سرسیّد احمد خان اور رسالہ ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ کی اہمیت

’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ تقریباً 1000ء سال قبل ترکستان کے ایک شہر میں ایک فاضل حکیم ابو علی مسکویہؔ نے ایک کتاب ’’تہذیب الاخلاق‘‘ لکھی تھی جو اپنے موضوع اور زبان و بیان کے اعتبار سے نہایت مقبول تھی۔ جس وقت ابو علی مسکویہ نے یہ کتاب لکھی اس وقت اسلامی عروج کا زمانہ تھا سرسیّد احمد خان کے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی نسبت ملک فضل الدین نے سرسیّد کو ابو علی مسکویہؔ کا نام دیا ہے۔

جدید اردو نثر کے بانی اور مصلح قوم سرسید احمد خان

سرسیّد احمد خاں 17؍اکتوبر 1817ء کو دہلی کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ سرسیّد کے دادا سیّد میر ہادی، شاہ عالم کے زمانے میں صوبۂ شاہجہاں آباد کے محتسب اور قاضیٔ لشکر تھے۔شاہی دربار سے انھیں ’جواد الدولہ‘ کا خطاب عطا ہوا تھا۔ سرسیّد ایک نہایت ہی معزز اور شریف خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ سرسیّد کے نس نس میں خاندانی شرافت رس بس گئی تھی۔ 1888ء میں سیّد احمد خاں کو’’ سر‘‘ کا خطاب ملا اور 1898ء میں اڈنبرا یونی ورسٹی نے ان کی علمی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹر آف لاز کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی۔

سرسیّد احمد خان 28؍مارچ 1898ء کو علی گڑھ میں اپنے ایک دوست کے گھر میں فوت ہوئے۔ وہ اپنی زندگی بھر کی جمع پُونجی کالج پر لُٹا چکے تھے، اور ان کے کفن و دفن کے لیے بھی ان کے گھر میں رقم نہ تھی۔ اِس موقع پر ان کے جگری دوست نواب محسن الملک نے کفن و دفن کے مصارف ادا کیے۔ سرسیّد کا جسدِخاکی اپنے تعمیرکردہ کالج کی مسجد کے صحن کے شمالی حصّے میں سپردِخاک کیا گیا۔

سرسیّد احمد خان کے نزدیک اعلیٰ تعلیم کا حصول مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمان اقتصادی طور پر تباہ ہوگئے، ان کی جائیدادیں نیلام ہوگئیں، ان کی جاگیریں ضبط ہوگئیں، اور ہزاروں افراد کو انگریزوں نے انتقامی جذبے کے تحت تختۂ دار پر چڑھا دیا۔ لاکھوں کھاتے پیتے افراد نانِ شبینہ کے لیے محتاج ہوگئے۔ ہندوؤں کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ انگریزوں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے لگے۔ اُنھوں نے انگریزی زبان پڑھ کر سرکاری ملازمتیں حاصل کرلیں۔ مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے رہ گئے۔ سرسیّد احمد خان کے زمانے میں کلکتہ یونی ورسٹی سے 240اُمیدوار ’بی اے‘ کے امتحان میں کامیاب ہوئے، ان میں صرف ایک مسلمان تھا۔ سرسیّد احمد خان لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو پنکھا قلی، مالی، گھسیارے اور کوچوان کے علاوہ اور کوئی ملازمت نہیں ملتی تھی۔ وہ تجارت اور تعلیم کے میدان میں ہندوؤں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور اُن کا بال بال قرض میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ فضول رسمیں ادا کرنے اور رسم و رواج پورے کرنے کے لیے مہاجنوں سے سُود پر بڑی بڑی رقمیں لے رہے ہیں۔ چوں کہ وہ یہ قرض واپس نہیں کرسکتے اِس لیے اُن کی جائیدادیں مہاجن ضبط کروالیتے ہیں۔

1857ء کے آخر میں حالات اِس قدر گمبھیر ہوگئے تھے کہ سرسیّد احمد خان نے برعظیم پاک و ہند اور بنگلہ دیش کی سکونت ترک کرکے مکّہ مکرمہ یا مدینہ منّورہ میں مستقل رہائش اختیار کرلینے کا ارادہ کرلیا تھا۔ ایک روز اُن کے ضمیر نے انھیں جھنجھوڑا کہ وہ تو وہاں جاکر گوشۂ عافیت میں بیٹھ جائیں گے لیکن یہاں بسنے والے مسلمانوں کی رہنمائی کون کرے گا؟ اس خیال کے آتے ہی سرسیّد نے اپنے دل میں یہ کہا کہ مسلمانوں کو اِس حال میں چھوڑ کر گوشۂ عافیت میں بیٹھ جانا مردانگی کے خلاف ہے، انھیں یہیں رہ کر ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اِس خیال کے دل میں جاگزیں ہوتے ہی سرسیّد نے ہجرت کا ارادہ ترک کردیا اور خود کو مسلمانوں کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔

