متاثرین زلزلہ کی مشکلات میں اضافہ.... ہنگامی اقدامات کی ضرورت
(عابد محمود عزام, Karachi)
ملک میں شدید ترین تباہ کن زلزلہ
آئے کو کئی دن گزرنے کے بعد بھی بہت سے علاقے ابھی تک امدادی سرگرمیوں سے
محروم اور بہت سے لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ اگرچہ صوبائی اور وفاقی
حکومتوں کے علاوہ پاک فوج بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔پاک فوج کے
سربراہ جنرل راحیل شریف زلزلہ کی اطلاع ملتے ہی پشاور پہنچ گئے تھے اور
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے لندن کا دورہ مختصر کر کے زلزلے کے اگلے روز
واپس آ کر شانگلہ کا دورہ بھی کیا اور گزشتہ روز بھی وزیر اعظم نے لوئر دیر
کے علاقے تیمر گرہ کے دورہ کے موقع پرزلزلہ متاثرین کے لیے امدادی رقوم کے
چیک تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم جانوں کا ازالہ نہیں کرسکتی اور زلزلہ
زدگان کا غم اور دکھ بھلایا نہیں جاسکتا۔ شمالی علاقوں میں سردی کا موسم
آنے سے قبل امدادی رقوم کی تقسیم چاہتے ہیں، تاکہ زلزلہ متاثرین جلد سے جلد
اپنے گھروں کی تعمیر کرسکیں، متاثرین کو سردی کی شدت اور مشکلات سے بچانا
چاہتے ہیں، لیکن ذرایع کے مطابق پاک فوج، وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب
سے زلزلہ متاثرین کے لیے شروع کی گئی امدادی سرگرمیوں کے باوجود ابھی تک
خیبر پختونخو ا اور فاٹا میں ایسے دور دراز علاقے ہیں، جہاں تاحال امدادی
سرگرمیاں شروع نہیں کی جا سکی ہیں اور سردی کی وجہ سے متاثرین مشکلات سے
دوچار ہیں۔ خیمے، کمبل اور گرم کپڑے خصوصاً بچوں کے کپڑے وافر تعداد میں ان
تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ بعض علاقوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی درجے
نیچے آ گیا ہے اور بہت سے مقامات پر متاثرین کھلے آسمان کے نیچے امداد کے
منتظر ہیں۔ گزشتہ ہفتے آنے والے خوفناک زلزلے سے جہاں کافی زیادہ جانی
نقصان ہوا ہے، وہیں ہزاروں مکان، اسکول اور عمارتیں منہدم اور بڑی تعداد
میں جزوی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ حکام کے مطابق حالیہ زلزلے سے تباہ ہونے
والے مکانات کی تعداد 25800 سے تجاوز کرچکی ہے۔ این ڈی ایم اے کے اعداد
وشمار کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں ملک بھر میں جاں بحق افراد کی مجموعی
تعداد 272، جبکہ 2152 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں 15692
مکانات تباہ ہوئے ہیں، جبکہ حکومت کے مطابق زلزلے کی وجہ سے صوبہ بھر میں
تقریباً 1235 سکولوں کو نقصان پہنچا ہے جس میں 135 تعلیمی اداروں کی
عمارتیں استعمال کے قابل نھیں رہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ حکومت
نے تباہ شدہ اسکولوں میں تعلیمی سلسلہ برقرار رکھنے کے لیے ہنگامی بنیادوں
پر کام کا آغاز کردیا ہے اور اس ضمن میں تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے
ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں دو سو سے زاید افراد جاں بحق اور 1802 افراد
زخمی ہوئے ہیں۔ تباہ ہونے والے مکانات میں سے 90 فیصد سے زاید مکانات صوبہ
خیبر پختونخوا میں ہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں سوات میں 3681 مکانات تباہ
ہوئے ہیں۔ باجوڑ ایجنسی میں 23 ہلاکتوں کے ساتھ 8120 مکانات بھی تباہ ہوئے
ہیں۔ گلگت بلتستان میں تباہ ہونے والے مکانات کی کل تعداد 413 ہے۔
چترال کی مقامی انتظامیہ کے مطابق زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد
