نجکاری سے لاکھوں مزدور اور محنت کش بے روزگار ہوں گے
(Ata Muhammed Tabussum, Karachi)
میاںنوازشریف جب بھی برسراقتدار
آتے ہیں، وہ ملک میں نجکاری کے عمل کو تیز کرتے ہیں اور جاتے جاتے ملک کے
کچھ نہ کچھ ادارے اونے پونے بیچ کر اپنے ہمنوا ساتھیو کو بہت کچھ دے جاتے
ہیں۔ اب بھی حکومت اس پروگرام پر تیزی سے عمل درآمد کرنے میں مصروف ہے۔
چیئرمین نجکاری کمیشن اوروزیر مملکت محمدزبیرعمر اور وزیر خزانہ اسحق ڈار
رات دن نجکاری کی فائیلیں آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ 2018تک پی آئی اے ،پاکستان
اسٹیل،ایس ایم ای بینک،اسٹیٹ لائف انشورنس، نیشنل انشورنس سمیت 30اداروں کی
نجکاری کی جائے گی۔ اس وقت پاکستان اسٹیل کی نجکاری پر تیزی سے کام ہورہا
ہے۔ اس میںکام ہونے والی پیش رفت میں حکومت سندھ نے رخنہ ڈال دیا کہ وہ اسے
خرید نا چاہیتے ہیں۔ حکومت سندھ کی دلچسپی پاکستان اسٹیل کو چلانے سے زیادہ
اس کی زمینوں میں ہے، اب مرکزی حکومت نے وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھ دیا ہے
اور کہا ہے کہ اگر سندھ حکومت نے ماہ نومبر کے اختتام تک جواب نہ دیا توپھر
نجکاری کمیشن پاکستان اسٹیل کیلئے دوسرا خریدار تلاش کرے گی۔ حکومت نے
پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے معاملات اندرون خانہ مکمل کرلیے ہیں اور
ٹرانزیکشن تک معاملات پہنچ چکے ہیں، حال ہی میںچائنا میں روڈ شو بھی اسی
لیے کیا گیا جس میں بہت سی چینی کمپنیوں نے بھی پاکستان اسٹیل خریدنے
میںدلچسپی ظاہر کی ہے۔ نواز حکومت دسمبر تک پاکستان اسٹیل کی نجکاری کا
فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت اس بار نقصان والے ادارے ہی نہیں بلکہ منافع
بخش اداروں کی بھی نجکاری کر رہی ہے۔ بہت سے اداروں میں مصنوعی بحران پیدا
کرکے انھیں تباہ کیا جارہا ہے تاکہ انھیں اونے پونے بیچا جاسکے۔ نجکاری
کمیشن نے پی آئی اے پر ہاتھ صاف کردیا ہے۔ اسکی نجکاری کا معاملہ بھی آخری
مراحل میں ہے اس کے علاوہ ، 9 پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری بھی کی
جارہی ہے اور فیصلآباد الیکٹرک کمپنی کی نجکاری کا کام بھی شروع ہے۔ امیر
جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحقکا کہنا ہے کہ ملک میں نجکاری کے نام پر
مکاری ہورہی ہے، منافع بخش اداروں کو اونے پونے داموں بیچ کرسات لاکھ سے
زیادہ مزدوروں کو بے روزگار کیا گیا۔ نجکاری کے نام پر تین ہزار ارب روپے
کی کرپشن کی گئی۔ حکومت اسٹیل مل، پیآئی اے جیسے اداروں کو بیچنا چاہتی ہے
مگر ہم حکومت کو مزدور کشی نہیں کرنے دیں گے۔ حکومت نے نجکاری کے نام پر
محنت کشوں اور مزدوروں پر مسلسل ایک تلوار لٹکا رکھی ہے ۔ دیگر سیاسی
جماعتوں میں جماعت اسلامی ہی واحد سیاسی جماعت ہے جو نج کاری کے خلاف مہم
چلائے ہوئے ہیں۔ کل لاہور میں بھی جماعت اسلامی کی جانب سے نجکاری کے خلاف
ایک بڑی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔ نجکاری کے اس عمل میں ہزاروں مزدوروں
کا معاشی قتل کیا گیا ۔13 اکتوبر 1997 کو یونائٹیڈ بینک لمیٹڈ کے5416
ملازمین کے معاشی قتل کرنے کے بعد جبری برخاست شدہ ملازمین کو 100 فیصد
مراعات دینے کی بجائے 50 فیصد مراعات دی گیں اور 50 فیصد مراعات کو بطور
بھتہ خوری ضبط کرلیا گیا تھا۔ اج تک یہ جبری برخاست شدہ ملازمین انصاف اور
حق تلفی کے ازالہ سے محرم ھیں۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے سلسلے میں 800
ملین ڈالرز ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں ۔اتصلات نے یہ رقم اس وقت دینی تھی۔ اب
ان کا مطالبہ ہے کہ 31 پراپرٹیز کی منتقلی کا وعدہ پورا کیا جائے۔اچھی ساکھ
اور انتہائی منافع بخش ادارہ اسٹیٹ لائف انشورنس جس پر میاں نواز شریف کی
نظر 1996 سے ہے، اب اگلے 2ماہ میں اس کا بھی آئی پی او کیا جائے گا۔ایس ای
سی پی کی رپورٹ پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اسٹیٹ لائف انشورنس
کارپوریشن کی شفافیت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔جس پر اسٹیٹ لائف
کارپوریشن نے ایس ای سی پی سے احتجاج کیا ہے اور آگاہ کیا گیا ۔اسٹیٹ لائف
انشورنس کارپوریشن ایسا منافع بخش ادارہ ہے جو ہر سال حکومت کو کروڑوں روپے
منافع دیتا ہے۔ یہ چار سو ارب روپے مالیت کا ادارہ ہے، اسٹیٹ لائف ہیلتھ،
گروپ انشورنس اور مائیکرو انشورنس کی نئی اسکیمیں شروع کررہی ہے۔ باہر جانے
والے پاکستانیوں کی گروپ انشورنس کی اسکیم پر بھی عمل جاری ہے۔ملک میںجاری
نج کاری کا یہ عمل کسی طور پر بھی قومی یا ملکی مفاد میں نہیں بلکہ آئی ایم
ایف کی ان شرائط کا حصہ ہے۔ جو حکومت قرضوں کے سلسلے میں پوری کر رہی ہے۔
اس وقت 68قومی ادارے اونے پونے بیچنے کا منصوبہ ہے۔ زیادہ تر اداروں کی
خریداری میں حکومت میں شامل لوگ دلچسپی لے رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ
نجکاری شفاف نہیں بلکہ سفارشی بنیادوں پر ہوگی۔ قومی اداروں کے پاس اربوں
روپے کی زمین اور اثاثے ہیں جن پر ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی نظریں لگی
ہوئی ہیں۔ نجکاری سے لاکھوں مزدور اور محنت کش بے روزگار ہوں گے۔ اور ملک
میں معاشی ابتری میں اضافہ ہوگا۔ |
|