سپیکٹیٹر اور ٹیٹلر:
سرسیّد احمد خان انگلستان میں تھے کہ ان کی نظر’ اسپیکٹیٹر‘ اور’ ٹیٹلر‘ پر پڑی۔ یہ وہ جرائد تھے جنھوں نے انگلستان کے جامد نظامِ حیات میں ہلچل مچا دی تھی۔ اِن جرائد نے اخلاقی، تعلیمی اور سماجی اصلاح کا کام کیا۔ یہ جرائد انگلستان کی تنزل پذیر حالت کو دُور کرنے اور وہاں کے لوگوں کو ترقی کے نکات بتانے میں بہت مدو معاون ثابت ہوئے ۔

سررچرڈ اسٹیل کی ادارت میں پہلی مرتبہ 1709ء میں ’ٹیٹلر‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔ اسٹیل کے رفیق ِ کار کی حیثیت سے جوزف ایڈیسن نے اس رسالے کی اشاعت میں اسٹیل کا ساتھ دیا۔سر رچرڈ اسٹیل نے 1711ء میں بغیر اطلاع کے یہ رسالہ بند کردیا۔ بعدا ازاں ایڈیسن نے تقریباً دو ماہ بعد مارچ 1711ء کو یہ رسالہ ’اسپیکٹیٹر‘ جاری کیا۔ ’اسپیکٹیٹر‘ کے 555 شمارے نکلے اس میں 274 شمارے خود ایڈیسن نے لکھے۔ عوام میں تہذیب ، اخلاق و شائستگی پیدا کی۔ ’اسپیکٹیٹر‘ اٹھارویں صدی کے انگلستان کی سماجی زندگی کی بہ خوبی عکاسی کرتا ہے۔ قوم کی اصلاح کے لیے انگلستان میں ایڈونچرز، ورلڈ، میرر وغیرہ جیسے پرچے بھی نکلے مگر ’اسپیکٹیٹر‘ اور’ ٹیٹلر‘ نے جو خدمات سرانجام دیں اور جو شہرت اُن پرچوں کو ملی وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آئی۔

’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ تقریباً 1000ء سال قبل ترکستان کے ایک شہر میں ایک فاضل حکیم ابو علی مسکویہؔ نے ایک کتاب ’’تہذیب الاخلاق‘‘ لکھی تھی جو اپنے موضوع اور زبان و بیان کے اعتبار سے نہایت مقبول تھی۔ جس وقت ابو علی مسکویہ نے یہ کتاب لکھی اس وقت اسلامی عروج کا زمانہ تھا سرسیّد احمد خان کے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی نسبت ملک فضل الدین نے سرسیّد کو ابو علی مسکویہؔ کا نام دیا ہے۔

سرسیّداحمد خان کے ذہنی ارتقا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیمی خدمات اپنے رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ کے ذریعے ان کے ذہنوں میں پہنچائیں اور اپنے تجربات و مشاہدات مسلمانوں کے اندر سمونے کے لیے اس رسالے میں اپنا پیغام بہم پہنچاتے رہے۔1870ء میں رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا اجرا ہوا۔ 1875ء میں تہذیب الاخلاق بند ہوگیا جس کی ایک وجہ مدرسۃ العلوم کے لیے چندے کی فراہمی تھی مالی تعاون کے لیے انھیں مصلحتاً اس کو بند کرنا پڑا دوسری وجہ سرسید کے سب سے بڑے مخالف امداد العلی سے سرسیّد نے مدرسۃ العلوم میں شریک ہونے کی التجا کی تو انھوں نے دو شرائط رکھیں ایک تہذیب الاخلاق کی اشاعت بند کردی جائے دوسرا سرسیّد اپنے عقائد سے توبہ کرلیں۔

1876ء میں ’’تہذیب الاخلاق‘‘ دوبارہ شائع ہوا اور 1881ء میں بند ہوگیا۔ 1893ء کی ایجوکیشنل کانفرنس میں ڈپٹی نذیر احمد نے سرسیّد احمد خان کو تہذیب الاخلاق کے اجرا کا مخلصانہ مشورہ دیا اور پُرزور حمایت کی۔ معترضین کا مخلصانہ مشورہ تھا کہ تہذیب الاخلاق ہرگز ہرگز دوبارہ نہ شائع کیا جائے۔ اس کے اجرا پر سرسید نے لکھا کہ: ’’پچھلے تہذیب الاخلاق کے اجراء سے یہ فائدہ تو ہوا کہ لوگوں میں کسی حد تک بیداری، روشن خیالی آئی اب لوگ انگریزی زبان پڑھنے کو کفر نہیں سمجھتے خواہ انھوں نے صدق دل سے یہ صورتِ حال پسند کی یا بہ مجبوری۔‘‘ اس مرتبہ تہذیب الاخلاق کا دورانیہ تین سال رہا اس کے بعد بند ہوگیا۔

