعت

یکم نومبر ترکی میں ہونے والے انتخابا ت کا نتیجہ آگیا ہے اور حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے رجب طیب ارگان کے قیادت میں اس پارٹی کو تقریباً 50فیصد ووٹ حاصل ہوئے جس کے نتیجہ میں انہیں پارلیمنٹ کی 550نشستوں میں سے 316نشستیں ملیں گی۔ انتخاب کے نتائج ساری دنیا کے لیے حیران کن ہے ،اس لیے کہ دنیا کے تمام تر تجزیہ نگار مانتے تھے کے یہ نتائج 7جون کے طرز پر ہی ایک معلق پارلیمنٹ کی صورت میں ظاہر ہوں گے ۔ اس دوران ترکی عدم استحکام کا شکار رہا سماجی اور اقتصادی دونوں اعتبار سے ترکی کو دنیا کے سامنے حزیمت اٹھانی پڑ رہی تھی اور حالیہ دنوں کے بدترین دھماکہ بھی اسی دوران پیش آئے جس میں 100سے زائد لوگوں کوجان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ڈالر کے مقابلے لیرا کی قیمت کم ہو رہی تھی اور یہ قیاس آرائیاں جاری تھی کہ ترکی عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا ۔یکم نومبر کے اس انتخاب نے ترکی کے 90فیصد عوام نے اپنے حق رائے دہی کا استعما ل کیا اور طیب اردگان کے اس نعرے کو ملحوظ رکھا کہ ترکی کے استحکام کے خاطر ان کی پارٹی کو ووٹ دیا جائے ۔ موجودہ نتائج اردگان کے اسی نعرے کا مثبت رد عمل مانے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اردگان کی پارٹی دنیا کے جدید اسلام پسندوں کی پارٹی شمار کی جاتی ہے ۔ 2002میں قائم یہ پارٹی گذشتہ 13سال سے بلاشرکت غیر اقتدار میں رہی ہے اور اس عرصے میں ترکی کی سماجی ،اقتصادی اور تعلیمی صورتحال میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہوا ہے ۔ ترکی کی اپوزیشن CHPکی مرضی کے خلاف کر دباغیوں کو قریب تر سرکاری کوششیں کی گئی ۔ کرد زبان کو قومی زبان قرار دیا گیاسرکاری ٹیلی ویژن پر کردش زبان کے چینل کھو لے گئے اور خود کردوں نے بھی ایک حد تک سرکار کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا مگر کردوں کی سیاسی جماعت AKPجسے اس انتخاب میں 10فیصد ووٹ اور 49سیٹیں حاصل ہو ہی ہے وہ ہمیشہ سرکار مخالف رہتے ہوئے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔

انتخاب جیتنے کے بعد ترکی کے صدر طیب رجب اردگان نے اپنے ایک بیان میں دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ انتخاب کے نتائج کا احترام کرے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بد امنی کے بعد رائے دہندگان نے استحکام کا انتخاب کیا ہے ۔لیکن مجھے اب تک دنیا میں کہیں سے بھی ایسی کسی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نظر نہیں آیا انہوں نے ترکی کی عوام سے اپیل بھی کی ہے کہ آئیے ہم سب مل کر ایک ہوجائیں اور مل جل کر ایک ترکی بن جائیں انہوں نے میڈیا کے جانب سے خود پر کی جانے والی تنقید کو بھی نشانہ بنایا ، طیب رجب اردگان اس اسلام پسند خیمے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی پرورش اور آبیاری جدید ترکی کے موجد نجم الدین اربکان نے کی تھی مصطفی کمال پاشا عطا ترک کے ذریعے ترکی کی اسلامی خلافت کا خاتمہ کئے جانے بعد اور ترکی سے اسلام کے تمام تر نقوش کو مٹانے کی کاوشوں کے درمیان 1980کے عوائل میں نجم الدین اربکان نے اسلامی سیاست کے خطوط کو خال کو ترکی میں واپس لانے کی جو کوشش ملی گورش کے قیام کے ذریعہ شروع کی تھی ، طیب رجب اردگان اسی کاوش کا ایک نتیجہ ہے ۔

اپنے دورے حکومت میں اردگان ہمیشہ عالمی میڈیا کی تنقید کا شکار رہے ہیں اس بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ ترکی کو سیکولرز م سے اسلام کی جانب واپس لے جانے کیلئے کوشاں رہے ہیں یہ انہی کی کوششوں کا ثمراں کے آج ترکی کے پانچ کروڑ چالیس لاکھ ووٹران میں سے نصف نے ایک اسلام پسند جماعت کی حمایت میں ووٹ کیا ہے۔ اس سے ترکی کے بدلتے ہوئے معاشرے کی تصویر کو سمجھا جا سکتا ہے۔

