ڈرائیونگ لائسنس ……مہلت اور ٹریفک پولیس
(Hafeez Khattak, Karachi)
شہر قائد ، پاکستان کا سب سے بڑا
شہر ہے ۔ دو کڑور کی آبادی کے اس شہر میں جہاں وسائل کہیں زیادہ ہیں وہیں
پر مسائل بھی بے پناہ ہیں۔ مسائل سے نجات حاصل کرنے کیلئے ادارے اپنے تئیں
کاوشوں میں مصروف رہتے ہیں کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور اکثر و
اوقات انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک کی سبھی سیاسی جماعتوں کی
یہ کاوش رہتی ہے کہ وہ شہر قائد میں اپنی کارکردگی کو بڑھائیں تا کہ
انتخابات میں انہیں ووٹ ملیں اور انہیں اپنی خدمات پیش کرنے کا اور موقع
ملے۔
شہر قائد کی عوام ان دنوں جس جانب سب سے زیادہ متوجہ ہے وہ موٹر سائکل اور
گاڑی لائسنس کا معاملہ ہے ۔ 38 لاکھ افراد ایسے ہیں جو کہ شہر قائد کی
سڑکوں پر اپنی گاڑیوں کو چلاتے ہوئے نر آتے ہیں ۔ شہر قائد میں ہر شہری ہی
ٹریفک جام کے مسائل کو پیچیدگی سے محسوس کرتا ہے اور سبھی شہرویوں کی یہ
کاوش ہوتی ہے کہ ٹریفک جام سے بچنے کیلئے وہ متبادل راستوں کا اختیار کرے
ایسے راستوں کا جن پر دیگر ٹریفک برائے نام ہو، جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق
گاڑی چلاتے ہوئے پہنچیں اور اپنے کام مکمل کرنے کے بعد سکون سے گھر پہنچ کر
آرام کریں ۔ ذرائع ابلاغ پر اکثر اوقات ٹریفک جام کی خبریں آتی ہیں ۔ان پر
قابو پانے کیلئے کاوشیں بھی کی جاتی ہیں صبح کے اوقات میں جب اسکولوں اور
دفاتر کا وقت ہوتا ہے تو سڑکیں گاڑیوں ، موٹر سائکلوں اور دیگر آمدورفت سے
بھر ہوتی ہیں ۔ کچھ دیر کیلئے ان میں کمی واقع ہوجاتی ہے تاہم جونہی
اسکولوں کی چھٹی کا وقت آتا ہے تو اسکولوں کے طلبہ ، ان کے والدین ، اساتذہ
، دیگر عملہ سبھی ٹریفک جام کے مسئلے برداشت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ٹریفک
مسائل پر قابو پانے کیلئے ٹریفک اہلکار بھی بسا اوقات اپنی ذمہ داریوں کے
احسن انداز میں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم شہہر قائد کے سبھی باسی اس
بات پر متفق ہیں کہ ٹریفک اہلکار اس وقت نظر آتے ہیں جب کوئی انتہائی اہمیت
فردیا وی آئی پی کا گذر ہوتا ہے اسے آنا ہوتا ہے یا اسے جانا ہوتا ہے اس
لمحے ٹریفک اہلکار بھی نظر آتے ہیں ان کے ساتھ پولیس کے جوان بھی مستعد
ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی شاہراہیں گھنٹوں عام ٹریفک کیلئے جام ہوجاتی ہیں مخص اس
لئے کہ وہ vipکی گذر ہو سکے۔ اکثر اوقات تو ان میں ایمبولینسیں بھی پھنس
جاتی ہیں ایمرجنسی کے باوجود انہیں آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ملتا ۔ یہ
مسائل بھی حل تلب ہیں اس شہر قائد کی ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کیلئے اور
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ جس طرح ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کیلئے آخری
تاریخ پر ان کی برانچوں میں جس عوامی سمندر کا سامنا کیا گیا اس کے باوجود
ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کی ایک برانچ پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا
عوام پر ظلم ہوا اور عوامی مفاد میں صوبائی حکومت کے وزیر کو بالاآخر ایک
ماہ کی توسیع کرنے پڑی ۔ ایک ماہ تک ڈرائیونگ لائسنس کا حصول کس انداز میں
ہوتا ہے یہ بات عوام ہی بہتر جانتے ہیں کہ کسی برانچ میں جانے کے بعد انہیں
کس طرح کے حالات کا سامنا کرپڑتا ہے۔تاہم ان سب کے باوجود عوام مستقبل میں
ٹریفک اہلکار وں ، اور ان کی جانب سے عائد ہونے والی سزاؤں سے بچنے کیلئے
اپنا لائسنس ضرور حاصل کریں گے۔ 2کڑور آبادی کیلئے صرف تین برانچوں کا ہونا
ہی ایک بڑی اور بری خبر ہے اور اس کے بعد وہاں موجود افراد کا سلوک اس سے
بھی بدتر ہے۔ یہ محکمہ کب سے قائم ہے اور کب سے یہ اپنے فرائض سرانجام دے
رہا ہے تو کیا اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ شہر قائد کی آبادی کس انداز
میں برھ رہی ہے اور اس اضافے کے ساتھ ان کی ذمہ داریوں میں بھی کس قدر
اضافہ ہورہا ہے؟؟؟؟اس کے باوجود صرف 12لاکھ افراد ہی اپنا لائسنس بنواسکے
جب کہ ابھی تک لاکھوں افراد کو اس معاملے میں آگے بڑھنے اور اپنا لائسنس
حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ حکومت سندھ مرکزی حکومت کی مدد سے اس مسئلے پر
قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر سکتی تھی اور اب بھی حاصل کر
سکتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی اس جانب توجہ اس قدر نہیں جس قدر اس
مسئلے کو حل کرنے کیلئے درکار ہے۔ بہرحال یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جو اضافی
وقت سندھ حکومت نے عوام کو لائسنس کے حصول کیلئے دیا ہے اس سے شہر قائد کی
عوام مستفید ہونے کی پوری کوشش کرے گی۔ تاہم اس کے ساتھ ضرورت اس امر کی
بھی کہ محمکہ ٹریفک عوام کے مفاد میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے
تین برانچوں سے اپنے کاموں کو بڑھا کر دو درجن کریں تاکہ شہر قائد کی عوام
کراچی میں گاڑی چلانے کیلئے لائسنس باآسانی حاصل کر سکیں۔ عوام کی عوامی
حکومتیں وہ سندھ میں پیپلز پاڑٹی کی ہو یا مرکز میں ن لیگ انہیں حکومت اس
انداز میں کرنے چاہئے کہ ان کے اقدامات اور اختیارات سے عوام ہی مستفید ہوں۔
عوام نہ صرف انہیں ایسا کرنے پر اچھے لفظوں میں یاد رکھیں گے بلکہ یہ بھی
ممکن ہے کہ یہی عوام انہیں آئندہ آنے والے انتحابات میں ووٹ دے کر کامیاب و
کامران کریں۔
شہر قائد کے وہ سب باسی جو ابھی تک لائسنس کے بغیر سڑکوں پر اپنی گاڑیوں
اور موٹر سائکلوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں ان سب سے یہی عرض ہے کہ اس ایک ماہ
میں اپنی تمام تر مصروفیات کو ایک جانب رکھتے ہوئے اس کام کو کرنے کیلئے
اور اپنا لائسنس حاصل کرنے کیلئے پوری کوشش کریں۔ انسان جب کوشش کرتا ہے تو
اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اور یہ کامیابی ہر پاکستانی کی راہ تک کرہی ہے۔
۔۔۔
|
|