’تہذیب الاخلاق‘ سے پہلے بہت سے اخبارات اردو، فارسی میں نکل رہے تھے مثلاً جامِ جہاں نما، دہلی اخبار، سید الاخبار، مراۃ الاخبار، تحفۃ الموحدین، یہ اور تمام پرچے تہذیب الاخلاق کے اغراض و مقاصد تک نہ پہنچ سکے۔ تہذیب الاخلاق کے اجرا کا بنیادی مقصد قوم کی سوئی ہوئی ذہنیت کو بیدار کرنا، زمانے کے ساتھ چلنا، وہ اسباب دریافت کرنا کہ جن پر عمل پیرا ہوکر زمانے کا ساتھ دیا جاسکے۔ قوم کی معاشرتی، اخلاقی، تعلیمی خدمات کرنا ملک و قوم میں روشن خیالی پیدا کرنا۔ سرسیّد نے لکھا ہے کہ:
’’اس پرچے کے اجرا کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجے کی تہذیبCivilization اختیار کرنے پر راغب کیا جائے۔‘‘

اس پرچے کا مقصد قوم کے مفلوج اعضا میں حرکت و عمل کا خون دوڑانا تھا۔ تہذیب کے مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مذہب اسلام پر عیسائیوں کی نکتہ چینیوں کو تحقیق و استدلال سے رفع کیا جائے۔ تہذیب الاخلاق کے پرچوں کے ذریعے بار بار یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اسلام ترقی و تعلیم کے خلاف نہیں ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کا مخالف نہیں۔ تہذیب الاخلاق نے عصری تقاضوں کے پیش نظر جدید علوم و فنون کی جانب توجہ مبذول کروائی۔ ترقی کے راستوں کا تعین کیا، مذہب اور سماج کے جمود میں ارتعاش پیدا کیا۔

’’ تہذیب الاخلاق‘‘کو اردو زبان کی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس رسالے کی اجرائی سے اردو میں ادبی تنقید کی ابتدا ہوئی اور معاشری مہم کو کامیاب بنانے کے لیے منظم جدوجہد کی جانے لگی، چوں کہ سرسید کا مقصد اپنی تحریک کو پھیلانا اور مقبولِ عام بنانا تھا۔ اس لیے زبان کو سادہ اور طرزِ بیان کو عام فہم بنانے پر پوری توجہ کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردو نثرنگاری کا پرانا انداز متروک ہونے لگا اور اس نئے طرزتحریر کی ابتدا ہوئی۔ سرسیّد کے اس مجلے میں لکھنے والوں میں سرسیّد کے علاوہ نواب محسن الملک، خواجہ الطاف حسین حالی، نواب وقار الملک، شمس العلماء ذکاء اﷲ، مولوی فارقلیط اﷲ، ڈپٹی نذیر احمد،مولوی چراغ علی جو بعد میں اعظم یار جنگ کے لقب سے ملقب ہوئے، جسٹس محمود، وحیدالدین سلیم وغیرہ نے اس تحریک کو لبیک کہا اور اصلاحی مضامین لکھ کر سرسید کے ساتھ قلمی تعاون کیا۔ سرسیّد یہ چاہتے تھے کہ برعظیم پاک و ہند اور بنگلہ دیش کے عوام اور خصوصاً مسلمان کھانے پینے اور رہنے سہنے کے لیے یورپین طور طریقے اپنائیں۔ اپنے بچوں کو انگریزی زبان اور جدید سائنسی علوم کی تعلیم دلوائیں اور انھیں اسکولوں اور کالجوں میں داخل کرائیں۔ سرسیّد احمد خان اپنے قیام انگلستان کے دوران میں وہاں سائنس میں ہونے والی ترقی اور وہاں کی طرزِمعاشرت سے برعظیم کے باشندوں کو متعارف کرانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے سرسیّد اور اُن کے ساتھیوں نے سلیس زبان استعمال کی جو علی گڑھ تحریک کا طرّۂ امتیاز بن گئی۔

اس پرچے کو اردو زبان کی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس رسالے کی اجرائی سے اردو میں ادبی تنقید کی ابتدا ہوئی اور معاشرتی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے منظم جدوجہد کی جانے لگی، چوں کہ سرسیّد کا مقصد اپنی تحریک کو پھیلانا اور مقبولِ عام بنانا تھا۔ اس لیے زبان کو سادہ اور طرزِ بیان کو عام فہم بنانے پر پوری توجہ کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردو نثرنگاری کا پرانا انداز متروک ہونے لگا اور اس نئے طرزتحریر کی ابتدا ہوئی، جس کو سرسیّد کے رفیقوں نے حیرت انگیز سرعت کے ساتھ ترقی دی اور جس کی بنیاد پر موجودہ اردو نثرنگاری کی عمارت تعمیر ہوئی۔

’تہذیب الاخلاق‘ کے ذریعے معاشرتی برائیوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی گئی سرسید نے معاشرتی برائیوں کو دُور کرنے اور عمدہ تہذیب پیدا کرنے کے لیے جو موضوعات بتائے ان میں چند یہ ہیں:
]آزادیٔ رائے[ ]درستیٔ عقائدِ مذہبی[ ]خودغرضی[ ]اخلاق[ ]لباس[ ]عزت و غیرت[ ]ضبط اوقات[ ]رسم و رواج[
تہذیب الاخلاق کا مطلب ہی اخلاق کی تہذیب ہے زندگی کے ہر شعبے میں اخلاق کی اہمیت ناگزیر ہے۔ سرسیّد نے ’تہذیب الاخلاق‘ کے ذریعے جہاں معاشرتی، اخلاقی اصلاح کی کوششیں کیں وہیں مذہب کو بھی انھوں نے موضوعِ بحث بنایا۔