37 ہے اور چترال میں تباہ ہونے والے مکانات کی تعداد 8300 بتائی جارہی ہے ،
یہاں بڑی تعداد میں لوگوں تک امدادی سامان نہیں پہنچ سکا۔ مقامی ذرایع کے
مطابق چترال میں سردی بڑھ گئی ہے اور ایک خیمے میں آٹھ سے 10 افراد کا گزار
مشکل ہے، جہاں آگ بھی نہیں جلائی جا سکتی، لیکن چترال میں کئی علاقے ایسے
بھی ہیں، جہاں ابھی تک ٹینٹ بھی نہیں پہنچائے گئے اور لوگ کھلے آسمان تلے
پڑے ہیں۔ جبکہ چترال میں معمول کی برفباری کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے، جس
سے ان لوگوں کے لیے انتہائی مشکل پیدا ہوجائیں گی، جن کے گھر زلزلے میں
تباہ ہوگئے ہیں، کیونکہ شدید سردی کے عالم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا
نہ صرف انتہائی مشکل کام ہے، بلکہ اس سے بیماری کی وجہ سے جان کے خطرات بھی
لاحق ہوسکتے ہیں۔ چترال میں چار ماہ پہلے سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی
ہوئی تھی، جس سے متاثرہ افراد اب تک مشکل صورتحال میں ہیں۔ حکومت نے سیلاب
متاثرین کے لیے جو وعدے کیے تھے،ان پر بھی عمل نہیں کیا، جبکہ عوام نے اپنی
مدد آپ کے تحت سڑکیں کھولیں اور اپنے تباہ شدہ گھروں کو تعمیر کرنے میں
کوشاں تھے کہ زلزلہ آگیا، جس سے ایک بار پھر چترال میں عوام کی زندگی اجیرن
ہوگئی ہے۔
ملک کے شمالی علاقوں بشمول زلزلہ متاثرہ علاقوں میں بارش اور برفباری کی
پیش گوئی کی گئی ہے، جس کے بعد زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بسنے والے افراد
کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا، خاص طور پر ان خاندانوں اور افراد کے
لیے صورت حال مزید سنگین ہو جائے گی، جن تک امداد ابھی تک نہیں پہنچ پائی
ہے۔ ملک میں زلزلے سے متاثرہ زیادہ تر علاقے دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر
مشتمل ہیں اور حکام ان علاقوں تک امدادی سامان کی ترسیل کے لیے ہیلی کاپٹر
بھی استعمال کر رہے ہیں، لیکن حکام کے بقول اب بھی کئی مقامات ایسے ہیں،
جہاں امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں
ایسے علاقوں میں پھنسے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا
رہا ہے، جبکہ ماہرین صحت پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ سردی کی شدت سے ان علاقوں
میں بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ بڑی
تعداد میں لوگ اب بھی امدادی سامان سے محروم ہیں۔ امدادی ادارے ابھی تک
زلزلے سے متاثرہ تمام علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، کیونکہ
متاثرہ علاقے بہت وسیع اور دشوار گزار ہیں اور بہت سی جگہوں پر سڑکیں بھی
قابل استعمال نہیں ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں حالیہ زلزلے سے متاثر ہونے والے زیادہ
تر اسکولوں میں شدید سرد موسم کے باوجود بچے کھولے آسمان تلے تعلیمی سلسلہ
جاری رکھنے پر مجبور ہیں، جس سے زلزلے سے خوف زدہ ننھے منے بچوں کے بیمار
ہونے کا خطرہ پیدا ہورہا ہے۔ دیر میں اکثریتی تباہ ہونے والے اسکول پہاڑی
اور دشوار گزار علاقوں میں واقع ہیں، جہاں شدید سردی کا موسم پہلے ہی شروع
ہو چکا ہے۔ تباہ کن زلزلے کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور فاٹا کے زیادہ متاثر
ہونے والے علاقوں میں شامل باجوڑ ایجنسی میں بھی کئی دن گزر جانے کے باوجو
امداد نہیں پہنچ سکی ہے۔ باجوڑ ایجنسی کے تین تحصیل سالارزئی، ماموند اور
صدر مقام خار میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ زلزلے کے