ترکی کے صدر پر مطلق الانانیت کا ایک بڑا الزام ہے ان کی اس جیت سے عالمی میڈیا نے اس شعبہ کو مزید اظہار کیا کہ اب صدر ترکی قانونی دائروں سے باہر رہ کر بھی ترکی پر اپنے فیصلے ٹھوکنے کی کوشش کریں گے۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے ترکی میں بتدریج مراکز اقتدا رکو بے وقت بنادیا ، ترکی فوج کو بے اثر کردیا اور اپنے ہی معاصر عبداﷲ گوال کی تحریک کا اثر زائل کرنے کیلئے میڈیا کا سہارا لیا ،عدلیہ کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش کی ،میڈیا پر دباؤ بنائے رکھا، پریس کی آزادی کو صلب کیا معرو ف ’’روزنامہ گار جن ‘‘نے ترکی میں اس انتخابی فتح کے بعد اردگان پر تنقید کرتے ہوئے یہ الزامات عائد کئے ہیں اخبار مزید لکھتا ہے کہ صدر اردگان کو انکار سننے کی عادت نہیں ہے اسی لیے انہوں نے محض پانچ ماہ کے اندر ترکی پر دوسرا انتخاب ٹھوک دیا اور کسی صورت واضح اکثریت حاصل کرلی مگر انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ووٹ صرف ووٹ ہو تے ہیں اور کسی ملک کے استحکام کے لئے محض سیاسی فتح کافی نہیں ہوتی۔ طیب اردگان نے مخلوط حکومت کی قیام کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور اس کی وجہ صر ف یہ تھی کہ وہ ایک ذہین سیاست داں کی طرح پر اعتماد تھے کہ دوسرے مرحلے کے انتخاب میں وہ کسی بھی طرح کامیابی حاصل کر لیں گے اور یہی ہوا ، اخبار لکھتا ہے کہ اردگان کو اکثریت تو حاصل ہو گئی ہے لیکن اس عمل کے دوران ترکی کو نقصان اٹھانا پڑا ہے خود مختار اداروں کی حیثیت کم ہو گئی ہے اور دستور کی عمل آوری کو بھی متاثر کیا گیا ہے کردوں اور ترکوں کے مابین تعلقات خراب ہوئے اور ان کے درمیان جنگ چھڑ گئے ہیں ۔ اپنے صدر بننے کے بعد سے ایک لمحے کے لئے بھی انہوں نے دستور کو بدلنے کیلئے کوششوں کو بند نہیں کیا آخر میں اخبار لکھتا ہے کہ یہ انتخابی نتائج ترکی کو بدامنی کی جانب دھکیل دیں گے ۔

مغربی میڈیا کے یہ اخبار ات اور اکثر دوسرے میڈیا گروپ بھی طیب اردگان اور ان کے پارٹی پر اس قسم کے الزامات ہمیشہ عائد کرتے رہے ہیں اور انہیں الزامات کی بنیادی وجہ کچھ بھی نہیں کہ وہ ترکی کو یوروپی یونین کا رکن بنانے کے بجائے اسلام کی طرف موڑنے پر زیادہ توجہ دیتے رہے ہیں استنبول کے ایک بہت بڑے عوامی جلسے میں جس میں تقریباً 20لاکھ لوگ شریک تھے طیب ارگان نے وہاں کے ایک مشہور شاعر محمد عاکف کے یہ اشعار بر ملا پڑھے تھے
مسجدوں کے مینار ہمارے نیزے ہیں
مسجدوں کے گنبد ہمارے کنٹوپ ہیں
اہل ایماں ہمارا لشکر
ہمارے ایمان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا

عوامی جلسے میں اس قسم کے معتر ف اسلام اشعار پڑھنے کی جرأت ترکی میں اس سے پہلے کسی لیڈر کو نہیں ہوئی تھی یہ طیب ارگان کا اعجاز ہے کہ وہ ملک جہاں اسلام کا نام لینا جرم قرار دے دیا گیا تھا اور جہاں وزیر اعظم کی بیوی کے محض اسکارف پہن لینے کے جرم میں وزیر اعظم کو معذور کردیا گیا ہو اس ماحول میں ترکی کو اپنے جڑوں کی طرف واپس لے جانے کی کوشش اپنے آپ میں ایک معجزہ محسوس ہو تاہے یہ طیب ارگان ہی کا دم ہے کہ آج شام سے خانہ بدر کئے ہوئے تقریباً 20لاکھ شامی شہری ترکی کے مختلف مقامات پر پناہ گزیں نہیں بلکہ مہمان کی حیثیت سے رہتے ہیں ۔ جب کہ دنیا کے دوسرے یوروپی ممالک چند سو یا چند ہزار محاضرین کو بھی اپنے ممالک میں پنا ہ دینے پر اتنے چین بجیں ہو جاتے ہیں کہ اسے عالمی مسئلہ بنا کر اقوام متحدہ میں بحث کرنے پر مجبور کردیتے ہیں وہیں ترکی پچھلے پانچ سال سے اتنی بڑی تعداد میں خاموشی کے ساتھ نہ صرف محاضرین کی کفالت کر رہا ہے بلکہ بشار الاسد کے ظالمانہ اور قاتلانہ اقدامات کے خلاف مہم جوئی کرنے والے مجاہدین کی بھی اعانت کر رہا ہے ہر چند کہ اس مرحلہ میں اسے داعش جیسے دہشت گرد اور شدت پسند تنظیموں کے خطرات سے بھی نبر آزماں ہونا پڑرہا ہے۔ اسی سال مارچ کے مہینے میں جب ایک ہندوستانی وفد کی قیادت کرتے ہوئے میں نے ترکی کا دورہ کیا تھا تو صاف محسوس ہو رہا ہے تھا کہ شامی محاضرین کی وجہ سے خود ترکی کی داخلی سلامتی معرض خطر میں ہے مگر اس کے باوجود ترکی نے محاضرین کی اعانت سے دست کشی نہیں کی ۔ اس انتخاب کے نتائج اس حوصلے سے افزاں ہیں جب ترکی کے دستور کو بدلنے میں پارلیمنٹ کو کافی آسانیاں ہو جائیں گی اور صدارتی طرز حکومت اختیار کر کے اردگان کو زیادہ اختیارات حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔ مشرق وسطی اور فلسطین کے حالات پر بھی اس کے مثبت اثرات پڑنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ بہر حال یہ کہا جاسکتا ہے کہ کفرو باطل کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اسلام کا ایک چراغ روشن ہو گیا ہے۔
 
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24458 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More