مذہبی اصلاح:
مذہبی اصلاح سے مراد نیا مذہب ایجاد کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ ان معاشرتی اور سماجی، اخلاقی برائیوں کا قلع قمع کرنا تھا جن کو جاہل لوگ مذہب سمجھ بیٹھے تھے۔ ایک انگریز نے ترکی کے سفر پر کہا تھا کہ:
’’جب تک اہل ترک مذہب اسلام کو نہ چھوڑیں گے مہذب نہ ہوں گے کیوں کہ مذہب اسلام انسان کی تہذیب کا مانع قوی ہے۔‘‘

فواد پاشا نے اس انگریز سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’اسلام میں وہ سب سچی باتیں ہیں جو دنیا کی ترقی کو حاصل کرنے والی اور انسانیت اور تہذیب اور رحم دلی کو کمال کے درجے پر پہنچانے والی ہیں۔‘‘

سرسید نے ’تہذیب الاخلاق‘ کے اجرا کے موقع پر کہا تھا کہ ’تہذیب الاخلاق‘ اس لیے جاری ہوا کہ فواد پاشا کی رائے کو سچ کر کے دکھایا جائے۔ مذہب کی اصلاح کے لیے سرسید نے تحقیق و استدلال کا راستہ اختیارکیا۔مذہب اور سائنس کی اہمیت و افادیت کا احساس دلانا ’تہذیب الاخلاق‘ کا خاص مقصد تھا۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے مضامین ہمیشہ اس بات کی تردید کرتے رہے کہ عقلی علوم کی تحصیل سے مذہب میں فرق آجائے گا۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے مضامین نے عقل و استدلال کی روشنی میں اسلام کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی یہ الگ بات ہے کہ اکثر جگہوں پر یہ کوشش حد سے تجاوز کرگئی ہے۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے لکھنے والوں نے اس بات کو واضح کیا کہ مذہب اسلام کمزور اور ناپائیدار نہیں اور نہ ہی علوم جدیدہ اسے کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ اسلام کا اور اس کی تعلیمات کا فطرت کے مطابق ہونا اس کی خوب صورتی ہے۔ فلسفہ اور سائنس اور جدید علوم وفنون مذہب کی بنیاد کو متزلزل نہیں کرسکتے۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کو ایک ایسے دَور سے واسطہ تھا جب مغربی افکار و نظریات اسلامی عقائد پر ضرب لگا رہے تھے دوسرے مسلمان فرسودہ روایتوں کے حصار میں قید تھے۔’ تہذیب الاخلاق‘ کو بیک وقت دو محاربوں سے گزرنا پڑا۔

جدید ذہن و دل اور گہری بصیرت رکھنے والے کچھ ملک و قوم کے بہی خواہ اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئے تھے کہ ہندوستان کا مروّجہ نظام سیاست فرسودہ اور بے جان ہو چکا ہے اور اس میں زندگی کی حرارت باقی نہیں رہی۔ لاشعوری طور پر ہر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں جن سے قوموں کی تہذیبی اور سماجی زندگی متاثر ہوتی ہے لیکن یہی تبدیلیاں جب سیلاب کی شکل اختیار کرلیں تو اس میں نہایت تیزی آتی ہے ۔ قوموں میں دو طبقے پیدا ہو جاتے ہیں ایک قدیم تہذیب کا پیکر اور دوسرا جدید نظریات و افکار کا مظہر۔ ہندوستان میں مغربی حکمران کے تسلط سے جب یہ صورت حال پیدا ہوئی تو قدیم تہذیب و روایات کا ایک حامی ایک بڑا طبقہ سید احمد بریلوی کی قیادت میں اور عہد جدید کے تقاصوں کا قائل ایک دوسرا طبقہ سید احمد دہلوی کی رہنمائی میں پیدا ہوا اوّل الذکر اگر خالص روحانیت میں ڈوبا ہوا تھا تو دوسرا روحانیت کے ساتھ عقلیت و مادّیت کا بھی قائل تھا۔ دو تہذیبوں کے ٹکراؤ میں یہ صورتِ حال پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ آئینِ نو سے ڈرتا ہے اور طرزِ کہن پر اڑے رہنا ہی اپنی وضع داری سمجھتا ہے۔