باعث ایجنسی کا دور افتادہ سالارزئی تحصیل سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، جہاں
بعض پہاڑی علاقوں میں پورے کے پورے گاؤں زلزلے کی زد میں آنے کے باعث مکمل
طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ تاہم ان میں بیشتر علاقوں میں سڑکوں کی حالت پہلے
ہی سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں امداد پہنچنے میں
مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ کوہستان میں بھی زلزلے کی وجہ سے کافی نقصان ہوا
ہے۔ کوہستان میں اب تک مختلف رابط سڑکیں نہیں کھولی جا سکی ہیں۔ چند ایک
یونین کونسلز میں نقصانات بہت زیادہ ہوئے ہیں، لیکن وہاں بھی ابتدائی ریلیف
نہیں پہنچائی جا سکی۔ الپوری سے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ رات کے وقت
موسم انتہائی سرد ہونے کی وجہ سے خیموں میں رہنا مشکل ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے ضلع دیر اپر میں زلزلے سے تباہ ہونے والے
مکانات کی دوبارہ تعمیر میں ایک مرتبہ پھر عمارتیں بنانے کے ضوابط کو نظر
انداز کیا جا رہا ہے۔ متعلقہ محکمے اور متاثرین گھروں کی تعمیر پرانے انداز
میں کر رہے ہیں، یعنی تعمیر بنیادوں اور مٹی گارے کے بغیر ہی کی جا رہی ہے۔
حکام اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ،اگر دوبارہ زلزلہ آیا تو شاید یہی مکانات
جھٹکے برداشت نہ کرسکیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ، این ڈی ایم
اے نے ملک بھر بلڈنگ کوڈز جاری کیے تھے اور زلزے سے متاثرہ علاقوں یا فالٹ
لائن پر جو مکانات تعمیر ہوئے وہ نئے کوڈز کے تحت ہی تعمیر ہوئے جن کی
منظوری متعقلہ محکمہ دیتا ہے، لیکن ضلعی رابطہ کار افسر ذکاءاللہ خان کے
مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں اب تک ایسی کوئی حکمت عملی طے
نہیں کی گئی، بلکہ یہاں اب کئی گھر پہلے کی طرز پر تعمیر بھی کیے جا چکے
ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات تمام ممالک میں آتی ہیں، ان سے بچنا
ممکن نہیں ہے، لیکن ان کے نقصانات کو کم کرنا ممکن ہے، اس کے لیے ضروری ہے
کہ متعلقہ ادارے تباہ شدہ مکانات کو اس طرز پر تعمیر کریں کہ خدانخواستہ
اگر دوبارہ زلزلہ آتا ہے تو نقصانات کم سے کم ہوں۔ کئی ممالک میں شدید
زلزلے آتے ہیں، لیکن نقصانات انتہائی کم ہوتے ہیں۔ جاپان میں ہرسال سیکڑوں
چھوٹے بڑے زلزلے آتے ہیں، لیکن ہلاکتیں نہیں ہوتیں، ہماری حکومت کو چاہیے
کہ جاپان حکومت سے اس راز کو جانا جائے کہ انہوں نے کیا طریقہ اپنایا ہے،
جس کی وجہ سے زلزلے میں نقصانات انتہائی کم ہوتے ہیں۔ دوسری جانب متعلقہ
اداروں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ جتنا جلد ہو سکے، زلزلہ
متاثرین کی بحالی کے انتظامات کیے جائیں، کیونکہ متاثرہ علاقے شدید سرد
ہیں، وہاں برفباری بھی ہوتی، جس سے سردی مزید بڑھ جاتی ہے۔ ان حالات میں
متاثرین کا تباہ شدہ مکانات اور کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا انتہائی مشکل
ہے، اگرچہ وزیر اعظم نے متاثرین کو شدید سردی کے شروع ہونے سے قبل امداد
پہنچانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس پر یقین تو اسی وقت کیا جاسکتا ہے، جب یہ
امداد متاثرین تک پہنچ جائے گی، کیونکہ ہماری حکومتوں کا سابقہ ریکارڈ یہ
ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے میں انتہائی سستی اور کاہلی
کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ کیونکہ آج سے دس سال پہلے آنے والے زلزلے کے متاثرین
کے لیے بھی ان کے حصے کی امداد نہیں پہنچ سکی ہے۔ |
|