پارہ پارہ(پروین شاکرسوانح حیات، فکروفن اور یادیں)

جب پروین نے معروف وکیل اور سیاست داں اعتزازاحسن کو اپنی کتاب ’ماہِ تمام‘پیش کی تو انھوں نے کہا ’’تم نے ابھی اپنا منتخب کلام کیوں شائع کروایا، ابھی تو عمر پڑی ہے۔ پارہ خاموش ہوگئی اور تھوڑے توقف کے بعدگویا ہوئی۔ زندگی کا یقین کس کو ہے اور کون جانتا ہے کہ اُس کو کتنے سانس اور جینا ہے۔‘‘
نصرت زہرا
صفحات:۲۴۰ قیمت:۳۰۰ روپے
ناشر:ایمان زہرا پبلی کیشنز، کراچی
مبصر:صابرعدنانی

زیرنظرکتاب ’’پارہ پارہ‘‘ نئی نسل کی ادیبہ نصرت زہرا کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ بائیس ابواب پر مشتمل اس کتاب میں اُنھوں نے پروین شاکر کے مہد سے لحدتک کی زندگی کا احاطہ کیا ہے اور بعض اُن پوشیدہ گوشوں کوبھی واضح کیا ہے جن سے پروین کے چاہنے والے آج تک ناواقف تھے۔انھوں نے اس فن پارے کے لیے جتنی تگ ودو کی وہ اِن کی پروین سے عقیدت کی بنیاد ہے۔ بلاشبہ پروین اپنے عہد کی اُن شاعرات سے تعلق رکھتی تھیں جن کا منفرد طرزِاظہارہے۔وہ دنیائے ادب کی وہ نابغۂ روزگارشاعر تھیں جنھوں نے اپنی شناخت خود بنائی۔ اُنھوں نے اپنے احساسات کو لفظوں میں ڈھال کراس طرح پیش کیا کہ وہ امر ہوگئے۔پروین کے اشعارکی ’خوشبو‘ آج بھی پھیلی ہوئی ہے۔

نصرت زہرا نے اس کتاب میں اچھاخاصا معلوماتی موادجمع کردیا ہے۔انھوں نے کتاب میں پروین شاکرکی زندگی کی اس طرح منظرکشی کی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پروین اور نصرت ساتھ ساتھ رہے ہیں اور نصرت، پروین کی داستانِ حیات لکھ رہی ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے ہر لمحے یہ احساس ہوتا ہے کہ پروین کسی دوست اور ہمدردکی حیثیت سے نصرت کواپنی داستانِ زندگی کے اوراق کھول کھول کر سنارہی ہیں۔نصرت نے بعض ایسے واقعات بھی پیش کیے ہیں جن کے حوالے سے پروین کاغم ہرصاحبِ احساس کا غم بن جاتا ہے ۔ ’فصل گل آئی یا اجل آئی‘میں بتایا گیا ہے کہ جب پروین نے معروف وکیل اور سیاست داں اعتزازاحسن کو اپنی کتاب ’ماہِ تمام‘پیش کی تو انھوں نے کہا:
’’تم نے ابھی اپنا منتخب کلام کیوں شائع کروایا، ابھی تو عمر پڑی ہے۔ پارہ خاموش ہوگئی اور تھوڑے توقف کے بعدگویا ہوئی۔ زندگی کا یقین کس کو ہے اور کون جانتا ہے کہ اُس کو کتنے سانس اور جینا ہے۔‘‘

اتفاق ہے کہ انتقال کے دن روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے لیے جو کالم اُنھوں نے بھیجا اُس کا عنوان تھا ’’موت برحق ہے‘‘شایدپروین شاکر اپنی زندگی کی ساعتوں سے آگاہ تھیں اور اُنھیں اندازہ تھا کہ اب زندگی کا سفراختتام پرہے ۔

بہت پہلے معروف نقاد و شاعرپروفیسرسحرانصاری نے پروین کے لیے ’قومی زبان‘ مارچ ۱۹۹۵ء میں جن الفاظ میں خراج تحسین پیش کیاتھا اس کا تذکرہ یہاں مناسب ہوگا:
پروین شاکر کی شاعری سے عام افراد اور مخصوص حلقے یکساں طور پر متاثر تھے۔ اب جو اپنے اپنے انداز میں لوگ پروین شاکر کو یاد کررہے ہیں اُن کے کلام کی داد دے رہے ہیں اور ادبی صفوں میں ان کی کمی کو محسوس کررہے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مقبولیت اور دائمی شہرت وہی ہے جو بیک وقت تمام لوگوں کے دلوں میں بھی ہو اور تاریخ کے صفحات پر بھی۔‘‘

اُمید کی جاتی ہے کہ نصرت زہرا کی یہ کتاب ادبی حلقوں میں پسند کی جائے گی۔
 
صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 86757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.