انیسویں صدی کے آغاز سے ہی ہندوستانی تہذیب پر جمود کی کیفیت طاری ہونے لگی ملک کے سیاسی حالات بہتری کے بجائے خراب سے خراب تر ہونے لگے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر تاجوری کے خواب دیکھنے لگے۔ کمپنی کی بڑھتی ہوئی طاقت ہندوستانی کی تہذیبی، سماجی اور سیاسی زندگی پر چھاتی چلی گئی۔ ملک کے سارے اختیار پر کمپنی کا غلبہ ہوگیا۔ ہندوستانیوں کی سماجی تہذیبی اور معاشرتی زندگی مغربی تہذیب و معاشرت سے متاثر ہونے لگی۔ مغربی اور جنوبی ہند کے ہندو اور مسلمانوں نے اپنی تہذیب و روایات کو برقرار رکھتے ہوئے انگریزی تہذیب و تمدن کو گوارا کرلیا تھا۔ لیکن شمالی ہند کے مسلمانوں اور ہندوؤں کا حال اس کے برعکس تھا۔ بعد میں ہندوؤں نے مصلحت یا مفاہمت کے تحت انگریزوں سے دوستی،میں اپنی بقا جانی جب کہ دوسری جانب مسلمان کسی بھی قیمت پر سازباز کرنے کے لیے تیار نہ تھے انگریز نے سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی مداخلت کے ساتھ جب مذہب میں بھی مداخلت شروع کی تو علما نے برطانوی تسلط کو اسلام کے حق میں مستقل خطرہ محسوس کیا ان کا یہ سوچنا کچھ غلط بھی نہیں تھا بنگال میں مشنری اسکول عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے۔

ملک و قوم کے زوال کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ قوم اپنی حالت موجودہ پر صابر و شاکر ہوکر بیٹھ جاتی ہیں اور خود کو ترقی کی معراج پر سمجھ کر جذب و قبول سے انکار کرتی ہیں۔ ہندوستانی قوم نے بھی اپنی پستی کا سدباب نہ کیا، سیاسی انحطاط پر محض آنسو بہاوے مگر اس کا حل اور بہتری تلاش کرنے کی کوشش نہ کی ذہنی اور اخلاقی انحطاط جو پیدا ہو رہا تھا انھیں اس کا احساس بھی نہ تھا۔ ہندوستانیوں کی عملی زندگی میں فرار اور گریز کی صورت نمودار ہو رہی تھی۔ انیسویں صدی کا زمانہ ہوہندوستان کی زندگی میں ہیجان خیز زمانہ تھا۔ نئی اور پرانی تہذیب کے تصادم نے ہندوستانی ذہنوں میں انتشار کی صورت پیدا کررکھی تھی۔ ہر عہد میں انقلاب اور تغیرات آتے رہتے ہیں۔ پرانی بنیادیں متزلزل ہوتی ہیں جب کہ اس کی جگہ نئی بنیادیں پڑتی رہتی ہیں، ہر نووارد پرانی بنیادوں کی بیخ کنی کرکے نئی عمارت تعمیر کرتا ہے۔

شاہ ولی اﷲ ، شاہ عبدالعزیز، سید احمد شہید، فرائض و تحریک (مولوی شریعت اﷲ) تیتو میر شہید وغیرہ۔

مولانا قاسم نانوتوی اور دیگر مجاہدین نے تھانہ بھون میں حاجی امداد اﷲ کی قیادت میں آزاد مقامی حکومت بنائی۔ سرسیّد احمد خان اور قاسم ناناتوی ایک ہی اُستاد کے شاگرد اور دہلی کالج کے تعلیم یافتہ تھے مگر دونوں کے خیالات و افکار میں زبردست فرق تھا۔ اس دور میں مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے جن کی شہادت متعدد برطانوی مصنّفین کی تحریروں، اخبارات سے ہوتی ہے۔ ہندوستان میں اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے انگریزوں نے ہندو مسلم تعریف کی پالیسی اختیار کی ہندو اور سکھوں نے انگریزوں سے مصالحتی ہی میں اپنا مفاد دیکھا۔ قومی اور مذہبی اصلاحوں کے لیے ہندوؤں نے بہت سی انجمنیں قائم کیں۔ آریہ سماج تحریک اس کی بڑی مثال ہے۔ دیانند سرسوتی نے اس کی بنیاد ڈالی یہ جماعت مسلمانوں کی سخت مخالف تھی،ایسے میں ایک سرسیّد کی ضرورت تھی۔

شمالی ہند میں عبداللطیف، سید امیر علی، خدابخش جیسے دانشوروں نے بنگال میں مسلم بیداری پیدا کرنے کی کافی حد تک کوششیں کیں، لیکن افسوس ہے کہ شمالی ہند کے مسلمانوں میں اس بیداری کا اثر نہ پڑسکا۔ یہاں کے لوگ خواب غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ سرسید کی عالمگیر اور بھرپور تحریک نے شمالی ہند میں بیداری پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ سرسیّد احمد خان نے زمانے کے عروج و زوال کا بہ غائر مطالعہ کیا تھا۔ سرسیّد نے سسکتی ہوئی قدیم تہذیب کو دُور سے ہی نہیں دیکھا بلکہ وہ خود بھی قدیم تہذیب کے پروردہ تھے۔ سرسیّد نے مغلیہ سلطنت کے زوال کی آہٹ کو محسوس کرلیا تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ مغل اقتدار کے چراغ کی مدہم اور برطانوی استعمار کی تند و تیز آندھی کے سامنے ٹھہرنے والی نہیں لہٰذا انھوں نے حقیقت سے آنکھیں چرانے کے بجائے حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے برطانوی حکومت میں ملازمت کا فیصلہ کیا۔ ایسے صبر آزما دورمیں جب کہ مذہبی پیشوا اور علما ماضی کے ہی سہانے سپنوں میں محو تھے، سرسیّد ماضی پرستی کے بجائے حال کو استوار بنانے کی تدبیر میں لگ گئے۔ سرسیّد نے ضروری سمجھا کہ قدیم تہذیبی نظام کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور اسے مغربی تہذیب کے مادّی و عقلی عناصر سے ہم آہنگ کیا جائے۔ بنیادی طور پر حکومت سے عدم تعاون کی پالیسی، تقلید پرستی، مذموم رسم و رواج کی پابندی، قومی تعصّبات کی جکڑبندی اور سب سے بڑھ کر جدید تعلیم و تربیت کی کمی مسلمانوں کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جا رہی تھی۔ سرسیّد احمد خان نے بہت غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو پنپنے کی یہی شکل ہو سکتی ہے کہ جدید علوم و فنون کی طرف مخلصانہ قدم بڑھایا جائے۔

ایک اعتراض یہ آیا کہ سرسیّد کو انگریزوں کی ہر ادا پسند تھی۔ اگر انھیں انگریزوں کی ہر ادا پسند ہوتی تو ان کے قلم سے ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ جیسی تصنیف وجود میں نہیں آتی۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان کی غلط اور تعصّب سے بھری تاریخ کی مذمّت میں ان کا قلم نہ اٹھتا۔ قدیم نظام تعلیم کا شیرازہ منتشر ہوچکا تھا، اس ے ذمّے دار انگریز تھے انگریزوں نے یہاں کی تاریخ کو کچھ اس طرح مسخ کرکے پیش کیا کہ حقائق کی اصل صورت ان کی افسانہ طرازی کے پرے میں چھپ کر رہ گئی مغربی مورخین نے ہمیں یہ یقین دلانے میں کوئی کسر نہ باقی چھوڑی کہ اہل یورپ نے جب یہاں قدم رکھا تو یہاں جمود اور بے حسی کی کیفیت تھی۔ بقول سرسیّد احمد خان کہ انگریزوں نے مسلمان بادشاہوں اور مسلمانوں کی حکومتوں کی تاریخیں نہایت نا انصافی اور تعصّب سے لکھی۔

حالات کی ستم ظریفی نے مسلمانوں کو جس انقلاب سے دوچار کیا اس کے نتیجے میں ان کے خیالات و افکار میں جمود آچکا ہے وہ ذہنی سطح پر تبدیلی کے لیے تیار نہ تھے، اپنے اسلاف کے کارناموں کو ہی معراج سمجھ رہے تھے۔ قدیم مذہبی روایات اور مروّجہ رسوم کے سامنے انھیں عقلیت پسندی ایک لغو چیز نظر آئی۔ انگریزوں سے نفرت کے جذبات نے انھیں ترقی کے میدان میں قدم آگے بڑھانے سے باز رکھا۔ حکومتِ وقت کی سیاسی پالیسی بھی یہی تھی کہ وہ اور پیچھے ہوتے جائیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انگریز حکمراں ہندوستان میں تعلیم کے حامی نہ تھے۔ انگریزوں نے ہندوستان میں جو تعلیمی ادارے قائم کیے وہ بڑے دور رس اثرات کے حامل تھے۔ جدید تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے ملازمت کے دروازے ان پر بند تھے اور ترقی کی راہیں ان کے لیے مسدود۔سرسیّد نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ ان کی تباہی، بربادی اور تنزل کی ذمّے دار ایک حد تک خود ان کی غفلت ہے۔

قومی اور تعلیمی اصلاح:
سرسیّد احمد خان نے ’تہذیب الاخلاق‘ کے مضامین میں کوشش کی کہ ہندوستان کی مختلف اقوام خصوصاً ہندوؤں اور مسلمانوں میں آپس کی رنجشیں اور نفسا نفسی ختم ہو اور تمام قومیتیں ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ کر ہندوستان کے تمام باشندوں کے لیے ان کی فلاح، ترقی کے لیے کام کریں۔ سرسیّد نے ہندو اور مسلمانوں کو ایک دُلہن کو دو آنکھیں قرار دیتے ہوئے انھیں صلح و میل ملاپ سے رہنے کی تلقین کی۔ یہی تہذیب الاخلاق کا مشن بھی تھا۔

تعلیمی اصلاح کے لیے تہذیب الاخلاق نے جو سب سے بڑا قدم اٹھایا وہ تھا مغربی علوم و فنون کی اشاعت اور مدرسۃ العلوم کے قیام کی کوشش۔ تاکہ قوم اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور اپنی قومی، معاشرتی اور تہذیبی زندگی کو اعلیٰ معیار تک پہنچا سکے۔ تہذیب کے مضامین میں سرسیّد نے تعلیم کی اصلاح کی کوشش کی ان کا کہنا تھا کہ اچھی تعلیم عمدہ سوسائٹی سے حاصل ہوتی ہے۔اپنی بات کی تائید میں وہ انگلستان کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انگلستان کا کم تعلیم یافتہ شخص بھی مہذب اور تربیت یافتہ ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سوسائٹی تہذیب یافتہ ہے۔

سرسیّد نے باور کرایا کہ بے شک قدیم علوم نے عہد بہ عہد ترقی کی مگر اب قدیم علوم پر جمود کی کیفیت طاری ہے۔ لہٰذا تہذیب الاخلاق نے اس جمود کو توڑا اور تعلیمی اصلاح کے پیش نظر سرسید نے کئی ادارے قائم کیے۔تہذیب الاخلاق کے ذریعے اسلاف کے علمی اور عقلی کارناموں کا جائزہ بھی لیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے عہد میں بے شک مقبول تھے لیکن اب وقت تبدیل ہو رہا ہے ہمیں بھی وقت کے تقاضوں کو اپنے پیش نظر رکھتے ہوئے جدید علوم و فنون حاصل کرنے چاہییں۔ تہذیب الاخلاق کی انفرادیت یہ ہے کہ جدید تعلیم کے اختیار کرنے میں جو کوششیں کیں ان میں جذبات کے بجائے عقل و شعور سے کام لے کر تعلیمی نظام میں تبدیلی کو ناگزیر بتایا۔

سرسیّد کا کہنا تھا کہ جس طرح ماضی میں ہمارے اسلاف اپنے عہد کے جدید علوم کو حاصل کرتے رہے اور انھوں نے زمانے کی مخالفت کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ اسی طرح ہمیں بھی پورے انہماک کے ساتھ جدید علوم و فنون پر توجہ کرنی ہوگی کیوں کہ ملک و قوم کی ترقی و ترویج کے لیے بہ اقتضائے زمانہ علوم جدیدہ کی تحصیل بہت ضروری ہے۔ سرسیّد کے ذہن میں جدید تعلیم کا جو خاکہ تھا اسے اُنھوں نے تہذیب الاخلاق میں پیش کیا۔ تہذیب الاخلاق کے ذریعے سرسیّد نے یہ ذہن نشین کرایا کہ جدید تعلیم ہی قوم کی سماجی، معاشی اور تہذیبی ترقی کے لیے مددگار اور معاون ہوسکتی ہے۔

معاشرتی و تہذیبی مضامین:
تہذیب الاخلاق کے اجرا کا مقصد ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو کامل درجے کی تہذیبCivilization اختیار کرنے پر راغب کرنا تھا، معاشرے کی سوکھی اور بنجر زمین پر جدید تعلیم کا بیج آسانی سے نہیں بویا جاسکتا تھا اس کے لیے ضروری تھا کہ یہ فالتو خس و خاشاک کو صاف کرکے زمین کو ہموار کیا جائے۔ تہذیب الاخلاق کے بنیادی مقاصد میں جدید تعلیم کی ترویج و اشاعت کو کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ ہندوستانی معاشرہ بہت سی برائیوں میں مبتلا تھا۔ تہذیب الاخلاق کا بنیادی کام یہی تھا کہ وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو دُور کرے اور اپنے مضامین کے ذریعے سماجی اور اخلاقی زندگی میں ایک زبردست انقلاب برپا کرے۔ تہذیب و معاشرت کے حوالے سے تہذیب الاخلاق میں لکھے جانے والے مضامین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تہذیب الاخلاق نے اخلاق و معاشرت کی بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو موضوعِ بحث بنایا مثلاً میزبان کو مہمان کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے۔ وقت کی پابندی، رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات، رہن سہن، طرزِگفتگو ، کاہلی، خوشامد وغیرہ۔ یہ باتیں سماجی اور معاشرتی انقلاب کے لیے ضروری تھیں۔

تعلیمی مضامین:
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد تعلیمی نظام میں بتدریج تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں۔ انیسویں صدی میں قدیم طرزِ تعلیم میں بڑے بڑے ذی علم پیدا ہوئے۔ جن میں راجہ رام موہن رائے، ماسٹر رام چندر، سرسیّد احمد خان، مولوی ذکاء اﷲ، نذیر احمد وغیرہ۔ یہ تمام درخشاں ستارے قدیم طرز کے چشمۂ علمی سے سیراب ہوئے مگر جب انھیں مشرقی علوم کے زوال پذیر ہونے کا احساس ہونے لگا تو وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قدیم تہذیب کے پروردہ جدید تعلیم کی افادیت کو شدّت سے محسوس کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ جدید تعلیم کا اثر و نفوذ بڑھنے لگا مگر اس کی ایک بڑے طبقے نے اس کی مخالفت شروع کردی۔ عام ہندوستانی مسلمانوں کو حکومت کی تعلیمی پالیسی کا احساس نہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ قدیم نظام تعلیم میں ان کے سیرت و کردار کی تشکیل کا سانچہ ہے۔

’’تہذیب الاخلاق’’ وہ سیڑھی بنا کہ جس پر چڑھ کر قوم نے جدید تعلیمی منازل کے نقوش دیکھے اور اپنی راہوں کی سمت کا تعین کیا۔ تہذیب الاخلاق کے تعلیمی مضامین کو چار حصّوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے:
(۱)قدیم تعلیم—اس کا مفید یا غیر مفید ہونا۔ (۲) جدید تعلیم اور اس کی افادیت(۳) تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور (۴) اقامت گاہوں کے قیام کی تجویز اور ان کے فوائد

قدیم تعلیم:
تہذیب الاخلاق کے مضامین میں قدیم تعلیم کی سب سے بڑی خاصیت یہ بتائی جاتی ہے کہ کسی حد تک اس سے تقلید کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ قدیم تعلیم کی شریعت میں اسلاف سے اختلاف کرنا حرام سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح طلبا کے اندر آزادیٔ رائے اور قوتِ ارادی مفقود ہو جاتی ہے۔ سرسیّد نے تہذیب الاخلاق میں قدیم طرزِتعلیم میں مناسب تبدیلی پر زور دیا۔ وہ اس کے مخالف نہ تھے، صرف تبدیلی برائے ترقی چاہتے تھے۔

جدید تعلیم:
تہذیب الاخلاق نے عوام کے سامنے جو تعلیمی خاکہ پیش کیا وہ قدیم تعلیم سے بالکل مختلف تھا۔ سرسیّد نے تہذیب الاخلاق میں اپنے مضامین کے ذریعے جدید علوم کے فوائد کا تذکرہ کیا ہے۔ علوم جدیدہ میں بھی سرسیّد نے جدید علوم کی افادیت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔

تربیت:
تہذیب الاخلاق کے پرچوں میں تعلیم سے زیادہ تربیت اور عمدہ ماحول پر زور دیاگیا ہے۔ تربیت اطفال، بچّوں کی تربیت، ان کی ذہنی نشوونما، شخصیت کی تشکیل پر بہترین و عمدہ مضمون ہے۔ سرسیّد نے عملی طور پر مدرسۃ العلوم میں تربیت کا خاص اہتمام کیا۔

اقامت گاہوں کا قیام، اقامتی زندگی کے فوائد:
سرسّید کے تعلیمی مشن میں اقامت گاہوں کے قیام کی تجویز بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ سرسّید نے لکھا ہے کہ عمدہ سوسائٹی طلبا کو کالج کی اقامتی زندگی میں مل سکتی ہے۔ سرسیّد نے بورڈنگ ہاؤس کو قوم بنانے کی مشین کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بورڈنگ ہاؤس وہ مشین ہے جس کے پُرزے اگر صحیح ڈھنگ سے اپنا کام نہ کریں تو مشین اپنا کام کرنا چھوڑ دے گی اور طلبا اس مشین کے پُرزے ہیں۔

سائنسی و علمی مضامین:
تہذیب الاخلاق کے سائنسی و علمی مضامین میں کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کے قدیم سائنسی و علمی کارناموں کو یاد دلاکر انھیں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب راغب کیا جائے۔ تہذیب الاخلاق سے پہلے سرسیّد ’’سائنٹیفک سوسائٹی‘‘ قائم کرچکے تھے یہ سوسائٹی اپنا کام بہتر طریقے سے انجام دے رہی تھی۔ تہذیب الاخلاق کے لکھنے والوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کی افادیت کو بار بار قوم کے سامنے پیش کیا۔ تہذیب الاخلاق کے کئی مضامین ایسے ہیں جہاں سائنس کے انکشافات بیان ہوئے ہیں۔ تہذیب الاخلاق کے علمی مضامین لکھنے والوں میں مولوی ذکاء اﷲ کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ علم مناظر کے چٹکلے، آپ کا ایک اہم مضمون ہے۔ تہذیب الاخلاق کے سائنسی اور علمی مضامین نے آنے والی نسلوں کی ذہنی رہنمائی ان کے افکار کو جلا بخشی انھیں غور و فکر کی نئی راہیں دکھائیں۔ سرسیّد کی تحریک کا یہ نتیجہ ہوا کہ مسلمانوں میں سائنس داں پیدا ہوئے جنھوں نے قوم کا نام روشن کیا۔

تاریخی و تحقیقی مضامین:
تہذیب الاخلاق میں کئی موضوعات پر لکھا گیا یہ تہذیب الاخلاق کے لکھنے والوں کا ہنر تھا کہ انھوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اسے وسیع، مؤثر اور کارگر بنانے کی وسیع کوشش کی۔ تہذیب الاخلاق کے تاریخی مضامین اپنی جگہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

غرض سرسیّد احمد خان کی زندگی کا مقصد مسلمان قوم کو تعلیمی و علمی میدان میں آگے لانا اور ان کو ترقی کی راہ ہموار کرانا تھا۔ سرسیّد احمد خان کی زندگی ان کی طرزتحریر کی ایک بڑی خوبی بن کر اُبھرتی ہے جس کا ان کی تصانیف سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔انھوں نے زمانے کی تنقید بے راہ روی کو چھوڑ کر اپنی قوم کے لیے اعلیٰ خدمات سرانجام دیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
Naveed Pasha
About the Author: Naveed Pasha Read More Articles by Naveed Pasha: 3 Articles with 30546 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.